لعل شہباز شاہ قلندر کے مزار پر ہونے والا خودکش دھماکہ قومی سانحہ ہے، مفتی منیب الرحمن

Sehwan Sharif Blast

Sehwan Sharif Blast

کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ ہمارے اکابرین کی نسبت مزاروں اور درگاہوں سے ہے، پاکستان بنانے والے صاحب مزارات سے تربیت یافتہ تھے،اکابرین کی تاریخ امن و محبت کے ساتھ اسلام کی ترویج و اشاعت پر مبنی رہی ہے، مزارات مقدسہ پر دھماکے کرنے والے مسلمان نہیں ہیں، بلکہ انتہاپسند اور دہشت گرد ہیں،کوئی بھی مذہبی و سیاسی جماعت ان دہشت گردوں کو قبول نہیں کرسکتی ہے اور نہ ہمدردی کا اظہار کرسکتی ہے، جو لوگ ان دہشت گردوں کے سہولت کا ر ہیں، ان لوگوں کو نشان عبرت بنایا جائے،گیسٹ ہائوس سہون شریف میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ لعل شہباز شاہ قلندر کے مزار پر ہونے والا خودکش دھماکہ قومی سانحہ ہے اور انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے،حیرت انگیز بات ہے کہ ہر سانحہ کے بعد آپریشن کیا جاتا ہے۔

حادثے کے بعد بہت سی کاروائیوں میں دہشت گرد عناصر مارے گئے، آخر یہ کاروائی پہلے کیوں نہیں کی گئی؟سہون شریف کے ایک سو کلومیٹر کے دائرے میں کوئی بڑا ہسپتال نہیں ہے، صوبہ سندھ کو ہمیشہ جاگیردارانہ انداز سے چلانے کی کوشش کی گئی،عوام بے بس ہے،تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کے صدر اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سانحہ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی لاشوں کے اعضاء نالے میں پھینک دئیے گئے، یہ کہاں کی انسانیت ہے؟اوقاف میں من پسند بھرتیاں کی گئی اور ان لوگوں کو ذمہ داری دی گئی جنہیں مزار اور صاحب مزار سے کوئی عقیدت نہیں ہے بلکہ انہیں مزار کے چندے کی فکر ہے،اوقاف میں سنجیدہ لوگوں کو شامل کیا جائے اور مقامی اوقاف کمیٹیوں کوعلماء کرام کے زیر اثر کیا جائے،مرکزی جماعت اہل سنت سندھ کے امیر مفتی اعظم سندھ مفتی محمد جان نعیمی نے کہا کہ مزارات مقدسہ سے چرس، افیون، ناچ گانا اور ڈھول جیسی خرافات بند کی جائیں،مزارات پر مخلوط نظام کو ختم کیا جائے،ان خرافات کی آڑ میں دین اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے،مرکزی جماعت اہل سنت و جمعیت علماء پاکستان کے مشترکہ پلیٹ فارم سے گیسٹ ہائوس سہون شریف میںہونے والی اہم ترین پریس کانفرنس میںکہا گیا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بعد بھی کیا ہم اس مقام پر کھڑے ہیں؟کیا ابھی کسی پلان یا منصوبہ بندی کی ضرورت ہے؟ ہمارے سیکورٹی ادارے مزید کتنے اختیار ات کے بعد ملک میں امن و امان قائم کرسکیں گے؟کراچی میں آپریشن کیا گیا ہم بار بار کہتے رہے کہ مجرم اندرون سندھ بھاگ گئے ہیں مگر ہماری نہیں سنی گئی، اب پانی سر سے اوپر جا چکا ہے،اب معلوم ہورہا ہے کہ خیرپور اور شکارپور میں دہشت گردوں کے اڈے ہیں، یہ رویہ سنجیدہ نہیں ہے، پہلے ہی سے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے تھا،پنجاب میں عسکری قیادت کے اتفاق سے اگررینجرز کامیاب آپریشن کرتی ہے تو یہ آپریشن ملک و قوم کی لائف لائن ثابت ہوگا،اصل توجہ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں دینے کی ضرورت ہے جہاں کبھی بھی اس طرح کی کاروائیاں عمل میں نہیں لائی گئی،عدالت نے جن کو پھانسی کی سزا دی ہے انہیں پھانسی پر لٹکایا جائے تا کہ ان مجرموں کو نشان عبرت بنایا جاسکے، ہم فوجی عدالتوں کی حمایت اس لئے کی تھی کہ اس سے دہشت گردی میں کمی آئے گی؟ مگر معاملہ سمجھ سے بالاتا ہے،سول اور عسکری قیادت کا ملک کے تحفظ اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے ایک ساتھ کھڑے ہونا انتہائی ضروری ہے،آپس کے اختلافات ختم کر کے قوم کو یکجہتی کا ثبوت فراہم کیا جائے، پارلیمنٹ بھارتی سازشوں کے خلاف قرار پیش کرے اور قانون بنائے، بھارت جنگی جنونی بن چکا ہے، افغانستان سے ماضی میں خراب خارجہ پالیسی رکھی گئی جس کی وجہ سے آج یہ دیکھنے کو مل رہا ہے،سرحدی علاقوں میں داخلی راستوں پر سکینگ مشین نصب کی جائیں۔

صرف رینجرز کی چوکیا ں بنانے سے غیر قانونی اسلحہ نہیں روکا جا سکتا ہے،منشیات کے اڈے چلانے والے بھی گرفتار کئے جائیں کیوں کہ دہشت گردوں کے معاون یہ لوگ بھی ہیں، مزارات مقدسہ پر سیکورٹی ابتر حالات سے دو چار تھی، پے درپے دھماکوں کے باجود بھی سندھ حکومت نے کبھی بھی مزارات کی سیکورٹی کو سنجیدہ نہیں لیا،سندھ حکومت آج تک پسماندہ علاقوں میں ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء بھی فراہم نہیں کر سکی،مزارات کی آمدنی کا آڈٹ کیا جائے اور حاصل شدہ آمدنی مزارات کی سیکورٹی اور زائرین پر خرچ کی جائے،بتایا جائے کہ کڑوڑوں روپیہ اوقاف نے کہاں گم کیا،مزارات کے چندے کئی وزیروں کے گھر چلتے ہیں،چندہ کہاں جاتا ہے کسی کو بھی نہیں معلوم ہے، اوقاف کے بنیادی مقاصد چندہ وصل کرنا رہ گئے ہیں، مزارات پر توجہ ختم ہوگئی ہے،اس موقع پر جمعیت علماء پاکستان و مرکزی جماعت اہل سنت کے قائدین و رہنما، علماء و مشائخ اور اکابرین پیر میاں عبدالباقی، مفتی محمد ابراہیم قادری، پیر ایوب جان سرہندی، مفتی عبدالحلیم ہزاروی ، مولانا ریحان امجدی، مفتی عبدالرحیم سکندری، مفتی محمد شریف سرکی، مولانا مشتاق نقشبندی، مولانا محمد علی جان مجددی،پیر غلام شاہ جیلانی ،مفتی بدرالدین سرھیو،مولانا شفیق قادری،مولانا مفتی نورالنبی سکندری، مولانا مشرف محمود قادری،مفتی غوث بغدادی، عبدالحفیظ انصاری، محمد معین شیخ،مستقیم نورانی، مولانا زاہد قادری، مولانا تاج الدین نعیمی، زبیر صدیقی ہزاروی،جنید مصطفی سرھیو،پیر سید ضیاء اللہ شاہ جیلانی، پیر سید عبدالقادرشاہ، پیر آغا فقیر محمد اشرفی، پیر امان اللہ جان سرہندی، پیر سید ضمیر حسین شاہ جیلانی، پیر سید دربار علی شاہ ، پیر سید محمد شاہ، پیر سید شہاب الدین، پیر عبدالمنان قادری، پیر منظور احمد قریشی، پیر حسن اللہ کرمی، پیر زاہد علی ملکانی، پیر سید محمد شاہ لکیاری، پیر علامہ منور قریشی، مفتی خلیل احمد اشرفی، مفتی بلال رضا، مولانا عبدالحلیم، مولانا عبید اللہ قریشی، حافظ بشارت نقشبندی، مولانا اسمائیل سکندری، مولانا عبدالقیوم نعیمی، مولانا امین خلیلی، مولانا حافظ عثمان نعیمی، مولانا سید محفوظ شاہ بخاری، مولانا حافظ امین جمالی، مولانا سید مرید شاہ کاظمی، مولانا حافظ گلزار احمد، مولانا حافظ یار محمد، مولانا محمد صالح، مولانا محمد علی، مولانا محمد ذہین، مولانا عبدالوہاب جتوئی، مولانا غلام رسول، مولانا محمد سومرو، مولانا حافظ احمد علی عباسی سمیت سندھ بھر سے200سے زائد علماء کرام و مشائخ اورسینکڑوں کارکنان و نمائندگان نے شرکت کی،جمعیت علماء پاکستان، مرکزی جماعت اہل سنت ، انجمن طلبہ اسلام، انجمن نوجوانان اسلام،فدایان ختم نبوتۖ نے مشترکہ طور پر مزارات اولیاء مہم کو بھرپور انداز میں چلانے کا اعادہ کیا ، قائدین نے کہا کہ ہم مزارات کے متولیوں، انتظامیہ اور سجادہ نشینوںسے ورکنگ رلیشن شپ بنا رہے ہیں، جمعیت علماء پاکستان و مرکزی جماعت اہل سنت کی مقام و ضلعی تنظیمیں مزارات کے حوالے سے رابطے شروع کردیں،پریس کانفرنس کے بعد قائدین و اکابرین نے مزار مقدسہ کا دورہ کیا اور حضرت لعل شہباز قلندر کو سلام عقیدت پیش کیااور مقامی لوگوں سے ملاقات کے ہسپتال میں جا کر بعد زخمیوں کی عیادت کی،سندھ بھر کے نمائندہ علماء مشائخ و اکابرین نے نگران اعلیٰ مرکزی جماعت اہل سنت شاہ محمد اویس نورانی صدیقی، امیر اہل سنت پیر میاں عبدالخالق بھرچونڈی شریف، مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن ، اور مفتی اعظم سندھ مفتی محمد جان نعیمی کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔

نورانی میڈیا سیل۔ جمعیت علماء پاکستان و مرکزی جماعت اہل سنت