اس سادگی پہ کون مرنہ جائے اے خدا

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
ہمارے کپتان صاحب بھی اب تھوڑے تھوڑے سیاسی ہوتے جا رہے ہیں اسی لیے ان کے لہجے میں وہ گھَن گرج باقی رہی نہ بڑھک بازی۔ غیر پارلیمانی زبان کا استعمال بھی اب کم کم ہی نظر آتا ہے۔ شاید انہوں نے بھی مصلحتوں کی ”بکل” مارلی اسی لیے اب وہ دھرنوں والے عمران خاں تو کہیں نظر ہی نہیں آتے جو”سونامیوں” کے محبوب ہوا کرتے تھے۔

انہیں آہستہ آہستہ اپنی ماضی میں کی گئی غلطیوں کا احساس بھی ہوتاجا رہاہے جس کاوہ برملا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔اُنہوں نے اِنٹرا پارٹی الیکشن کے سلسلے میں بلائی گئی پریس کانفرنس میں اقرار کیا کہ پی ٹی آئی کے پچھلے انٹراپارٹی انتخابات میں ووٹ خریدے گئے اور ہر کسی نے مقدور بھر دھاندلی بھی کی لیکن چونکہ الزامات ثابت ہونا مشکل تھا اس لیے وہ کوئی کارروائی نہ کر سکے۔

عرض ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی غیرشفافیت کااعلان توجسٹس (ر) وجیہ الدین کی سربراہی میںقائم کی گئی کمیٹی بہت پہلے کرچکی تھی ۔ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق عبد العلیم خاںاورجہانگیر ترین کی رکنیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی سفارش بھی کی لیکن شاید اُس وقت ہمارے کپتان صاحب میں علیم خاںاور جہانگیرترین پرہاتھ ڈالنے کی ہمت تھی نہ سکت۔یہی نہیں بلکہ اُنہوںنے تو اِن دونوں کو قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لیے نامزد بھی کیااوراُن کے حلقوںمیں ذاتی طورپر بھرپور کیمپین بھی کی اِس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ ”الزام ثابت نہیں کر سکتے تھے اِس لیے ووٹ خریدنے والوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا گیا۔

Elections

Elections

یہ اصحاب آج بھی کپتان صاحب کے دائیںبائیں نظرآتے ہیںاور اِن جیسے دوسرے بھی ۔وجہ شایدیہ ہوکہ اِن اصحاب کی تجوریاںلبالب ہیںاور انتخابات کے موجودہ نظام میں پیسوں کے بغیرانتخاب میں کو دنے کاتصوربھی محال ۔ عمران خاں صاحب نے کہاکہ تحریکِ انصاف کی تمام تنظیمیںتحلیل ہوچکیںاب براہِ راست الیکشن ہوںگے جو 25 اپریل سے پہلے مکمل کرلیے جائیںگے ۔وہ انتخابات کے سلسلے میںاُسی الیکشن کمیشن سے مددکے طالب بھی ہوئے جس کے خلاف وہ گرجتے برستے اوراُنہیں خائن وبددیانت قراردیتے نہیں تھکتے تھے ۔اِس سے بڑا”یوٹرن” توشاید خاںصاحب نے اپنی زندگی میںکبھی نہیںلیا ہو گا ۔الیکشن کمیشن کونا معتبر ٹھہرانے اوراُس کی بددیانتی کاگلی گلی ڈھنڈوراپیٹنے والے خاںصاحب نے جب اُسی الیکشن کمیشن سے مددکے طلب ہوئے تومعترضین اورمخالفین نے شورمچا دیاکہ

میر کیا سادا ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

اسی پریس کانفرنس میںہمارے کپتان صاحب اپنے بائیںہاتھ کی چھوٹی انگلی میںپہنی انگوٹھی کوبار بارگھماتے نظرآئے توایک” شریرصحافی” نے اُن سے انگوٹھی کے بارے میںسوال ”پھڑکا” دیا۔ شایدوہ ہمارے کپتان صاحب سے کچھ ”اُگلوانا” چاہتاہو اوراُس کا مطمح نظریہ ہو کہ

جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُن سے ہمکلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں

لیکن اُس کے سامنے توبدلے ہوئے عمران خاںبیٹھے تھے جنہوںنے پہلے تو یہ کہا ”بعدمیں بتاؤںگا ” لیکن پھرکہا ”یہ وہ انگوٹھی نہیںجو آپ سمجھتے ہیں،اتنی جلدی ہیٹ ٹرک نہیںہو سکتی”۔ گویاتبدیلی اب بھی آنے کے روشن امکانات باقی ہیں۔دھرنوںکے ایام میںجب خاںصاحب نے کہاتھا ”میںچاہتا ہوںکہ جلدنیا پاکستان بن جائے تاکہ میںشادی کرلوں”۔ تو لوگوںنے یہ جاناکہ خاںصاحب کی حسِ مزاح پھڑک رہی ہے لیکن بعدمیں ثابت ہواکہ خاںصاحب سنجیدہ تھے، لوگ ہی نہ سمجھ سکے ۔وہ ”نیاپاکستان” تونہ بناسکے لیکن شادی ضرورکر لی ۔شاید اُنہوںنے سوچاہوگا کہ نیاپاکستان بناتے بناتے تووہ بوڑھے ہوجائیںگے اِس لیے یہ ”نیک کام” پہلے کرلینے میںکوئی حرج نہیں ۔دراصل ہمارے کپتان صاحب کوجلدی ہی بہت ہوتی ہے۔

Pakistan

Pakistan

خاں صاحب کا نیا پاکستان بنانے کاخواب تودُور بہت دُوراُفق کے اس پا رہے اور”ہیٹ ٹرک” کی راہ میںکوئی رکاوٹ نہیںاِس لیے اُمیدِواثق ہے کہ اب بھی قوم عن قریب ہیٹ ٹرک کی خوشخبری سُن لے گی ۔ویسے بھی کپتان صاحب ”تبدیلی” کے داعی ہیں ۔پہلے بھی اُنہوںنے تبدیلی کانعرہ لگایااور پھرمحترمہ ریحام خاںسے شادی کے بعدکہا ”کون کہتاہے کہ تبدیلی نہیںآئی ،میرے گھرمیں توتبدیلی آگئی ہے”۔ خاںصاحب کی بے چین طبیعت چونکہ کسی ایک ”تبدیلی” پراکتفانہیں کرسکتی اِس لیے وہ ایسی تبدیلیاں لاتے ہی رہیںگے ۔یہ اُن کاخالصتاََ ذاتی اورنجی معاملہ ہے اِس لیے وہ اپنی انگلیوںمیں چار ،چار انگوٹھیاں بھی پہن لیں توکسی کوسوال کرنے کاکوئی حق نہیں۔ اب کیاکیجئے کہ ہمارے صحافیوںکے پیٹ میں ”ایویں خواہ مخواہ” مروڑاُٹھتے رہتے ہیںاور وہ خاںصاحب سے ”پُٹھے پُٹھے” سوال کرنے سے باز نہیں آتے۔

نئے پاکستان کے داعی کپتان صاحب نے اپنے انتخابی منشورکے عین مطابق بے رحمانہ احتساب کاڈول ڈالااور جب خیبرپختونخوا حکومت کے قائم کردہ احتساب کمیشن نے حاضرسروس سیکرٹریوںکو گرفتارکیا اوراپنے ہی وزیر ضیاء اللہ آفریدی کوجیل کی سلاخوںکے پیچھے بھیجاتوپورے ملک کے ”سونامیے” اِس کابھرپور کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے رہے ۔ تب گلی گلی خاںصاحب کے بے رحمانہ احتساب کاشور تھالیکن جلدہی خاں صاحب اوراُن کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک کوآٹے دال کابھاؤ معلوم ہوگیا اور اُنہیںادراک ہوگیا کہ یہ کام اگرنا ممکن نہیںتو انتہائی مشکل ضرور ہے۔

اِس لیے بے رحمانہ احتساب سے بھی ہاتھ کھینچ لیاگیا ۔اب نئے احتساب کے مطابق کسی بھی ایم پی اے کوگرفتار کرنے سے پہلے صوبائی اسمبلی کے سپیکراور گورنمنٹ ملازم پرہاتھ ڈالنے سے پہلے چیف سیکرٹری کی اجازت لیناضروری قراردیا گیاہے ۔جوازیہ کہ پہلے طریقۂ احتساب سے عزتِ نفس مجروح ہونے کاخطرہ تھا ۔ہمیںتو اب پتہ چلاکہ خائنوں،بددیانتوں کی بھی کوئی عزتِ نفس ہوتی ہے جس کی حفاظت حکمرانوں کا فرضِ عین۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر