چائے والا کے بعد تھپڑ والا

Girl Slap Security Officer

Girl Slap Security Officer

تحریر : شاہ محمود خان
پشاور پریس کلب میں دھماکہ ہوا تو صرف سیکیورٹی اہلکار شہید ہوا تھا، پشاور ہائی کورٹ دھماکے میں بھی صرف سیکیورٹی اہلکار ہی شہید ہوئے تھے، اسی طرح مردان میں نادرا آفس میں بھی سیکیورٹی اہلکار نے خودکش حملہ آور کو پکڑ لیا اور شہید ہو گیا، اسی طرح کئی اور بھی واقعات ہے جس میں سب سے پہلے شہادت سیکیورٹی اہلکار کو نصیب ہوتی ہے۔ اکثر خودکش حملے ناکام بنانے میں سیکیورٹی اہلکاروں کا ہاتھ ہوتا ہے، دہشت گردوں نے ان کی بہادری دیکھ کر اپنی منصوبہ بندی اس طرح تبدیل کی کہ ہر دفعہ دو دو خودکش بھیج دیتے ہیں،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک سیکیورٹی اہلکار نے پکڑ لیا تو دوسرا اپنی مطلوبہ ہدف تک پہنچ سکے گا، انھیں پتہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی اہلکار اپنی ملک کے ساتھ اور اپنی ڈیوٹی کے ساتھ کتنے مخلص ہیں۔ آپ سب کو پتہ ہوگا کہ سیکیورٹی اہلکار کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے؟؟؟ نہ 18ہزار اورنہ 20ہزار۔ صرف 10ہزار روپے ان کی تنخوا ہوتی ہیں۔ ہاں جن کی 13ارو18ہزار ہوتی ہے تو انھیں کھانا، رات گزارنے کے لیے جگہ اور آنے جانے کا کرایہ بھی اپنی جیب سے دینا ہوتا ہے۔

مطلب یہ سب کچھ نکال کر وہی 8یا 10ہزار بنتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کو نہ تو پینشن ملتی ہے اور نہ ان کے بچوں کی تعلیم فری ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی شہادت الائونس بھی نہیں۔ جس محکمے میں کام کرتے ہیں ان کے افسران کو بھی ان کی کوئی خاص پروہ نہیں ہوتی، وہ شہید ہو جاتا ہے تو یہ امیر لوگ ان کے بچوں کو پھول پیش کرتے ہیں۔ 130یا 200روپے کے گلدستے پیش کرنے کے بعد ان کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں تصاویر لیتے ہیں، فیس بل، ٹویٹر، انسٹاگرام اور اخباروں کی زینت بناتے ہیں کہ انھوں نے اپنے حصے کا کام کر دیا۔ انھیں یہ تک نہیں معلوم کہ ان بچوں کے رزق کا زریعہ ختم ہوا، ان کے بچے پہلے سرکاری سکول میں پڑھتے تھے اب اس میں بھی نہیں پڑھ سکتے، اب وہ یا تو مزدوری کریں گے یا بھیک مانگیں گے۔اکثر محکموں والے تو ان کے گھر تعزیت کے لیے بھی نہیں آتے،ہاں ان کے بچوں کو حوصلہ دینے کے لیے جو لوگ آتے ہیں حواہ اس کے محکمے کا ہو یا ایم پی اے، ایم این اے آجائے تو ان کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے، ان کے غم گلظ ہو جاتے ہیں ، ان کے لیے لاکھوں روپے کا اعلان کرتے ہیں۔

یہ اعلانات اکثر اعلانات تک ہی محدود ہوتے ہیں یا اگرایک دو فیصد لوگوں کو مل بھی جائے تو کلرکس ان کو آفس کے چکر لگاواتے ہیں اورمختلف بہانوں سے اس رقم سے آدھی سے زیادہ ان سے لوٹ لیتے ہیں۔زیادہ تر لوگ تو اب سیکیورٹی کی نوکری کو بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باوجود کرتے بھی نہیں ہیں، ایک طرف تو اس تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں ہوتا تو دوسری طرف عزت اور مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس نوکری کو اپنی خاندان کے لیے رسک قرار دیتے ہیں۔یہ سیکیورٹی اہلکار کون ہوتے ہیں۔۔؟ یہ اکثر ریٹائرڈ سپاہی وغیرہ ہوتے ہیں جس نے ملک کے لیے پہلے سے 18تا 25سال خدمت کی ہوتی ہیں اور یا تو میٹرک پاس غریب طبقہ۔یہ ہیں ان لوگوں کی زندگی۔

Media

Media

اب ذرہ میڈیا والوں یعنی پریس سے وابستہ افراد کی زندگی کو دیکھے۔ گھر سے نکلا، چیک پوسٹ پر ان کی تلاشی نہیں ہوتی، اکثر میڈیا اور پریس والے چرس سے لے کر شراب تک کے نشے میں ملوث ہوتے ہیں، کیمرہ بیگ میں ان کے ساتھ ہر قسم کے نشہ آور چیزیں ہوتی ہیں۔ بعض ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں مگر زیادہ تر نہ صرف نشہ کرتے ہیں بلکہ سمگلنگ بھی کرتے ہیں کیونکہ وہ صرف اپنا پریس کارڈ دکھا کر فرشتہ بننے کا ثبوت پیش کرتے ہیں، یا تو اسے اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں اور دنیا کو بھی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں جو عام لوگ ہیں۔ مختلف سیاسی اور دوسرے باآسر افراد سے بھی کچھ لیتے ہیں۔ ان غیر قانونی دھندے کے علاوہ ایک معمولی رپورٹر کی تنخواہ 30ہزار سے کم نہیں، میڈیکل الائونس، موبائیل الائونس، سپیشل رپورٹ الائونس، سپیشل پیکج الائونس وغیرہ اس کے علاوہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح وہ مختلف اخبارات کے ساتھ ”ارٹیکلز” کے معاہدے بھی کرتے ہیں اور قلم کی طاقت سے خواہ صحیح استعمال کرتے ہو یا غلط، ان سے بھی ان کی کافی کمائی ہوتی ہیں۔

ان کے بچوں کی تعلیم اگر فری نہیں تو اکثر منسٹرز، ایم پی ایز، ایم این ایز ان کی سفارش کرواتے ہیں اور اچھے اچھے اداروں میں معلمولی فیسیں بھرتے ہوئے اچھا تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اکثر فی میل جرنلسٹ جو اپنی خوبصورتی یا کسی دوسرے چور دروازے پر میڈیا میں اپنے لیے جگہ بناتے ہیں مگر جرنلزم کے اصولوں، اخلاقیات اور اسلامی اقدار سے بالکل نا آشنا ہوتے ہیں، وہ اس دنیا کو اپنے جائز و ناجائز ہر قسم کام کے لیے بطور پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں اب ذرہ پچھلے دنوں ہونے والے واقعہ کی طرف آتے ہے، جس میں ایک نجی ٹی وی رپورٹر ایک سیکیورٹی اہلکار کو تھپڑ رسید کرتے ہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ پوری دنیا نے صرف ”نجی ٹی وی کی رپورٹ اور تھپڑ” دیکھی جس میں اس سیکیورٹی اہلکارنے لڑکی پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ نہ کسی نے پہلے ہونے والے واقعے اور بعد میں ہونے والے ری ایکشن دیکھا اور نہ انھوں نے دکھایا۔ اگر کوئی وہاں موجود تھا یا کسی نے حالات کا پورا جائزہ لیا، یا کوئی اس پیشے سے منسلک ہے تو انہیں خوب اندازہ ہوگا کہ ساری غلطی اس رپورٹر کی ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ بغیر اجازت کے کسی کے ویڈیو یا تصاویر نہیں بنا سکتے۔ ہاں آپ اسی طرح بھی کر سکتے ہیں مگر اس ادارے کے ہیڈ سے مل کر ان کا موقف جان کر اور ان کے موقف کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایسا کر سکتے ہیں، صرف چھاپہ مار ٹیم بن کر نہیں کر سکتے۔ آپ کو یہ اجازت کس نے دی ہے کہ آپ سیکیورٹی اہلکار کی تذلیل کریں۔ ہاں سیکیورٹی اہلکار نے اس کی بے عزتی کی مگر اس سیکیورٹی اہلکار کی بے عزتی کا بدلہ کون دیں گا، اس کے نوکری چلے جانے کا جو خطرہ ہے وہ کون ٹھالیں گا، اس کے بچوں کا مستقبل تباہ ہونے کا کون ذمہ دار ہے۔۔؟؟؟ نہ صرف یہ کہ اس کی تذلیل کی بلکہ سرکاری وردی کی بے حرمتی بھی کی ہے۔یہی واقعہ ابھی گردش میں تھا کہ ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوگئی جس میں ایک نجی ٹی رپورٹر پی ٹی سی کرتے ہوئے اس میں ایک بچہ آجاتا ہے، وہ بے چارہ کیا خبر کہ یہ کیا کر رہی ہے اور حیرت انگیز نظروں سے اس کی طرف دیکھتا ہے، رپورٹر اس بچے کو دیکھ بے تحاشہ اسے تھپڑ رسید کرتے ہیں۔ یہ نان کوالیفائڈ، جرنلز کے اصولوں سے بے خبر ”جرنلسٹوں” کی کرتوں ہی کی وجہ سے ایک دن میڈیا کی بچی کچی عزت بھی لوگ کرنا چھوڑ دیں گے۔

Journalist and Security Officer

Journalist and Security Officer

اس ویڈیو پر مختلف لوگوں کی مختلف رائے آئے ہیں، ایک شخص نے اس ویڈیو پر کمینٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”اس ویڈیو میں تو ایسے لگ رہا ہے کہ یہ رپورٹر پورے پاکستان کی مالکن ہے۔اس کی زبان کی چال کو دیکھو ایسے آرڈر دے رہی ہے اور ایسے اتنے بڑے اجتماع میں سر عام ایک سیکورٹی اہلکار کی بے عزتی کر رہی ہے۔ یہ تو اس کی خوش قسمتی ہے کہ اس سپاہی کے دماغ نے بالکل کام نہیں چھوڑا، ورنہ اس کے پاس رائفل بھی تھی۔جس دیس میں کسی کو بولنے کا تمیز نہ ہو اور دوسروں کی بے عزتی اپنی عزت سمجھتے ہیں اس دیس میںاکثر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔میرے خیال میں اس رپورٹر کا اور کوئی حل تھا ہی نہیں۔اس اہلکار کے ساتھ رپورٹر کا یہ رویہ قابل مذمت ہے۔” ایک شخص نے اس پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے کہ ”اب ایک آن ڈیوٹی بندے کی شرٹ کھینچے گی تو گلاب تو ملے گے،ایک تو مرد اوپر سے پٹھان شکر کرے گھر پہنچ گئی۔

” ایک اور شخص نے کچھ یوں فرمایا ہے کہ ”پوری ویڈیو کیوں نہیں دکھائی، دکھائو تاکہ اصلیت سامنے آجائے۔” اور اوپر سے مکمل ویڈیو بھی شیئر کی ہے۔ ایک نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ ”ایک اور مارتے تو دل خوش ہو جاتا۔” کسی نے فرمایا ہے کہ ”بلیک میلر رپوٹرز کے ساتھ اسی طرح ہونا چاہئے۔” ہاں! کسی نے اس کی حمایت بھی کی ہے کہ ”کم از کم لڑکی پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے تھا۔” بعض نے تو لاعلمی کا ظہار بھی کیا ہے کہ ”تحقیقات ہونی چاہئے کہ قصوروار کون ہیں۔” ان سب باتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگ اس وقعے پر افسوس کرتے ہیں تو بعض نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

اس وقعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے میڈیا اپنے اختیارات سے کس قدر ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور حقیقت سامنے آئی ہے کیونکہ دونوں نے عدالت سے باہر صلح کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ بات یہاں تک نہ پہنچتی اگر رپورٹر اپنی حدود میں رہتی اور جرنلزم کے اصولوں کی پاسداری کرتی۔ نان پروفیشنل اور نان کوالیفائڈ رپورٹرز اور جرنلسٹ اگر اسی طرح اس پیشے سے منسلک ہونگے تو اس پیشے کی رہی سہی عزت بھی پامال ہو جائے گی۔

Shah Mehmood Khan

Shah Mehmood Khan

تحریر : شاہ محمود خان