غلامی

Slavery

Slavery

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
غلامی کا ذکر آتے ہی زنجیروں میں جھکڑے، جیل یاتہہ خانوں میں قیدبے بس، بے حال اور لاچار فردیا افراد جیسے کرداروں کے خدوخال ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر انسانی معاشرے کے ماضی میں جھانکیں تومعلوم ہوتا ہے کہ روزاول سے آج تک کسی فردیا معاشرے نے کسی جانور کو غلام سمجھانہ جانور باغی ہونے کے باوجود کوئی ایسی داستان رقم کر پائے جس کی مثال پیش کی جاسکے اور نہ ہی کبھی کسی جانور نے دوسرے جانور کو غلام بنایا ہے۔

ہمیشہ سے انسان ہی انسان کوغلامی کی زندگی بسرکرنے پرمجبورکرتاآیاہے۔غلام وہ نہیں جسے زنجیروں میں جکڑکرقیدکرلیاگیا یابے بس ولاچارکرکے محکوم بنالیاگیابلکہ حقیقی معنوں میں غلام وہ ہے جس کاذہن غلامی تسلیم کرنے میں عافیت جانے اوروہ بغاوت کاچلن چھوڑکرظلم وجبرکی حاکمیت قبول کرلے۔ قید ہو جاناطاقتور ظالم حکمران کے ظلم اورناانصافیوں کوبرداشت کرنابھی غلامی نہیں کہلاتا۔ غلامی توتب شروع ہوتی ہے جب محکوم آواز اٹھاناچھوڑدیں ،غلط اورصیحح کافرق جان کربھی انجان بنے رہیں۔ایسے معاشرے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ لوگ ظلم کیخلاف حق کاساتھ دیناتودرکنار گواہی تک دیناچھوڑدیتے ہیں ۔کمزوروں کوغلام بنانے والاخود بھی آزادنہیںہوتا۔وہ بھی اپنی خواہشات ومفادات،حرس ولالچ کاغلام ہوتاہے۔تاریخ انسانی شاہدہے کہ انتہائی طاقتورہونے کے باوجودلوگ مزید طاقت اوروسائل کے حصول کیلئے کمزوروں کونہ صرف غلام بناتے آئے ہیں بلکہ انتہائی بے دردی کے ساتھ گلے کاٹنے کی بے پناہ داستانیں رقم ہوچکی ہیں۔

قوموں کے مستقبل کوبہانہ بناکرحال کوخون میں نہلانے دینے والی جنگیں نہ صرف ماضی کاحصہ ہیں بلکہ دورحاضرمیں بھی جاری ہیں اورمستقبل کیلئے انتہائی سخت ترین پیشنگوائیاں بھی موجودہیں۔جہاںیہ بات اٹل حقیقت ہے کہ قیامت تک یہ لڑائی جاری رہے گی۔وہاںاس سے بھی بڑی اورقابل غوروفکرحقیقت یہ بھی ہے کہ قوموں کے مستقبل کومحفوظ بنانے والی بے شمارجنگوں کی فاتح انتہائی طاقتوراوروسائل سے مالامال قومیں بھی بے سروسامان دنیاسے کوچ کرچکی ہیں۔قوموں کومستقبل کے سہانے خواب دیکھاکرغلام بنانے اورپھردشمن کی فوجوں کے سامنے کٹنے مرنے کیلئے پیش کرنے والے حاکموں نے کبھی کسی غلام کواپنے برابربیٹھنے تک نہیں دیا ۔دین اسلام سے قبل دنیاکے کسی معاشرے یامذہب میں ایسی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی جہاں حاکم و محکوم کوبرابرکردیاگیاہو ۔افسوس کہ ہندواورانگریزسے آزادی حاصل کرنے والے پاکستانی مسلمان آج ہندواورانگریزکے غلاموں کی غلامی باخوشی قبول کرچکے ہیں۔آج ہماری بے بسی اورلاچارگی کاعالم یہ ہے کہ چمکتے سورج کودیکھ کربھی یہ تسلیم کرنے کیلئے تیارنہیں ہیں کہ ہم رات میں نہیں دن کی روشنی میں دھوکہ کھارہے ہیں۔

پرندے کوسوسال پنجرے میںقیدکرلیاجائے تب بھی وہ اڑنے کی جستجونہیں چھوڑتاہے ہم توپھربھی انسان ہیں۔نہ ہمارے ہاتھ پائوں زنجیروں میں جکڑے ہیں نہ جیل خانوں میں قیدہیں۔غلام توفقظ ہماری سوچ ہے۔غلامی کاآغازاسی وقت ہوتاہے جب محکوم خودکوکمزورسمجھتے ہیں،ظلم کیخلاف اورانصاف کے حق میںآوازاُٹھانے کی روایات کوزندہ کریں توذہنی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں۔ہم جانورنہیں بلکہ انسان ہیں وہ انسان جن کواللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایاہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا اور باقی مخلوقات سے زیادہ عزت حضرت انسان کوعطافرمائی ہے۔قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے ”یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی(سورة بنی اسرا ئیل (17) آیات (70)”بنیادی طور پر غلامی کی دو اقسام ہیں۔1 جسمانی غلامی۔2۔ ذہنی غلامی برصغیرکے مسلمانوں(اشرف المخلوقات) آزادریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصول کے ساتھ ہی جسمانی غلامی کی زنجیریں توڑچکے ہیں جبکہ ذہنی غلامی کے قیدخانوں سے آزادی حاصل کرناابھی باقی ہے ۔ساری گفتگوکاحاصل یہ ہے کہ عوام اورغلاموں میں بہت فرق ہوتاہے۔جب حاکم ریاست کے محکوموںکواپنے بچوں کی طرح سمجھے اوراُن کے دکھ ،تکلیف کواپنادکھ ،دردجانے تب محکوم عوام ہوتے ہیں اورجب حاکم ،محکوموں پرظلم کرے،عوام کے جان ومال،عزت وآبروکے محافظ ادارے حاکم کے حکم سے محکوموں پرگولیاں چلائیں تب محکوم عوام نہیں غلام ہوتے ہیں۔غلاموں کی زندگی کافیصلہ ظالم حاکم کے اشاروں کامحتاج بن جاتا ہے۔

سانحہ ماڈل ٹائون،فیض آبادکے مقام پرختم نبوت ۖ کے پروانوں اوراب شہرقصورمیں ننھی بیٹی زینب کیلئے انصاف مانگنے والوں کوانصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کی بجائے جس طرح سرعام گولیوں کانشانہ بنایاگیااس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ہم عوام نہیں غلام ہیں۔یہ کیسی دردناک حقیقت ہے کہ پہلے ہم ووٹ دے کرجن لوگوں کوخودپر مسلظ کرتے ہیں بعد میں انہیں سے انصاف کی بھیک مانگتے ہیں اوروہ بدلے میں لاشوں کے تحفے دیتے ہیں۔جن لوگوں کے بچے غیرملکی شہری ہیں ،جن کے کاروباراورمحلات ملک سے باہرہیں سوچیں وہ لوگ ملک وقوم کے ساتھ مخلص کیونکرہوسکتے ہیں؟ایسے ظالموں کی غلامی سے آزادی حاصل کئے بغیرزندگی کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتاہے۔جس طرح ہمارے بڑوں نے ہندواورانگریزسے آزادی حاصل کی اسی طرح ہمیں اُن کے غلاموں سے آزادی حاصل کرناہے۔ہمیںمتحد ہوکر پرامن جدوجہد کے ذریعے ظالم حکمرانوں کوپیغام دیناہوگاکہ ہم 22کروڑعوام ہیں غلام۔بھیڑبکریاں یاکیڑے مکوڑے نہیں۔ہندواورانگریزکے غلام اپنے آقائوں کے پاس لوٹ جائیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام غلامی کاطوق اب مزیدبرداشت نہیں کرسکتے ۔جو حکمران اوراُن کے ماتحت ادارے عوام کااعتمادکھودیں انہیں پاکستان پر حکمرانی کاکوئی حق نہیں۔اب کوئی مجیب الرحمان بن کربنگلادیش بنانے کی کوشش کرے گاتویہ قوم اسے جوتے مارے گی۔ جسے ہندوکی غلامی پسندہے وہ مودی کے پاس چلاجائے اورجسے انگریزکے تلوے چاٹنے کی عادت وہ اپنے انگریزآقاکے پاس چلاجائے۔بہت ہوگیااسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اب غلامی کی زندگی نہیں گزار سکتے۔ فرمان اقبال ہے کہ

”سن اے تہذیب حاضرکے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی”

غلام تہذیب کے گرفتاروبے یقینی کی زنجیریں توڑکریقین کی دنیامیں جیناسیکھوں۔بیشک تم آزادی حاصل کر سکتے ہو۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com
03134237099