سموگ انسانوں کی لائی مصیبت یا اللہ کا عذاب

Smog

Smog

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
ویسے تو قدرت کے نظام میں دخل اندازی بذات خود ایک عذاب کو دعوت دینا ہے لیکن اس عذاب سے بچنے کے لیے بھی ہمارے ہاں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی بلکہ اس کو گناہوں کی سزا کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے یا پھر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرا کر کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اس موسم کے دوران جب دھند بنتی ہے تو ماحول میں پہلے سے موجود آلودگی دھند کے ساتھ مل کر اسموگ کی فضا بنا دیتی ہے اس بار یہ نومبر کے اوائل سے ہی شروع ہو گئی ہے اس دھوئیں میں کاربن مونو اکسائیڈ ،نائٹروجن آکسائیڈ،میتھین،اور کاربن ڈائی آکسائیڈجیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں ماہرین کے مطابق جب یہ سب باہم مل جاتے ہیں تو اسموگ پیدا ہوتی ہے جو بارشیں نا ہونے کے سبب خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے اس سے جہاں آنکھوں اور سینے کے امراض میں اضافہ ہوتا ہے وہاں حد نگاہ صفر ہونے کی بنا پر ٹریفک حادثات بڑھ جاتے ہیں۔

شائد ہی کوئی دن جاتا ہو جب روڈ ایکسیڈینٹ میں پندرہ بیس جانیں ضائع نہ ہوتی ہوں جبکہ زخمیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تو ریکارڈ بھی نہیں ہوتی ،اس کے علاوہ اسموگ صحت کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے خاص طور پر وہ لوگ جنھیں پہلے سے ہی سینے،پھیپھڑے یا دل کی بیماری ہو ان کے لیے سموگ مزید بیماریوں کا پیش خیمہ ثاپت ہوتی ہے سب سے پہلے تو انسان کے گلے میں خراش شروع ہوتی ہے پھر ناک اور آنکھوں میں چبھن کا احساس ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک زرعی ملک میں ایسی زہریلی فضا فصلوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوتی ہے ایک تو زمین میں زرخیزی کی شرح بھی کم ہو گئی ہے اوپر سے کچرے میں شامل شاپر ،پلاسٹک کی اشیاء کمپیوٹرز کی باقیات ،یہ بھی فصلوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں میرا بیٹا کہتا ہے باہر ممالک میں پرانے کمپیوٹرز پھینک دیے جاتے ہیں جو ہمارے وزیر کینٹینروں میں بھر کر لے آتے ہیں اور یہاں ہزاروں میں بک جاتے ہیں۔

بلکہ باہر ممالک کی ہر ایکسپائر مشینری اسی طرح ہمارے ملک میں لائی جاتی ہے اس کے لیے یہ وہاں سے بھی کمیشن کھاتے ہیں اور پاکستان میں بھی دولت کماتے ہیں جب کہ عوام کے حصے میں صرف بیماریاں اور موت ہی آتی ہے پہلے کہا گیا بھارتی پنجاب میں زرعی فضلا جلانے سے دھوئیں کے بادل پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں سوال یہ ہے کہ زرعی فضلا تو پاکستان میں بھی جلایا جاتا ہے نئی فصل لگانے کے لیے پرانی فصل کی باقیات جلائی جاتی ہیں اس سے اتنا زیادہ نقصان نہیں ہے مسلہ وہ کچرہ جلانے سے ہے جس میں ہر قسم کی اشیاء شامل ہوتی ہیں آبادیاں بڑھ گئی ہیں لوگ شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں مسلہ دیہاتوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے فصلیں اگانے میں جتنی محنت ہوتی ہے وہ تو الگ چیز ہے۔

جتنا فصلیں بیچنے میں دانتوں پسینہ آتا ہے مناسب وقت پر نہ پانی ملتا ہے نہ کھاد نہ بیج اور کسی نہ کسی طرح فصل پک جائے تو اسے منڈی لے جانا کاروارد ہوتا ہے پہنچ جائے تو حکومت خریداری میں لیت ولعل سے کام لیتی ہے ہر کاشتکار کے پاس فصل سٹور کرنے کی جگہ نہیں ہوتی کہ وہ قیمت بڑھنے یا حکومت کی آنکھیں کھلنے کا انتظار کرے نتیجہ اونے پونے فصل بیچ کے کاشتکار گھاٹا اٹھاتا ہے یہی وجہ ہے لوگ اس طرف سے مایوس ہو رہے ہیں ا سما یوسی میں وہ شہر کا رخ کرتا ہے عورتیں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے دو وقت کی روٹی کما لیتی ہیں لیکن مرد یا نشے اور جوئے میں پڑ جاتے ہیں یا مزدوری کو نکل پڑتے ہیں شہروں میں مزدوریاں بھی اس طرح کی ہوتی ہیں جن میں بیماریوں کے خطرے زیادہ ہوتے ہیں شہروں میں بلند و بالا عمارتیں بنتی ہیں جوتے بنانے کے کارخانے ہوتے ہیں کیمیکل بنانے کی فیکٹریاں ہوتی ہیں ماربل کی کٹائی ہوتی ہے یہ ساری چیزیں مزدوروں کے پھیپھڑے چاٹ جاتی ہیں۔

شہروں کی فضا زیادہ آلودہ ہوتی ہے وہاں کچرہ بھی زیادہ ہوتا ہے اداروں پہ کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے شہر کچرے کے ڈھیر بن گئے ہیں بلدیاتی ادارے نہ وقت پر تنخواہیں دیتے ہیں نہ کام لیتے ہیں کھلی ٹرالیوں میں کچرہ اٹھا کر شہروں سے باہر کچی آبادیوں میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں اس کو آگ لگا دی جاتی ہے اور ہر طرح کی اشیاء کا زہریلا دھواں پوری فضا میں پھیل کر اس کو مسموم کر دیتا ہے اللہ کی رحمت سے بارش ہو جائے تو انسان اس مصیبت سے بچ جاتے ہیں ورنہ کئی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے ایک تصویر میں چند بلدیاتی افسر کچرے کے آگے کھڑے فیتہ کاٹ رہے تھے یعنی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب کچرہ اٹھوانے کی بھی تصویریں بنائی جاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ فنڈز اشرافیہ کھا جاتی ہے جو لوٹ مار میں سے بچتا ہے وہ نچلا عملا ڈکار جاتا ہے کوئی چار پیسے خرچ کرے تو تصویر بنوانا اپنا حق سمجھتا ہے۔

ہمارے حکمران روزانہ اپنے خوشامدیوں کے ذریعے ٹی وی چینلوں پر بڑھکیں لگاتے ہیں کہ ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کر دی ہم نے گیس وافر دی حالت یہ ہے کہ شہروں میں دس گھنٹے گیس اور بارہ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے گیس نہ ہونے سے لوگ لکڑیاں جلانے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے جنگل کٹتے جا رہے ہیں کبھی فرنیچر کے نام پر درختوں کا قتل عام ہوتا ہے جبکہ نئے درخت لگائے نہیں جاتے زراعت میں گونا گوں مشکلات کی وجہ سے باغات بھی اسی فیصد کٹ چکے ہیں لوگ اپنی زرعی زمینیں بیچ کر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے میں لگ گئے ہیں اس خطرے سے بے خبر کہ رہنے کو عالیشان بنگلہ تو ہو اور کھانے کو اچھی غذا نہ ملے تو کیا ہو گا ؟ یہی ہوگا ہم جانوروں کی الائشیں اور کتے ،کھوتے کھائیں گے اور سموگ کی اس مسموم فضا میں سانس لیں گے بچے ہمارے بیمار پیدائشی بیماریوں کا شکار ،نہ صاف پانی ،نہ صاف ہوا ،نہ اچھی حلال خوراک ،ملاوٹی غزائیں ،جعلی دوائیں سونے کے محلات میں بیٹھنا کس کو نصیب ہو گا یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کا بھیجا عذاب ہے یا انسانوں کی اپنی بد نیتی اور کوتاہیاں۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی