ہمارا معاشرہ کرپشن جیسی لعنت سے کب آزاد ہو گا

Corruption

Corruption

تحریر : ملک نذیر اعوان
اسلامی احکامات کے بر عکس ہمارے معاشرے میں رشوت کا بازار پوری طرح اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے لیکن کرپشن صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی کرپشن کی روایات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ عوام کیلئے جائز کام کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں جائز کروانے کیلئے بھی رشوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاََ رشوت خوری ایک بہت بر ا فعل ہے جس سے معاشرہ بے چینی اور بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اسلام میں رشوت دینے اور لینے والے دونوں قصور وار ہیں ۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ۖ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ”رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں ”۔

چونکہ رشوت ایک انتہائی برا فعل ہے حقدا ر سے حق چھین کر غیر مستحق کو حقدار بنانے کیلئے یہ کام سر انجام دینا پڑتا ہے اور اپنا ضمیر بیچ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے احکامات سے دوری اور رو گردانی کی وجہ سے معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے آج زندگی کے ہر شعبہ میں رشوت ، سفارش اور لوٹ مار کا کلچر عام نظر آ تا ہے ۔ جب کہ ان چیزوں سے دوسروں کا حق مار کر ہم نہ صرف حقوق العباد کی نفی کرتے ہیں۔

بلکہ اس طرح سے ہم حقوق اللہ کے معاملہ کو بھی بھلا دیتے ہیں اور کرپشن کی راہیںروکنے کیلئے قرآن مجید میں بھی ارشاد ربانی ہے کہ ”تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور مال کو( بطور رشوت )حاکموں تک نہ پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم بھی ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو کہ یہ گناہ ہے ”۔ سورة البقرہ آیت نمبر 188 ”نا حق دوسروں کا مال ہضم کرنے کی کئی صورتیں ہیں مثلاََ چوری ، خیانت ، دغا بازی ، ڈاکہ، جوا، سود اور تمام ناجائز قسم کی تجارتیں اور سودے بازیاں ہیں اور اس آیت میں بالخصوص اس ناجائز طریقہ کا ذکر ہے جو حکام کی وساطت سے حاصل ہو۔

Islam

Islam

اسی کی عام صورت تو رشوت ہے کہ حاکم کو رشوت دے کر مقدمہ اپنے حق میں کروا لینا اور اس طرح دوسروں کا مال ہضم کر لینا ۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں ”رسول پاک ۖ نے رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ”۔ اس باب میں ام سلمہ سے بھی روایات منقول ہیں ۔ یہ حدیث ام سلمہ نے حضرت عبد الرحمٰن ، ام سلمہ ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، ام سلمہ سے بھی مروی ہے ۔ ام سلمہ اس حدیث کو اپنے والد سے اور وہ نبی کریم ۖ سے نقل کرتے ہیں جامع ترمذی جلد اول ۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں منقول ہے کہ حضرت عمرو ابن العاص فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو فرماتے ہوئے یہ سنا کہ جب قوم میں زنا کی کثرت ہو جاتی ہے اس کو قحط اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور جس قوم میں رشوت کی وبا عام ہو جاتی ہے اس پر رعب و خوف مسلط کر دیا جاتا ہے (احمدمشکوٰة شریف جِلد سوم حدیث 738 ) اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ رشوت محض ایک سماجی برائی اور شرعی گناہ بھی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ظلم بھی ہے کہ جس کی سزا آخرت میں تو ملے گی اس کا وبال اس دنیا میں بھی مختلف صورتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔

اس طرح یہاں حدیث میں بھی اسی کو ذکر کیا گیا ہے کہ رشوت جیسی نحوست ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ اس لیے اس سے اپنے آپ کو اجتناب کرنا چائیے ۔ مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تو رشوت کا رواج بن چکا ہے ۔ بہت کم ڈیپارٹمنٹ ہیں جن میں رشوت نہ ہو ۔ زیادہ تر ڈیپارٹمنٹ میں رشوت عروج پر ہے۔ پرانے دور میں یہ چیزیں میرٹ پر ہوتی تھیں لیکن آج کل تو میرٹ پیسہ ہے ۔ مثال کے طور پر امیر کیلئے کوئی میرٹ نہیں ہے یہ سب کچھ غریب کیلئے ہے ۔ فرض کریں غریب آدمی ایک مکان بناتا ہے تو سالوں سال گزر جاتے ہیں مگر وہ بیچارہ بجلی اور گیس سے محروم رہتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کے پاس رقم بہت زیادہ مقدار میں ہے تو ایک ماہ کے اندر بجلی اور گیس کا میٹر لگ جائے گا ورنہ فائل ردی ہو جائے گی ۔ مگر امیروں کو تو یہ نوبت نہیں آتی ہے کیونکہ ان کے وسائل ہوتے ہیں۔

یہ تمام پاپڑ صرف غریبوں کیلئے ہیں ۔ ہمارے ملک میں کرپشن کی حالت اس حد تک پہنچ گئی ہے لیکن اس کے باوجود اگر ان تمام مسائل کی روک تھام چاہئیے اور واقعی ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پر امن اور خوشحال رہے تو ہمیں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر فریضہ انجام دینا ہو گا ۔ ورنہ معاشرے کے اندر بڑی تعداد میں جرائم میں ملوث ہوں گے ۔ اصل زندگی تو آخرت کی ہے ۔ جب ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے اور مضبوطی سے اس پر ثابت قدم رہیں گے تو پھر ہمارا معاشرہ ہمیشہ بیدار رہے گا لیکن کرپشن کی لعنت نے پورے ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔ ان حالات میں ہم سب کو مل کر کرپشن اور رشوت کی لعنت کو جڑ سے ختم کرنا ہو گا ۔ اور آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ کرپشن جیسی لعنت اور رشوت سے پوری قوم کو نجات عطا فرمائے۔ آمین

Malik Nazir Awan

Malik Nazir Awan

تحریر : ملک نذیر اعوان