آئیے مل کر زینب بچائیں

Zainab Murder Case

Zainab Murder Case

تحریر : شاہ بانو میر
ہم گہری نیند میں سونے والے کم شور سے نہیں جاگتے اسی لیے تو 11 معصوم جانیں چلی گئیں اور سناٹا طاری رہا۔نہ عوام جاگی نہ حکام ہوش میں آئے مگر فرعون کی گرفت تو ہو کر رہنی ہے اس کے بھربھرے نظام نے اسکی نگاہوں کے سامنے ڈوبنا ہے صرف وقت مقررہ کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ زینب سمیت ایک درجن ننھی بچیوں کا سفاک قاتل پولیس سپیشل برانچ کی اعلیٰ کارکردگی سے شکنجے میں آگیا ہے۔ پوری قوم کے بھڑکے ہوئے جزبات قدرے ٹھنڈے ہوئے ہیں۔ یہ کچھ واقعات ہیں جو منظر عام پر آگئے نجانے کتنے اور بچے اور بچیاں ایسے حادثات کے بعد عمر بھر ہیجانی تشنجی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ان کے معصوم بچپن پر تاریکی کی ایسی چھاپ لگا دیتے ہیں کہ وہ شیطانیت کی کریہہ شکل دیکھنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کیلیے انسانیت کی مثبت سوچ جاننا ہی نہیں چاہتے۔ یہ بچے عمر کے ساتھ بڑہتے تو ہیں مگر ذہنی نشونما رک جاتی ہے مسخ شدہ بچپن کے ساتھ پوری عمر نفسیاتی عارضے میں مبتلا معاشرے کو اپنی ذات سے اپنی خوبیوں سے فائدہ نہیں دے سکتے۔ منفی رویے ذہنی خلفشار کی وجہ بنتے ہیں ۔ معاشرہ ایسے افراد کے ساتھ اعلیٰ کارکردگی نہیں دکھا سکتا ۔ بیمار معاشرہ کہلاتا ہے ۔ ایسے ہی حادثات کا شکار ہوئی پیاری بچی زینب بھی ہے۔

زینب کے نام کے ساتھ ہی کربلا کا تصور ابھرتا ہے ۔ پھر سے قاتلوں نے دل دہلا دیےاور ایک اور کربلا جیسا سوگ ملک بھر میں مچا ۔ ہر ایک نے اپنااپنا حصہ بقدرے جثہ ڈالا ۔ لیکن کیا اس مجرم کی گرفتاری اسے وہ عبرت ناک سزا جو سر عام پھانسی سے کم نہی ہے وہ دے سکے گی؟ سعودی عرب میں شرح جرم انتہائی کم ہے ۔ سعودی عرب کے پرسکون ماحول میں کسی کی مجال نہی کہ کسی کو پریشان کرے ۔ اس کی وجہ پوچھی تو وہ اسلامی قوانین بتائے گئے جس کے تحت حال میں ہی ایک شہزادے سے شراب کے نشے میں دوست پر گولی چلنے اور قتل ہونے پر شہزادے کا سر سرعام قلم کیا گیا ۔ اسلامی سزاؤں کو بہت سخت کہا جاتا ہے ۔ بچے جب سرکش ہوں مائیں سزا دیتی ہیں بچے دوبارہ غلطی نہیں کرتے معذرت کے ساتھ ہمارے ملک میں انصاف پر موجود دباؤ اس کو درست سزا دینے میں مانع ہے۔

یہی وجہ ہے وطن عزیز میں چلن عام ہے جیسےتیسےپیسہ حاصل کرو ۔ پھر طاقت کے توازن کو تہس نہس کر دینے کیلیے ایک گروہ تشکیل دو ۔اور طاقت کے زور پر نیے اصول نیے قانون بناؤ اور جسے چاہو نوازو جسےچاہےمسل دو ۔ جب اصلاح کار ہار مان کر بڑہتے ہوئے چلن کو ختم کرنے کی بجائے ان کے ساتھی بن کر مراعات حاصل کریں تو ایسے بساند زدہ ماحول میں قانون کیسے لاگو ہو سکتا ہے ۔ اسلامی سزاؤں کا درست اطلاق وقت کی ضرورت ہے۔ دین کی رہنمائی کوچھوڑ کر دوسرے مکتب فکر سے وابستہ ہو کر قانون بنانا ہمارے لئے موزوں نہی ہے۔ کوشش کریں کہ اسلامی قوانین کا مکمل درست اطلاق ہو اور اس کے 1 سال بعد جرائم کی شرح چیک کریں حیرت انگیز طور پر جرائم میں کمی واقع ہو گی سعودی عرب میں ہر انسان کے ذہن میں سرعام سزا کا ایسا خوف ہے کہ وہ وہ ہر قدم پھونک ھونک کر رکھتے ہیں۔

زینب کے لیے ہر درد دل رکھنے والے انسان نے رائے دی پیغام دیا جو زندہ قوموں کا شیوہ ہے ۔ اطمینان ہوا کہ ابھی احساس باقی ہے ۔ لیکن عمل کی کمی ہمیں ان حادثات سے مکمل طور سے نہیں بچا سکتی ۔ صرف 5 منٹ نکالیں اور ایسے واقعات کو ہمیشہ کیلئے روکیں کیسے؟ ہر فرد اپنے اوپر5 منٹ کی محنت کرے تو انشاءاللہ نہ صرف ایسے اندوہناک واقعات کا تدارک ہو گا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے معاشرہ فلٹر ہو کر پاکیزہ اور محفوظ ہو جائے گا ۔ صبح سویرےجولوگ نماز پڑھتے ہیں انہیں مبارکباد مگر جو ابھی نماز قائم کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ صرف ایک چھوٹا سا کام کر لیں آپ آنکھ کھلتے ہی موبائل فون کی بجائے قرآن پاک پر جو اللہ نے واٹس ایپ کیے ہیں وہ میسج پڑھ لیں۔

یقین کیجیے سب سے آسان عمل اور تاثیر میں لاجواب عادت برقرار رکھیں اس سے مزید کتنے فوائد ہوں گے آپ حیران ہوں گے۔اس زینب سے مچی کربلا ہم نے دیکھی اس کربلا کو آخری بنانے کےلئے میرے آپ کے کرنے کا واحد مؤثر حل یہی ہے ۔ذہنوں کی دھلائی کسی ڈیٹرجنٹ سے نہیں اس قرآن سے ممکن ہے ۔ہم باتیں بے شمار کرتے ہیں ۔ اور عمل اللہ رسول کی تعلیمات کے مطابق نہیں بلکہ اپی مرضی کا کرتے ہیں۔

آئیے باتوں کی بجائے آج سے زبان کو کم چلائیں اور دل اور دماغ کو اس قرآن جو واحد راستہ ہے ہدایت لینے کا اس کو اونچائی سے اتار کر اپنے دل کے دماغ کے قریب کریں ۔ ان پر ہم نے غلاف ایسے چڑہائے کہ ذہن ہی ملفوف ہو گئے قرآن پر چڑھے ریشم و حریر اطلس و دیبا کے غلاف ہٹائیں اور اسے اپنے قریب رکھیں جہاں یہ ہر وقت آپ کہ پہنچ میں ہو ۔ کوئی موقعہ کوئی بات کی تہ تک پہنچنا ہو تو فوری طور پے میسر ہو۔ پھر دیکھیں کیسے معاشرہ تبدیل ہو کر محفوظ بنتا ہے۔

ذہنی سیاہی اور تاریکی اسی سے دور ہوگی تو ہی زینب محفوظ ہو گی ۔ زینب کی مظلوم موت آخری ہو ہم گناہ ثواب کا فرقان قرآن سے لے لیں تو پھر کوئی زینب کربلا کا عنوان نہیں بنے گی۔ قرآن ذہنوں کی سختی کو نرم اور دل کو گداز کرتا ہے ۔ علم اللہ نے اسی لیے تو عطا کیا کہ اپنے ذہن کی بند گرہ کھول لو اور اپنی اصلاح کر لو ۔موجودہ یہود و ہنود کی ثقافتی یلغار سے نمٹنے اور اپنے اصل کے ساتھ اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیے صبح سویرے کچھ منٹ دیں اور معطر کریں دل و دماغ کو۔ شیطانیت کا سدباب اسی سے ممکن ہے۔

زینب کو زندہ رہنے دیں اس کے لیے اپنی انا اپنی رعونت ختم کر کے خود کو کم علم کم عقل کہتے ہوئے رب واحد کے کلام کو پڑہیں اور پھیلائیں تاکہ مجرمانہ ذہن تبدیل ہو اور خدا کی پکڑ عذاب کا خوف انسانوں کوایسے ظالمانہ فعل سے دور رکھے ۔ فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ کیا ہم محنت کر کے اب ہر معصوم زینب کو بچانا چاہتے ہیں؟ سوچیے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے صبح سویرے اپنے رب کے واٹس ایپ پر آئے قرآن کے پیغام کو پڑھنے کی عادت ڈالیں کچھ عرصہ بعد ملک کی ہر زینب محفوظ اور بے خوف زندگی گزارتی نظر آئے گی۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر