معاشرے کے ناسور

Imran Arshad

Imran Arshad

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم
بابا بھلے شاہ کی نگری قصور کے رہائشی حاجی امین کی معصوم اور ننھی کلی زینب کا قاتل آخر کار پولیس کی چودہ دن کی شبانہ روز محنت رنگ لائی اور درندہ صفت عمران نامی شخص گرفتار کر لیا گیا سفاک قاتل و جنسی وحشی نے نہ صرف زینب کے قتل کا اعتراف کیا بلکہ مزید آٹھ بچیوں کو بھی قتل کرنے کا انکشاف کر کے معاملے کو اور بھی سنسنی خیز بنا دیا قاتلِ زینب کی دیدہ دلیری تو ملاحظہ فرمائیں مقتولہ کے گھر والوں کے ساتھ قاتل کو ڈھونڈتا رہا نماز جنازہ میں بھی شرکت کی ،گھر والوں سمیت اہل علاقہ کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ جس معصوم ننھی کلی کا سفاک،درندہ صفت قاتل ان کے قریب ہی گھر والوں کی بے بسی کا تمسخر اڑاتا رہا اور دل ہی دل میں خوش بھی ہوتا رہا کہ جسے یہ ڈھونڈنے نکلے ہیں ان کے ساتھ ساتھ ہے اور انکے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ متلاشی سنگ سنگ خرمستیاں کر رہا ہے کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ایک نہ ایک دن بکرے کو قصائی کی تیز چھری کے نیچے اپنا گلا کٹوانا ہی ہوتا ہے۔

زینب کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تو قصور سمیت پاکستان میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی گئی اس افسوس ناک اور لرزہ خیزواقعہ سے ہر آنکھ اشکبار دکھائی دی والدین پہ تو قیامت صغری برپا ہوگئی دل کو ہلا دینے والے واقعہ نے اہل قصور کو اشتعال میں مبتلا کر دیا اور اہل علاقہ سراپا احتجاج بن گیا زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے سرکاری عمارات سمیت نجی املاک کا بھی نقصان ہوا احتجاج کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو آنسو گیس ،لاٹھی چارج اور فائرنگ کرنا پڑی جس کے نتیجہ میں دو افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ کئی زخمی بھی ہوئے بعدازاں چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔تحقیقات کے سلسلے میں قصور میں ملزم کی شناخت کے لیے کم از کم 600 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔

پولیس نے 7 سالہ زینب کے قتل کے شبہ میں ملزم عمران کو پہلے بھی حراست میں لیا تھا لیکن پھر بچی کے رشتے داروں کے کہنے پر اسے چھوڑ دیا گیا تھا، تاہم اب ڈی این اے میچ ہوجانے کے بعد پولیس نے ملزم کو دوبارہ گرفتار کرلیا۔پولیس کا یہ بھی دعوی ہے کہ ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق ملزم مقتول بچی کا دور کا رشتے دار اور زینب کے گھر کے قریب کورٹ روڈ کا رہائشی ہے جب کہ ملزم غیر شادی شدہ اور اس کی عمر 24 سال ہے مقتول بچی اور ملزم کے گھر والوں کے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا اور ملزم بچی کو اکثر باہر لے جایا کرتا تھا۔

زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ملزم پہلے پاک پتن فرار ہوا اور پھر وہاں سے عارف والا چلا گیا تھا جبکہ اس نے اپنی داڑھی بھی منڈھوا لی تھی۔ذرائع کے مطابق ملزم کو دوسرے شہر پاک پتن سے گرفتار کرکے لایا گیا، اس کا دوبارہ ڈی این اے کرایا گیا اور اس بار ڈی این اے میچ کرگیا، جس کی رپورٹ پولیس کو موصول ہوگئی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم عمران علی کے اہل خانہ کو بھی حراست میں لے انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

زینب کے قاتل کا گرفتار ہونا ایک قابل تحسین عمل ہے ملک عزیز میں اس جیسے اور بھی بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں ابھی حال ہی میں خیبر پختون خواہ میں بھی اس جیسا ایک لرزہ خیز واقعہ رونما ہوا ہے معاشرے میں ایسے سفاک قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا اور عوام کو انصاف کی فراہمی حکومت وقت کا اولین فرض ہوتا ہے ادھر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے زینب قتل کیس روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا عندیہ دیا ہے اچھی بات ہے کہ معصوم ننھی کلی کے سفاک قاتل کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے کیونکہ ایسے سفاک قاتل معاشرے کے ناسور ہوا کرتے ہیں اور ناسور کو جتنی جلد ممکن ہو جسم سے الگ کر کے باقی جسم کو محفوظ بنانا چاہئے۔

Dr. B.A. Khurram

Dr. B.A. Khurram

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم