تنزلی کا شکار ہمارا معاشرہ

Society

Society

تحریر: حاجی زاہد حسین خان
سعودی مملکت میں اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ایک اور ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی ہے جس کا کام دعوت و تبلیغ کے ساتھ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی ہے۔ اس ادارے میں کام کرنے والے عالم فاضل لمبی داڑھیاں اور گھٹنوں تک ثوب رکھنے والے سول لباس مین کام کرنے والے مطوعے یا المباعث کہلاتے ہیں۔ وہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ سعودی شرطے کا پکڑا ہوا تو چھوٹ جاتا ہے مگر ان مطووں کا پکڑا نہیں چھوٹ پاتا۔ یہ لوگ ہر محلے قریہ منطقع میں دن رات خاموشی سے نظر رکھتے ہیں کہاں جرم ہوتا ہے کون کرتا ہے کیسے کرتا ہے۔ ایک بار دو بار پھر تین بار ارتکاب جرم کرنے والا عین موقع واردات سے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حتی کہ نماز کے وقت آوارہ گردی کرنے والا اور دوجھگڑا کرنے والے فریق بھی کم سے کم آٹھ دن کے لئے عارضی نظر بند کر کے انہیں دعوت و تبلیغ کر کے داڑھی منڈاسے داڑھی والا بنا کر چالیس نمازیں پرھا مکمل کر اکر ایک اچھا شہری بناک ر رخصت کر دیا جاتا ہے۔ حتی کہ ان مطوعووں نے یورپ و امریکہ کی گوریوں کو بھی گھروں سے نکلتے شہروں میں پھرنے کے لئے پائوں تک عبائے اور سروں ر سکارف پہنا دیئے۔

قارئین نوے کی دہائی تھی ہماری کمپنی کے ایک انڈین حیدرآبادی سیلز منیجر جو کہ اکیلا فلیٹ میں رہائش پذیر تھا اس کی ایک کزن سعودی ائیر لائن پر کام کرنے والی ویکلی جدہ فلائیٹ پر آتی اور دن کو اس چچا زاد بھائی کے فلیت پر آتی کھانا پکاتے کھاتے اور شام کو وہ واپس اپنی رہائش پر چلی جاتی ایک ہفتہ دو ہفتے اور پھر تیسرے ہفتے گھر سے نکلتے وہ دونوں مطوعے نے پکر لئے۔ السلام علیکم آپ دونوں میاں بیوی ہیں۔ جو اب جی نہیں ۔ یہ میری کزن ہے یا اخی کزن کیا ہوتاہے۔ یہ میری چچا زاد بہن ہے۔ مطوعے نے پوچھا آپ کی ماں اس کی ماں ایک ہے۔ جی نہیں ۔ دونوں کا باپ ایک ہے۔ جی نہیں پھر آپ دونوں اکیلے فلیٹ میں کیوں رہتے ہیں۔ نہ یہ تہمارے لئے محرم اور نہ تم اس کے لئے محرم وہ دونوں لا جواب ہو گئے۔ سعودی مطوعے نے دونوں کو گاڑی میں بٹھایا ائیر ہوسٹس کو تنبہہ کر کے اس کی رہائش پر چھوڑا اور اس منیجر کو لا جیل میں ڈال دیا ۔ ہماری کمپنی کے سعودی مالک نے بڑی دھوڑ دھوپ کی سفارش کرائی جرمانہ دینا کیا۔ مگر وہ نہ چھوٹ سکا چالیس دن جیل میں رہنے نمازی پکا بنا کر داڑھی بڑھا کر سر ٹینڈ بنا کر انڈیا کو سفر کرادیا کہ جائو مسٹر اپنے معاشرے میں رنگ رلیاں بنائو کزن بناء ہمارے معاشرے میں ایسا مادر پدر آزاد اوڑھنا بچھونا نہیں چل سکتا ۔ قارئین یہ نوے کی ہی دہائی تھی ہمارے ملک میں بھی جنرل ضیاء الحق کی نافذ کردہ حدود قضاء کی سزائیں نافذ تھیں ہر شہر ہر چوک پر ٹکٹکی لگی ہوئی تھی۔

چوروں ڈاکووں بدمعاشوں بدکرداروں کو کوڑے لگ رہے تھے سزائوں کے اس عمل سے جرائم بے حیائی میں کمی بدمعاشی اور بدیانتی میں کمی ہو چکی تھی۔ سادگی کا رواج پروان چڑھا ۔ دنیا بھر میں بھی شلوار قمیض متعارف ہوئی سبز پاسپورٹ کی قدر بڑھنے لگی اسلئے کہ پاکستان کی قیادت خود ایک سادگی پسند اسلام پسند ، شخصیت کے ہاتھ میں تھی مگر اس وقت بھی بیرونی قوتوں کے حمایت یافتہ ہمارے دین بیزار ملک بیزار لبرل طبقہ مرد و خواتین ان شرعی سزائوں کے خلاف میدان میں تھے۔ ملک کی نامور لبرل خواتین جن کی قیادت عاصمہ جہانگیر جیسی خواتین کے ہاتھ میں تھی ۔ ایک جلوس میں یہ سر بہرنہ گریبان چاک ان حدود کی سزائوں کو ظالمانہ ثابت کر رہی تھی غیر ملکی چند صحافی بھی تھے۔ ایک نے پوچھا ۔ یہ حدود و سنگسار کیا ہے۔ کیوں ہے۔ ان خواتین نے ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا اب ہم پر حد کی سزا لگادی جائیگی اور پھر پتھروں سے مار مار کر ہمیں ماردیا جائے گا۔ اور پھر انگریز مبصروں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگا دئے کہ ہائے یہ سزائیں بڑی وحشیانہ ہیں۔ اور یہ جنرل بڑا ظالم ہے۔ پھر بدقسمتی سے نہ وہ قیادت رہی اور نہ ہی وہ شرعی سزاء جزا ۔ آنے والی دونوں سول حکومتوں نے خود کو لبرل آزاد خیال ثابت کر دیکھایا شرعی سزائیں ختم کر دی گئیں۔ روشن خیال معاشرہ وجود میں آیا لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرتی کر دیئے گئے۔ گھر گھر قریہ قریہ مانع حمل گولیاں اور کنڈوم تقسیم ہونے لگے ڈے اینڈ نائٹ مخلوط ڈانس پارٹیاں سیاست کے نام پر نوجوان مخلوط نسل چاک گریباں ۔ آستین غائب دوپٹے چادریں غائب ۔ رہی سہی کسر ہمارے روشن خیال جنرل مشرف نے پوری کر دی۔ سکولوں کالجوں میں جنسی تعلیم و تربیت قرآنی آیات سے خالی نصاب ناچ گانے کی تربیت معصوم بچیاں ڈانسر بننے لگیں مخلوط تعلیم مخلوط ادارے مخلوط معاشرہ وجود پکڑ گیا۔ کزنوں کا معاشرہ ہم جنس پرستی کا معاشرہ جنسی درندوں کا معاشرہ والدین کی اکثریت روشن خیال ہو گئی۔

سزا جزا کا تصور رہا نہ عملدرآمد ۔ رہی سہی کسر ساری ساری رات کے جلسوں جلوسوں ۔ ہفتہ ہفتہ بھر کے مخلوط دھرنوں نے پوری کر دی ماں باپ کو خبر نہیں جوان اولاد یں کہاں گئیں۔ کیوں گئیں۔ بدکردار خاوندوں کو خبر نہیں ساری ساری رات ہماری ہمسفر کہاں ہیں معصوم اور نوجوان بچیاں اکیلی گھروں محلوںمیں اوپر سے جنسی بھیڑیے جوان ادھیڑ عمر گرل فرینڈز کے شکاری معصوم بچوں بچیوں کو شکار کرنے لگے ۔ گھروں سے شہروں سے یہ معصوم پھول اٹھائے جانے لگے زیادتی کا شکار ہی نہیں چیر پھاڑ کر کے گندگی کے ڈھیروں پر پھینکے جانے لگے ۔ مگر پھر بھی یہ روشن خیال مائیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں۔ اپنی معصوم اولادوں کی پہرہ داری نہیں نہیں ۔ قانون حرکت میں نہ آیا لوگ خاموش سسکیاں بھرنے لگے۔ اور اب جب قصور کی ایک زینب ان درندوں کا شکار وئی تو پھر ہر طرف ہمارے میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اس سے قبل صرف اسی ایک لاہور شہر میں تین سو کے قریب معصوم عاشائیں فاطمائیں ۔ ایسی درندگی کا شکار ہوئیں۔ تب کسی نے ایسی آہ و بقا کیوں نہیں کی۔ آج صرف ایک زینب کے لئے صدر وزا اعلی انتظامیہ عدلیہ کے بڑے اپنے اپنے فوٹو سیشن کے لئے دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ کل یہ کہاں تھے۔

دیگر ملک کے شہروں میں ایسے ظلم اور درندگی کے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے مگر ان سب اداروں کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے۔ قارئین ان تمام حادثات کا ذمہ دار قصور دار کوئی ایک ادارہ نہیں یہ ہمارے روشن خیال حکمران ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے کو اس مادر پدر آزاد روشن خیالی کی طرف دھکیلا ۔ ہمارے انتظامیہ نے قانون کی حکمرانی قائم نہ کی ہماری عدلیہ نے انصاف کو مظلوموں کی دہلیز پر نہ پہنچایا ۔ ہمارے تعلیم و تدریس کے اداروں نے مخلوط اور ناچ گانے کا ماحول پروان چڑھایا اور پھر وہ روشن خیال والدین جو خود تو مذہب و اسلامی معاشرت کی حدود و قیود سے فرار حاصل کر کے روشن خیالی کی پناہ گاہوں میں پناہ لیتے رہے۔ مگر اپنی معصوم اولادوں کو اس آزاد خیالی کی جہنم میں دھکیلتے رہے۔ قارئین ایسے تنزلی کا شکار معاشرے میں تو ایسا تو آئے روز ہونا ہے ہو گا۔ آج اگر کسی غریب شہری کے گھر پہ قیامت ٹوٹی ہے تو کل یہ آگ ہمارے وڈیروں سیاستدانوں حکمرانوں کی دہلہز پر بھی پہنچ سکتی ہے۔ ملک اور معاشرے کو اور اپنے ان معصوم پھولوں کو اگر ان درندوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس بحال کرنا ہو گا۔ اپنی اسلامی معاشرت شرعی سزا ء جزا حدود و قضا کی سزائیں بحال کرنا ہو ں گی۔ ملک کے ہر شہر اور چوکوں چوراہوں پہ پھر سے ٹکٹکی اور تختہ دار سجانے ہونگے۔ اور پھر ایسے جنسی درندے چور ڈاکو بدیانت بدمعاش بدکردار ملاوٹ خور لٹکانے ہوںگے۔ چاہے وہ اشرفیہ میں ہی سے کیوں نہ ہوں تب جا کر ہم ایک اسلامی معاشرے کا فرد اور اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا شہری کہلانے کے حق دار ہونگے (ورنہ)

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر: حاجی زاہد حسین خان
ممبر فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان
hajizahid.palandri@gmail.com