معاشرے میں باہمت بچوں کی پہچان

Children

Children

تحریر : حافظہ مریم خان
کچھ روز قبل ایک نامور اور ہر دل عزیز صحافی بڑے بھائ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا جو کہ افطار کی دعوت تھی اور اس تقریب کا انعقاد دراصل پی ایم سی (پاکستان میڈیا کلب) کی جانب سے تھا اور وہ دعوتِ افطار بہت اہم تھی کیونکہ اس کے مہمان خصوصی ”با ہمٌت بچٌے“ تھے۔۔

میں نے اس نام سے متاثر ہو کر شرکت کو لازمی سمجھا جستجو تھی کہ آیا یہ باہمت بچے کون ہیں وہاں پہنچنے پر پی ایم سی کے تمام ممبران اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے اور ان سب کے بیچ وہ باہمت بچے بھی موجود تھے جن سے ملنے کی خواہش مجھے وہاں لے کر گئ تھی یہ وہ بچے تھے جن کے سر سے انکے باپ کا سایہ اٹھ جانے کے باوجود بھی وہ ہمت سے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ان بچوں کی کفالت کے لئے مختلف تنظیمیں کام سرانجام دے رہی ہیں اسی طرح پی ایم سی (پاکستان میڈیا کلب) نے بھی ان بچوں کی ہمت کو سراہا اور ان بچوں کو یتیم کی جگہ ”باہمٌت“ کے لقب سے پکارا یہ پی ایم سی کا ابتدائ قدم ہے اور میں سجھتی ہوں کہ بہت ہی مثبت قدم ہے یتیم کے نام سے ہی دل میں ایک احساس جنم لیتا ہے اور اب جب یتیم کو باہمت کہہ کر پکاریں تو سوچیں ان بچوں کا حوصلہ کتنا بلند ہوسکتا ہے۔

– بعض اوقات انسان کے لئے وہ دوپٹہ اتنا قیمتی نہیں ہوتا جو اسکو کسی نے سوٹ گفٹ کیا ہو اور اسکا دوپٹہ وہ اوڑھ بھی لے تو دل کو وہ تسکین نہیں ملتا جتنا وہ ایک ہاتھ جو سر پر رکھا گیا ہو ہمدردی محبت پرخلوص انداز میں۔ – بعض اوقات انسان کی قابلیت پر تالیاں بجانے والے وہ بے شمار ہاتھ بھی اتنے اثر انداز نہیں ہوتے اتنی خوشی نہیں دیتے جتنے وہ دو ہاتھ اہمیت رکھتے ہیں جو ہمارے چہرے کو ہاتھوں کے ہالے میں لیکر انگوٹھوں سے آنسو پونچھتے ہیں۔

– بعض اوقات انسان کے بڑے سے بڑے دعوے بھی بےاثر ہوتے ہیں اور کہیں ایک جملہ ”میں ہوں نا“ بھی دنیا کی ٹھوکریں کھاکر گِرے ہوۓ انسان کو اٹھا دیتاھے بے سہارا کو سہارے کی روشنی دکھاتا ھے بے آسرا کو ایک آس دلاتا ہے امید کی کرن اجاگر کرتا ہے اس ایک جملے سے کائنات میں رہنے والے ہر ایک فرد کی ٹھوکر سے لگا ہوا زخم بھرنے لگتا ہے۔

یتیم ہونا کوئ نقص تو نہیں پھر یہ معاشرہ کیوں یتامیٰ کو کمتر سمجھتا ہے بلکہ یہ تو منشاۓ خداوندی ہے رب کائنات کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ پروردگار خاص لوگوں کو ہی آزماتا جس میں قوت برداشت ہوتی ہے انہی کے صبرکا امتحان لیتا ہے۔ وہ پرودگار تو سب جانتا ہے وہ یتیم بھی ان ہی کو کرتا ہے جو دنیا میں سہارے سے محروم ہوکر بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور باہمت ہوکر نشیب و فراز راستے پر ہمت اور محنت کے ساتھ چل کر معاشرے میں ایک مقام حاصل کرتے ہیں اپنی مثال آپ بنتے ہیں اگر تاریخ کا جائزہ لیا جاۓ تو ہمیں سب سے عظیم مثال نظر آتی ہے کہ اللٌٰہ رب العزت نے اپنے محبوب بندے حضرت محمٌد صلی اللٌٰہ علیہ وسلم کو بھی حالتِ یتیمی میں پیدا فرمایا آپ صلی اللٌٰہ علیہ وسلم کے والدماجد آپ صلی اللٌٰہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت سے قبل ہی وفات پا گئے تھے اور پھر ولادت کے چند سال بعد والدہ ماجدہ کی سرپرستی سے بھی محروم ہوگئے تھے اور پھر نبی کریم صلی اللٌٰہ علیہ وسلم کی سیرت سے جدو جہد محنت کوشش اور ہمت کی اعلیٰ مثال صاف واضح ہے۔۔

لہذا یتیم کی کفالت ان سے ہمدردی صرف فلاحی اداروں کا کام نہیں یہ تو سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے پی ایم سی کی اس سوچ پر سلام پیش کرتی ہوں اور میڈیا کلب نے تو ابتدا کردی ہے اسکے علاوہ بھی تمام ادارے اس سوچ کو تکمیل دیتے ہوئ وسیع تر کرتے چلیں تاکہ یہ یتیم کسی بھی قسم کی کمزوری احساس کمتری کا شکار نا ہوں اور اس ”با ہمت“ کے لقب سے وہ اسطرح ہمت سے اپنا مقام بنائیں کہ اس سوچ کو حقیقت بنالیں۔۔۔

دوسروں کو عزت تو وہ ہی دیتے ہیں جو خود عزت دار ہوتے ہیں کیونکہ انسان دوسروں کو وہ ہی دیتا ہے جو اسکے پاس ہوتا ہے۔اللٌٰہ پاک ہمیں بھی غریب، مجبور، لاوارث، مسکین اور باہمت بچوں کو سہارا دینے کی توفیق عطا فرمائے دین اسلام کے تمام حقوق و فرائض ادا کرنے کی صلاحیت عطا فرماۓ۔
آمین

Mariyam Khan

Mariyam Khan

تحریر : حافظہ مریم خان
mariyamkhan_20@hatmail.com