معاشرے میں پروان چڑھتے منفی رویے

Social Media

Social Media

تحریر :آخونزادہ عبدالسبحان
آج کل کسی سے اخلاقی لہجے میں بات کرکے اپنی بات منوانا یا دوستی کا ہاتھ دے کر اتفاق و اتحاد کی فضاء قائم کرنا بڑا مشکل کام بن چکا ہے۔ کیوں کہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہنے پر مجبور ہے اور حالات بھی کچھ ایسے بن چکے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئی بھی انسان کچھ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

اس کے مقابل دشمنی مول لینا اپنے آپ کو بےوقعت وحقیر کرانا بڑا آسان کام بن چکا ہے،بس کسی کے لیڈر ،قائد پر تنقید کرکے دیکھو ہوتا ہے کیا، قطع نظر اس سے کہ وہ تنقید درست اور بجا ہو یا بےجا پھر مخالفین کی اخلاقی گراوٹ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ علمی اور مبنی بر حقیقت جواب دینے کی بجائے گالم گلوچ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس سے نفرتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور محبت و سکون ناپید ہوکر رہ جاتے ہیں۔

یہ سوشل میڈیا ہی کے کرشمات ہیں اور ایک رواج سا بن چکا ہے، آج سے کئی برس پہلے ہوٹلوں اور سول مقامات پر ایک جملہ لکھا ہوا ہوتاتھا، کہ “سیاسی گفتگو سخت منع ہے” اب وہ کام سوشل میڈیا پر بڑی آسانی سے ہر کوئی بڑی دیدہ دلیری سے کررہا ہے۔ وہاں یہ ڈر ہوتا تھا کہ کہیں مخالفین طیش میں آکر ایک دوسرے پر نہ چڑھ دوڑیں اور آج کسی قیادت کے بارے میں معمولی لب کشائی بھی کریں تو ماں بہن کی گالیوں سے لیکر کیا کیا تبصروں میں لکھا جاتا ہے، انسان دیکھ کرشرمندہ ہوجاتا ہے اور یقین جانیں کہ یہ سب ان سیاسی لیڈران کی برکات ہی ہیں جو آئے روز نوجوانوں اور ملک کو ترقی کے راہ پر گامزن کرنے کے خواب دکھا رہے ہوتے ہیں۔ جنہیں امت کی ملی یکجہتی سے زیادہ دوسرے کے خلاف کارروائی عزیز ہوتی ہے کیوں کہ اس سے اس کا جتھہ مضبوط ہوتا ہے۔ ایسے ورکرز، کارکنان کا کیا فائدہ جو وقتی طور پر مفادات کو حاصل کرنے کی خاطر ہمیشہ کا امن سکون غارت کردیں۔دوسری طرف بے چاری قیادت ان کارکنان کی اس قسم کی حرکات سے بالکل بے خبر ہوتی ہے اگر وہ یہ غلیظ گالیاں پڑھ لیں تو سر پکڑ کر رہ جائیں گے۔

یہاں ایک بات بہت اہم اور ضروری ہے جس کی طرف قارئینِ کرام کی توجہ مرکوز کرانا چاہوں گا کہ یہ رویے اب میڈیا کے ذریعے عوام کو دکھائے جارہے ہیں اور اسی کے زیر اثر معاشرے کے افراد منفی رویے سیکھتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح “سوشل میڈیا پر بھی سیاسی جماعتوں کے اختلاف کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت پھیلانا بھی عروج پر ہے کیونکہ اکثر علماء کے نام ہی سے گروپ اور پیجز بنائے گئے ہیں۔ جن کی سرپرستی باقاعدگی سے کچھ نام نہاد علماء کر رہے ہیں۔ نام نہاد اس لیے کہا کہ علماء انبیاء کے ورثاء ہیں نہ کہ اُمت میں انتشار پھیلانے والے۔ حقیقت یہ ہے کہ علماء کی اکثریت کو تو درس و تدریس سے فرصت ہی نہیں ملتی لیکن ان کے معتقدین نفرت پھیلانے میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ میں نے سال بھر میں لاتعداد پیجز کا چکر کاٹا اور وہاں وہ کچھ پایا جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا، اس پر مستزاد یہ کہ جو گروپ فالورز ہیں اُن میں کچھ صاحب جبہ و دستار بھی کھلے عام نہ صرف ان کو سپورٹ کر رہے ہیں بلکہ اپنے مخالفین کو ننگی گالیاں اور بے جا الزامات لگاتے اور طعن وتشنیع میں مگن رہتے ہیں۔ خدارا یہ روش کسی طور پر بھی درست نہیں نہ اسے دین کی خدمت کہا جاسکتا ہے اور نہ کہا جائے گا۔

مجھے علماء سے محبت ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ ان کے ذریعے ہم تک دین پہنچا اور ان ہی سے ہم نے دین سیکھا اور سیکھ رہے ہیں۔ صاحبِ بصيرت علماء کو چاہیے کہ اس طرف توجہ دیں اور اپنے عقیدت مندوں کو اس برے عمل سےروکیں اور ان کو درست سمت پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مجھے تو ان پیجز پر گالم گلوچ اور بازاری زبان دیکھ کر بہت عجیب لگا اور یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ یہ کون سے دین کی خدمت ہے، اس سے فائدہ کس کو ہورہا ہے۔اسلام اور مسلمانوں کو تو اس سے نقصان ہی ہورہا ہے ہاں البتہ دشمنان اسلام کو ضرور فائدہ ہورہا ہوگا۔ یہ حضرات ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر سوچیں کہ یہ کر کیا رہے ہیں؟ اب تو نت نئے مسائل کی آڑ میں ایک دوسرے کا استحصالِ کیاجارہا ہے نفرت کاجن بے قابو ہوچکا ہے۔ ایک گروہ کا دعوی ہے میرے مخالفین عذاب قبر کے منکر ہیں اس لیے وہ معتزلی ہیں واقعی جو عذاب قبر کا منکر ہو گمراہ ہیں تعجب یہاں ہوتا ہے جب مخالف سمت کے لوگوں کا بیان ہے ہم عذاب قبر کے منکر کو کافر سمجھتے ہیں نہ کہ معتزلی، بدعتی۔ اب مناظرہ کس بات پر اور شور شرابہ کسی کام کا ؟ یہ چکر کوئی اور چیز کا ہے، یہ بغض حسد اور نفاق کی علامت ہے۔ میں نے اپنے اساتذہ سے بارہا سنا ہے “قیامت کے دن نہ سننے کے بارے پوچھا جائے کہ کیا مردے سنتے تھے یا نہیں اور نہ ہی رفع الیدین اور عدم رفع الیدین کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جو پوچھا جائے گا وہ قرآن و سنت سے روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔

جو بات قرآن و سنت سے فہم سلف کے عین مطابق اٹل صحیح ثابت شدہ ہو ان سے کوئی مائی کا لال اگر مسلمان ہو انکار نہیں کر سکتا۔جو علماء اور عام انسانوں کے تعبیرات ہے تو وہ ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی ۔ ان کا معاملہ اللہ کے پاس ہے اس میں وہ آپ کے کریہہ جوابات کے ہر گز محتاج نہیں۔ اپنے مخالفین سے مطابق سنت اور سلف صالحین جیسا رویہ رکھنا سیکھیں ۔تنقید کو برداشت کرنا سیکھیں مہذب طریقہ اختلاف سیکھیں ۔ جھوٹ اور اندھیرے کا وقت گزر چکا ہے اب بات دلیل کی ہورہی ہے نہ کے پروپیگنڈے کی۔

اس زمانے میں جب ﺑﮯ ﺟﺎ ﺗﻨﻘﯿﺪ، ﻋﺪﻡ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ، ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺻﺒﺮﯼ کا دور دورہ ہے ﺍﻭﺭ ﺍﺱ کے ﮨﻢ ﮨﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ مذہبی لیڈر ﮨﻮﮞ ﯾﺎ سیاسی قائدین، ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﻣﺪﺭﺳﮯ، ﻓﺮﺩ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺗﮏ ﺳﺐ ﮨﯽ ﺍﻥ ﻭﺑﺎﺋﯽ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﯾﺎ ﻧﺎﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻠﻘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻭﻍ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﻏﻠﻄﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺗﺎﮨﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﺪﺍﺭﮎ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﺣﺪﯾﮟ ﭘﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺴﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﻭﯾﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻤﺰﻭﺭﯾﺎﮞ ﺗﻮ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺟﺒﮑﮧ ﻓﺮﯾﻘﯿﻦ ﮐﮯ ﺗﻨﺪﻭ ﺗﯿﺰ ﺟﻤﻠﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﻏﯿﺮ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ فضاء ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

اس کے لیے اسلاف کی پیروی کرنا ناگزیر ہے۔ ﻓﺮﻭﻋﯽ ﺍﻣﻮﺭ میں اﺧﺘﻼﻑ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧؒ، اﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽؒ، ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏؒ، ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞؒ، ﺍﻣﺎﻡ ﺛﻮﺭﯼؒ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻭﺯﺍﻋﯽؒ رحمہم اللہ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﺟﺰﻭﯼ ﺍﺧﺘﻼﻓﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﺎﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮ ﻧﻈﺮﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﯼ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﻮ ﻻﺯﻣﺎً ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻟﯿﮟ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﯼ ﺭﺍﺋﮯ ﺳﮯ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﺎﻻ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﺗﮩﻤﺖ ﻟﮕﺎﺋﯽ۔ ﺑﻞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﺍﻥ ﻗﺎﺑﻞ ﻗﺪﺭ ﺍﺋﻤﮧ ﻧﮯ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﯼ ﻭ ﻓﺮﻭﻋﯽ ﺍﻣﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﮨﻤﯽ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻣﺜﺎﻝ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﮨﮯ۔

آخر میں دو سوال قارئینِ پر چھوڑ رہا ہوں
::: کیا ایسے رویوں سے ہم کسی کے دل جیت سکتے ہیں؟؟
::: یا مزید ناکامیوں اور انتشار کا سبب بنتے جارہے ہیں؟؟

Abdus Subhan

Abdus Subhan

تحریر :آخونزادہ عبدالسبحان