میرے ہم نفس ذرا یاد کر

Remember

Remember

میرے ہم نفس ذرا یاد کر
کبھی ہم بھی تجھ کو عزیز تھے
تیری زندگی کی نوید تھے
یہی رہ گزر یہی راستہ
یے ہی شجر و گل یہی واسطہ
اسی رہ گزر پے چلے تھے ہم
تیرے ہمسفر تیرے ہم قدم
مگر اب کہاں ہیں وہ منزلیں
نہ وہ قربتیں نہ وہ محفلیں
میرے ہمسفر تجھے یاد ہو یا نہ ہو مگر
مجھے سب ہے یاد وہ آج تک
وعدے جو کئے تھے اسی راہ پر
ااسی آس پر ہی تو آج تک
میرے ہم سفر
تیری رہ گزر پے لگی نظر
تجھے یاد ہو یا نہ یاد ہو
میری زندگی میری بندگی
اک اداس شام ہی بن گئی
یے وہ شام ہے کے نہ جس کے بعد
نہ کوئی شب نہ کوئی سویر
میرے ہم سفر ذرا یاد کر
ذرا یاد کر

شاعرہ : فہمیدہ غوری