ڈبیٹ نکھار پیدا کرتی ہے

Conscience

Conscience

تحریر: محمد وقار
رسٹرم پر کھڑے ہوکر کی جانے والی تقریر واقعی موثر ہوتی ہے اس کا مواد کچھ کر گزرنے، اکسانے اچھائی کا عزم رکھنے کی جانب مائل کرتا ہے اور ہمارے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ڈبیٹ کرنے والے کی اپنی شخصیت میں رجائیت پسندانہ تبدیلی رونما ہوتی ہے سوجھ بوجھ آتی ہے اور حقیقت کا اداراک کرنے کی جستجو بڑھتی ہے دلائل اور توجیہات کو پرکھ کر سامعین میں موضوع کا اصل رخ عام کیا جاتا ہے۔

نام نہاد ڈبیٹ نیوز چینلز پر بھی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بعض بدتمیز تجزیہ نگار مہمانوں کی صراحت سے تذلیل بھی کرتے ہیں مگر یہ بے معنی بحث ثابت ہوتی ہے اور کوئی بھی دیکھنے والوں کو اپنے موقف کا قائل نہیں کر پاتا۔

” جھپٹنا، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ”

جوش و ولولے سے مزین مباحثے میں فکر اجاگر کرنے کی قوت ہوتی ہے اور یہ سننے والے ہر شخص کے ذہن میں پِن پوائنٹ ہوجاتی ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سماعت کئے ہوئے دلائل پر غور ضرور کرتا ہے ،اکتسابِ علم کے دو زریعے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ ہم کو دلائل و براہین کے وسیلہ سے کچھ معلوم ہو دوسرا یہ ہے کہ کسی برہان ودلیل کی ضرورت پیش نہ آئے اورظاہر وعیاں ہوں محض لوگوں کو احساس دلانا ہو کہ یہ مسئلہ جاذبِ توجہ ہے۔بسا اوقات منطق اور دقائق کو تحقیق کر کے سامنے لانا پڑتا ہے کہ سننے والے کان دھریں۔ ڈبیٹ کا میڈیم چاہے جو بھی ہو اس میں غیر جانبداری کا پہلو نمایاں ہونا چاہیے طعن و تشنیع سے اجتناب کرنا بھی یقینی بنانے کے لیے جہدشامل ہو۔

Writing

Writing

گرم جوش مباحثہ میں جان پڑ جاتی ہے جب پُر اثر شعر اس میں شامل ہوتا ہے اور اُس کا انداز اور اس کی ادائیگی جی کو موہ لیتی ہے ۔ امام غزالی اگر کوئی شخص حج کے لیے جارہا ہو اور راستے میں اتنا تھک جائے کہ چلنا دشوار ہوجائے،وہ ترنم کے ساتھ ایسے اشعار پڑھے جن سے اسے راحت حاصل ہو اور سفر طے کرنے کی طاقت حاصل ہوجائے ۔یعنی وہ شاعرانہ ضرب جو انسانی روح کو جگانے کی جسارت کرے قابلِ قبول ہے اور وہ الفاظ جن کا منبع صرف قربِ الٰہی پانا اورراہِ مستقیم پر گامزن ہونے کی مشعلِ امید پیدا کرنا ہو وہ واقعی روح کی غذا ہیں۔ حالات کو دیکھ کر ان پر لب کشائی کرنا اہم ہے لیکن سب سے افضل طریقہ ڈبیٹ کرنا ہے صاحبِ علم شخص ہی اسے بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں اس کی گہرائی کو محسوس کرتے ہیں ۔لا شعوری اور جہالت کے زہر کو دینِ اسلام نے شاندار تعلیمات سے تریاق فراہم کیا، عبدیت میں سلاست نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا۔

امام غزالی نے اس سوال کا جواب دیا کہ قرآن الحکیم کی نسبت قوالی وجد یا شاعرانہ کلام زیادہ ابھارتا ہے اوراس کی کئی وجوہ بیان کیں جن خلاصہ ہے کہ قرآن کریم کی تمام آیات سننے والے کے حال کے مناسب نہیں ہوتیں ،ہر سننے والا نہ تو انہیں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنے حال پر چسپاں کر سکتا ہے۔لہٰذا علم و معرفت سے بھرے اشعار موزوں ہدایت کا سر چشمہ بنتے ہیں،خیر جب خلوت میں بیٹھا تو یہ خیال آیا کہ اس چیز کا پتہ لگاؤں روح کی غِذا دراصل ہے کیا؟بہر کیف بات ہو رہی تھی ڈبیٹ کی وہ مباحثہ جات جو سننے والے کو سرور دیں ،طمانیت پہنچائیں جب کوئی کسی مقرر کے بیان کردہ خیالات پر ہمہ تن گوش ہوجائے تو اسے معاشرے کے رد کیے جانے والے اسباب یعنی رئیلٹی نظر آتی ہے۔ مباحثوں کا انعقاد جدھر خود اعتمادی پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے وہیں سوچنے سمجھنے کی دعوت بھی دیتا ہے اور صرف ڈبیٹ کرنے والا ہی اپنے اندر تغیر محسوس نہیں کرتا بلکہ خوش دلی سے سننے والے بھی اس سے مستفیض ہوتے ہیں اور شنید کر کے اپنے فہم سے اہم باتیں زیرِ غور لاتے ہیں۔

Speech

Speech

گیارہ اور بارہ نومبر 2015 کو پاکستان کی صفِ اول کی درسگاہ جی سی یو میں 35 ویںآل پاکستان علامہ اقبال بلنگول ڈیکلامیشن کی تقریب بخاری ایڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان بھر کی درسگاہوں نے بھاگ لیا اور اپنی گرم جوش تقاریر سے خون گرمائے، رسالپور اور ملٹری کالجز سے آئے کیڈٹ جنہوں نے اس محفل کو چار چاند لگائے ،جہاں سنجیدہ موضوعات پر لب کشائی کی گئی وہیں مزا خیہ،من موجی موضوع جات پر بات کر کے مقررین نے خوب داد سمیٹی۔ جی سی یو لاہور کی ڈبیٹنگ سوسائٹی کے پریزیڈنٹ برادرم افزان منیر اور سیکرٹری جنرل رضا گیلانی نے بہت بہتر انداز میں نظامت کے فرائض سرانجام دئیے چونکہ میری مادرِ علمی میزبان تھی اس لیے اس مقابلہ میں ہمارے ڈبیڑز شریک نہ تھے مگر ہمارے حماد شفی نے سنجیدہ ٹاپک پر بے حد گراں اہم تقریر کی۔

اس ہی طرح ہمارے اویس ملک نے مزاخیہ ٹاپک پر تقریر کرکے وہ واہ واہ حاصل کی جس کا حساب نہیں ،جیسا کہ میری یونیورسٹی کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ شعبہ ہائے زندگی کے تمام میدانوں میں آگے دوڑ رہی ہے۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے بے حد ممتاز صدیق اعوان صاحِب یہاں زیرِ تعلیم طلباء و طالبات کی رہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں غیر معمولی بنانے کے لیے ان پر خاصی شفقت برتتے ہیں۔

تقریری مقابلوں کا ہونا بہت مثبت ہے اور انہیں ہوتے رہنا چاہیے اور ملکی مسائل بھی افہام و تفہیم سے پارلیمان میں طے ہونے چاہیں لیکن حیف صد حیف کہ ٹاک شوز میں نازیبا الفاظ کی ادائیگی سے معاملات کو مزید بگاڑ لیا جاتا ہے۔ کاش میرے دیس میں ڈبیٹ کا کلچر رہتا ،توقیریں اچھالی نہ جاتیں حقائق سامنے رکھ کر بات ہوتی تو مسائل کا حل نکلتا بحران پیدا نہ ہوتے۔اب بھی اگر اپنی سوچ کے زاویوں کو لامحدود کر کے گر سب مل بیٹھیں اپنا اپنا نقطہِ نظر پیش کریں تو اصلاح کا وسیع احتمال ہے۔

Mohammed Waqar

Mohammed Waqar

تحریر: محمد وقار
0333-4265354