ہماری ریاست کا بوسیدہ نظام تعلیم

Education in Pakistan

Education in Pakistan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
میں محمودہ فاطمہ بنت ہیڈ ماسٹر مولوی محمد الیاس خان مرحوم آف نالیاں سدہنوتی آزاد کشمیر سے ایک غریب لڑکی ہوں والد محترم سکول ٹیچر تھے چار سال قبل دوران سروس ہی وہ وفات پا گئے میں چونکہ بی اے بی ایڈ تھی ان کی جگہ ڈی ای او سدہنوتی زنانہ کے ہاں پرائمری ٹیچر کیلئے اپلائی کیا مگر آئے روز وعد ے وعید اور آنی جانیاں کے کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ محترمہ انگلیوں پر نچاتی رہیں۔

سیاسی تقرریاں جاری رہیں ۔ مجبور ہو کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا پنشن کورٹ سے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ بیان حلفی جمع کروائے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر بیانات دیئے مگر ہماری عدلیہ کے منصفوں نے بھی آج کل کرتے اپنا بوجھ اتارتے عرصہ چار سال گزار دیئے مگر آج تک نہ ہی مجھے اپنا حق ملا اور نہ ہی انصاف آزاد ریاست کے تعلیمی ادارے اور عدلیہ میں آنکھ مچولی جاری رہی۔ اسی دوران میری والدہ محترمہ جو کہ اسی تعلیمی ادارے سے بحیثیت ٹیچر وابستہ تھیں ریٹائر ہو گئیں ان کی جگہ بھی اپلائی کیا جو کہ ایک بیٹی کا حق تھا۔ مگر تاحال مجھے اپنا حق نہ ملا اب بھی میرا معاملہ ہائی کورٹ عدالت میں ہے مگر آئے روز کی تاریخیں اور خواری میرا مقدر بنی ہوئی ہے۔

حاجی صاحب چونکہ آپ کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہے آپ صدائے وطن کے عنوان سے حق و سچ کی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔ خدا کے لئے آپ میری آواز بلکہ میری طرح آزاد ریاست کی سینکڑوں دوسری پڑھی لکھی بیٹیاں بیٹے جو ذاتی پسند نا پسند اور سفارشی سیاسی مکچر کی نظر ہو کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ہمارے اس ناقص نظام تعلیم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیںآواز بلند کریں۔ حکومتی ایوانوں تک پہنچائیں۔ تاکہ ہمیں اپنا حق اور انصاف ملے۔

قارئیں یہ تھا وہ خط جو آزاد ریاست کی ایک بیٹی نے قوم اور حکمرانوں کے نام میرے توسط سے لکھا۔ قارئین اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام میںدوسری کئی خامیوں کے علاوہ سب سے بڑی خامی نا انصافی سیاسی اور سفارشی عنصر سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ڈی ای اور ممبران اسمبلی وزیر وں مشیروں کی پسند نا پسند پر تقرری میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اور نا اہل میٹرک ایف اے راتوں رات کامیاب اور بی ایس سی ۔ ایم ایس سی بچے بچیاں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پہلے تقرریاں اور بعد میں اخبارات میں اشتہارات اگر خدا خدا کر کے مقابلے کے امتحانات کرائے بھی جائیں تو کامیاب امیدوار بس اپنا سا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کوئی ایسا ادارہ نہیں وزارت تعلیم کے باوجود جہاں پڑھے لکھے بچے بچیاں اپنی اپنی ڈگریاں اور سی وی سندات جمع کرا سکیں انکے انٹرویو لئے جائیں۔ اور سکولوں کالجوں میں نکلنے والی پوسٹیں ۔ امتحانات میں آگے آنے والے امیدواروں کی تقرریاں بغیر کسی سرکاری مداخلت کے کی جا سکیں۔

یہ کیسا نظام تعلیم ہے کہ تیس تیس سالوں سے بڈھے نیم تعلیم یافتہ استاد تو آن سروس ہوں مگر آج کا پڑھا لکھا اعلی ٰ تعلیم یافتہ سڑکوں پر مارا مارا اپنی ڈگریوں میں پکوڑے بیچ رہا ہو۔ نتیجہ ہمارے معاشرے میں بے روزگاری بے راہ روی منظم ڈاکہ زنی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور اکثریت اپنی عدالتوںکے دروازے کھٹکا نے پر مجبور ہیں۔ مگر ہائے اس پشیمان کا پریشان ہونا ہماری عدالتیں منصف بھی اپنا بوجھ آگے دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ داد ا انصاف مانگتا ہے۔ مگر پوتا جا کر فیصلہ سنتا ہے۔ وہ بھی جب چڑیاں چگ جائیں کھیت ۔ یاد رکھیں کسی معاشرے کا نوجوان جب بے انصافی کا شکار ہو جائے مایوس اور بد ظن ہو جائے تب مراکش اور مصر جیسے تحریر اسکوائر آباد بننے سجھنے شروع ہو کر ظالم اور نا اہل حکمرانوں اداروں کے تخت طائوس نیچے سے کھینچ لیا کرتے ہیں۔ خدا کے لئے یہ ہمارے حکمران اداروں کے سربراہان ہمارے اسی معاشرے سے ہی ہیں۔

انکی اولادوں نسلوں نے بھی یہاں ہی پلنا بڑھنا اور پروان چڑھنا ہے۔ آج اگر یہ ان کرسیوں پر بیٹھ کر نا انصافی اور بدیانتی کے مرتکب ہوں گے تو وہ اوپر والا ان کی اولادوں نسلوں کو اسکا شکار بنا دے گا اس لئے ہماری آزاد ریاست کے حکمرانوں خادموں کرتا دھرتائوں سے اپیل ہے کہ اپنا قبلہ درست کریں۔ خصوصا اپنے اس بوسیدہ تعلیمی نظام کوجدید تقاضوں پر چلائیں استوار کریں۔ اپنے ان غریب عوام کے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے حوالے نہ کریں۔ جہاں ان کی چمڑی ادھیڑی جا رہی ہے۔ مگر ہمارے سرکاری سکولوں کالجوں کے ناقص تعلیمی معیار کے ساتھ لاکھوں روپے کا معاوضہ حاصل کر کے کوئی چیک اینڈ بیلنس معیار کارکردگی نہ ہونے سے یہ اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر خرمستیاں کر رہے ہیں ۔ نوجوان نسل کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ اور نا انصافیاں حق تلفیاں کر رہے ہیں۔ یہ اپنا قبلہ درست کریں۔ بغیر کسی امتیاز کے رنگ نسل غریب امیر کے سیاسی سفارشی کے اپنے پرائے کے اپنے ملک ریاست اور قوم کی خدمت کریں تاکہ حقدار کو اس کا حق اور طالب انصاف کو بغیر کسی تاخیر کے اس کی دہلیز پر عدل وانصاف مہیا ہو سکے۔ اور ہمیں مستقبل میں با کردار با صلاحیت نوجوان نسل کی قیادت با سعادت میسر آسکے اور ہماری ریاست دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی معراج کو پہنچے آمین۔ انشا اللہ

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان
hajizahid.palandri@gmail.com