ہماری ریاست میں چہرے بدلے ہیں نظام نہیں

Allama Iqbal

Allama Iqbal

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
یورپ کے مرد آہن مسئولینی نے ایک مرتبہ علامہ اقبال سے ملاقات کی اور گزارش کی کہ آپ ایک مدبر اور مفکر ہیں۔ مجھے کچھ نصیحت کریں۔ اقبال نے فرمایا تمہارے شہر جب گنجان آباد ہو جائیں تو آگے بڑھ کر نئے شہر آباد کر لو۔ مسئولینی نے اپنا ہیٹ اتارا اور اقبال کو سلیوٹ کیا۔ اقبال فورا بول اٹھے نہیں نہیں یہ میں نہیں کہہ رہا یہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے آقا محمد رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا۔ تب مسئولینی کھڑا ہو گیا اور اپنا ہیٹ اتار کر تین مرتبہ آقا ۖ کو سلام پیش کیا۔ اللہ اللہ ہمارے آقا ۖ کے فرمان میں کیا کیا حکمتیں تھیں تدبر تھا۔ مگر افسوس غیروں نے تو ان کے اصولوں فرمانوں پر عمل پیرا ہو کر کامیابیاں حاصل کیں مگر آج انکی اپنی امت کے حکمران صاحب اقتدار یہ سبق بھول بیٹھے ہیں۔

حال ہی میں ہماری ریاست میں انتخابی انقلاب آیا دوسری تمام سیاسی جماعتوں کو یکسر مسترد کر کے ن لیگی جماعت کو دو تہائی اکثریت حاصل کی اور اس نے مسند اقتدار سنبھالی ۔ اہل ریاست کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ شائد یہ کوئی تعلیمی معاشی اور انتظامی انقلاب لا سکیں۔ گے مگر عرصہ چار ماہ گزرگئے۔ انہوں نے ابھی تک ریاست اور ریاستی عوام کی بھلائی کے لئے کوئی انقلابی اقدام نہی اٹھا ئے اورلگتا یہی ہے کہ اس مرتبہ بھی چہرے بدلے ہیں نظام نہیں اور شائد یہ پانچ سال بھی گزشتہ نصف صدی کی طرح وقت لنگھائو ڈنگ ٹپائو گزر جائینگے۔ معدنی دولت سے مالا مال اس خطے میں پہلے بھی نہ ہی کوئی صنعت قائم کی گئی نہ ہی سیاحت کو فروغ دیا گیا نہ ہی دریائوں آبشاروں پر بند باندھ کر پن بجلی پید ا کی گئی ۔ اور نہ ہی چیڑھ ، ریاڑھ ، بیاڑھ کے گھنے جنگلات سے کوئی فائدہ اٹھایا گیا۔ جو کہ کسی بھی ریاست کے استحکام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں۔

مظفرآباد میر پور کے اضلاع کو چھوڑ کر جہاں دو چار فیکٹریاں تو قائم ہیں مگر دوسرے تمام وسیع علاقوں میں نہ کوئی ایسا ادارہ قائم ہوا نہ زراعت پر توجہ اور نہ ہی جڑی بوٹیوں سے اٹے ہوئے پہاڑوں اور قیمتی پتھروں کے ذخائر سے استفادہ حاصل کیا گیا پہلے ریاستی جماعتوں نے عوام علاقہ کو یرغمال بنائے رکھا اور گزشتہ عشرے سے غیر ریاستی جماعتوں کی یلغار ۔ اربوں کا بجٹ سالانہ آتا رہا اور ان کے اللوں تللوں کی نذر ہوتا رہا ۔ درجنوں وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج لاکھوں کی گاڑیاں مگر ریاست پر کوئی توجہ نہیں ادھر کشمیر بنے گا پاکستان ادھر پاکستان کی شہہ رگ ۔ شہر جو نصف صدی آباد ہوئے تھے وہی گنجان آباد ہوتے رہے شہر کہاں آباد ہوتے شہر دوکانوں سے نہیں اداروں سے صنعتوں سے قائم ہوتے ہیں۔

PML-N

PML-N

چند تعلیمی ادارے قائم ہوئے مگر وہاں ان کے من پسند میٹرک پاس بھرتی ہوتے رہے جو نصف صدی سے ابھی بھی حاضر سروس ہیں نئی نکلنے والی پڑھی لکھی ڈگریاں لئے۔ ماسٹر ڈگریاں پی ایچ ڈی ڈگریاں لئے کچھ باہر بھاگ رہے ہیں۔ تو باقی سڑکوں پر مٹر گشت اور پکوڑے بیچ رہیہیں۔ فوج میں نوجوانوں کی بھرتیاں نہ ہونے کے برابر اور خلیجی ممالک میں کام دھندا بند ایسے میں ۔ روزگا ر نہ ملنا کاروبار نہ ہونا۔ الجزائر اور مصر کے تحریر اسکوائر آباد کر دیاکرتے ہیں۔ اور فوجی انقلاب کی صورت اختیار کر دیا کرتے ہیں۔

سابقہ پی پی کی حکومت نے ایک تعلیمی پیکج کا اعلان کیا تھا جوکہ موجودہ حکومت نے آتے ہی منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا شائد اس سے چند تعلیمی ادارے مزید قائم ہوتے ڈگری ہولڈر بچوں بچیوں کو شائد روزگار ملتا۔ پڑھی لکھی نوجوان نسل تدریسی عملے میں شامل ہو تی مگر بدقسمتی سے ان سیاستدانوں نے اس پیکج کو بھی ختم کر دیا۔ اسمبلی کے اجلاس میں حاضری لگتی ہے مگر نہ کوئی قانون نہ آئینی ترمیم ۔ اب تو پاکستانی اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں یک مشت ایک لاکھ روپے کا اضافہ ہمارے اسمبلی ہولڈر بھی اپنی اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لئے دھرنے دینے سڑکوں پر نہ اتر آئیں۔ بس اللہ خیر۔ ایسے میں اگلے الیکشن سر پر کھڑے ہوں گے۔ قارئین موجودہ ہماری سرحدوں کی نازک صورت حال اس پار کشمیریوں کی قربانیاں ہمارے مقتدر لوگوں کا ہاتھ پر ہاتھ رکھے تماشہ دیکھنا ۔ بے روزگاری میں اضافہ پڑھے لکھے لوگوں کا سڑکوں پر بے روزگار پریشان حال پھرنا خلجی ممالک سے ایک بہت بڑے طبقے کا روزگار ختم ہو کر واپس ریاست میں آنا ہمارے حکمرانوں کا کوئی معاشی انتظامی یا انقلابی پیکج کا نہ لانا ۔ خدا کی قسم مستقبل میں بہت بڑے طوفان آنے کا سبب بن سکتا ہے۔ جو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے ٹل نہیں سکتا۔ یاد رکھیں کسی ریاست ملک یا علاقے کی نوجوان نسل پڑھی لکھی نسل کا بے چین ہونا بے روزگار ہونا ۔ انہیں غلطراستوں کے مسافر بنا دیا کرتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں اس طوفان کا انتظار کئے بغیر ملک بیٹھ کر ریاست کے مدبروں مفکروں معاشیت دانوں اور حکمرانوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور اس کا حل تلاش کرنا ہے۔

میری نظر میں ہماری موجودہ حکومت کو ابھی سے چند انقلابی اقدام اٹھانے ہوں گے۔ نمبر ١۔نیا تعلیمی یکساں نظام لانا ہو گا۔ تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں پرانے نیم تعلیمی طبقے کی گولڈ ن شیک ہینڈ یا کسی بھی با عزت طریقے سے چھٹی اور انکی جگہ جدید اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کی تعیناتی ۔ اور مدت ملازمت بیس سال کی حد مقرر کرنا ہو گی۔ نمبر ٢۔ ریاست کے تمام بڑے شہروں سے آگے بڑھ کر نئے منظم شہر آباد کرنے ہوں گے۔ جن کا دائرہ کار ہر ضلع کی حد تک قائم کرنا ہو گا۔ ان نئے شہروں میں پرائمری مڈل ، ہائی سکول اور ایک ایک کالج پلے گرائونڈ جدید ہسپتال کا قیام عمل میں لانا ہو گا۔ ہر ڈسٹرکٹ میں ایک دو فیکٹریاں لکڑی کا کارخانہ اور ایک ایک تفریح پارک اپنے داخلی و خارجی سیاحوں کے لئے بنانا ہو گا۔

State

State

ریاست کے ہر اضلاع میں ایک دو اعلیٰ معیاری رہائشی ہوٹلز کا قیام عمل میں لانا ہو گا۔ تمام اضلاع کو ملانے والی بڑی بڑی سڑکوں کی حالت بہتر بنانی ہو گی قارئین ہمارے حکمرانوں کا جو اب یہ ہوگا کہ اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ہمارے پاس تو تنخواہوں کے لئے پیسے تک نہیں ہیں۔ قارئین ہمارے حکمرانوں کو وزیروں مشیروں کو تعداد کم کرنی ہو گی۔ صرف چند اضلاع میںمتعد یونیورسٹیوں کی اور کالجوں کی بھر مار کو محدود کر کے اس کا دائرہ اختیار تمام اضلاع تک وسیع کرنا ہو گا۔ صرف چند اضلاع میں بڑے ہسپتالوں کا قیام نہیں ہرضلع میں ایک ایک جدید ہسپتال کو قیام چند بڑی شاہراہوں پر بے جا پیسہ خرچ کرنے کے بجائے ریاست کو ملانے والی سڑکوں کی حالت بہتر بنانا ہو گی۔ سیاحتی پارک ہوں یا تھری سٹار ہوٹلز ان کے لئے باہر سے آنے والوں یا مقامی سرمایہ کاروں کو ان اداروں میں سرمایہ کاری آسان شرائط پر قرضے اور سرمایہ کے تحفظ کی یقین دہانی کرانی ہو گی۔ قارئین آپ یقین کریں ان اداروں کے قائم ہونے نئے شہر آباد کرنے بلا امتیاز تمام اضلاع کے حصہ داری اور چھوٹے صنعتی یونٹوں کے قیام سے ریاست آزاد کشمیر میں ایک معاشی انقلاب آئیگا۔

انجینئر ڈاکٹرز سے لے کر مزدور ترکھان تک اور ڈگری ہولڈر نوجوانوں کو روزگار او ر کاروبار ملے گا۔ علاوہ اسکے ہماری حکومت بڑے بڑے نالوں آبشاروں پر چھوٹے چھوٹے بند باندھ کر بجلی کا زیادہ سے زیادہ حصول ممکن بنائے۔ اور پھر ہر اضلاع میں ایک ایک ڈیری فارم کا قیام عمل میں لائے تب جا کر ہم انشاء اللہ بے روزگاری بد امنی اور مایوسی کے کسی بڑے طوفان سے خود کو اور اپنی ریاست کو بچا سکتے ہیں۔ اور معاشی طور پر آزاد ریاست کو مستحکم کر کے صدا کے کاسئہ گدائی سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اللہ کرے کہ میری یہ تجاویز ہمارے اسمبلی فورم میں ڈسکس ہو ں اور بتدریج ان پر عملدرآمد ممکن بنایا جائے ورنہ آنے والی ہماری نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی ۔ اور ہم آزاد ریاست سے عذاب ریاست کی طرف بڑھتے جائیں گے۔ اللہ کرے مقبوضہ کشمیر بھی آزاد ہو کر یہ ساری کشمیری ریاست خوشحال اور فلاحی ریاست بنکر خدا داد پاکستان کا دست و بازو بنے آمین۔ کشمیر زندہ باد پاکستان پائندہ باہ۔

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
پلندری سدہنوتی آزادکشمیر
hajizahid.palandri@gmail.com