ریاستی اداروں کے خلاف سہ فریقی نیا محاذ

American Senate

American Senate

تحریر : قادر خان افغان
امریکن سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ آف اسٹاف نے الزام لگایا کہ “اس بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایس آئی کے دہشت گردوں سے رابطے ہیں۔”اس بیانیہ کے بعد ہمیں بھارت ،افغانستان اور امریکہ کے جنوبی ایشیا کیلئے نئی ٹرمپ پالیسی کے اصل مقاصد کو سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے پس منظر حقائق دراصل کچھ اور ہیں۔پاکستانی فوج کے اہم کلیدی ادارے آئی ایس آئی کے خلاف استعماری قوتوں کی سازشوں کا جال نیا نہیںہے بلکہ آئی ایس آئی کے کردار کو ہمیشہ متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ بھارت ، افغانستان ہمیشہ پاکستانی حساس ادارے کو اپنے جھوٹے الزامات کے نوک پر رکھتے ہیں۔آئی ایس آئی پاکستانی فوج کا ایک ایسا مایہ نازخفیہ ادارہ ہے جو ملکی مفادات کیلئے قیام عمل میں لایا گیا۔آئی ایس آئی ( انٹر سروسز انٹلیجنس) سے قبل پاکستان کی آزادی کے وقت انٹیلی جنس بیورو(IB) اور ملٹری نٹلیجنس(MI)کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، دونوں اداروں کا مقصد خفیہ اطلاعات کا تینوں مسلح افواج سے تبادلہ کرنے کا تیز رفتار عمل تھا۔

تاہم 1948میں پاکستان کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف نےISIقائم کرکے تینوں مسلح افواج کے افسران کو شامل کرلیا۔بھارتی خفیہ ایجنسی “را”آئی ایس آئی کی بدترین مخالف ہے ۔آئی ایس آئی کی کارکردگی کا معیار اس وقت دنیا بھر میں تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مقابلے میں پہلے نمبر پر ہے۔دنیا کے 10 بہترین خفیہ اداروں میں آئی ایس آئی سرفہرست ہے، امریکی میڈیا کی رپورٹ کی مطابق آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ جو قومی مفادات کے تحفظ ۔ سیاسی و معاشرتی معاملات پر فوج کی مشاورت سے اپنا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے خلاف بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی”را”اسرائیل کی ایجنسی” موساد”،امریکن ایجنسی سی آئی اے ، افغانی ایجنسی “خاد”اور برطانیہ کی ایم آئی سکس مسلسل مصروف عمل ہیں اور پاکستانی ریاستی ادارے کو کمزور اور ختم کرنے کیلئے کھربوں ڈالرز خرچ کررہی ہیں۔پاکستانی عوام کا آئی ایس آئی پر مکمل اعتماد اس بات کا مظہر ہے کہ اس وقت پاکستان میں 26کے قریب انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کررہی ہیں لیکن آئی ایس آئی ان سب کے مقابلے میں سرفہرست ہے بلکہ دوسری ایجنسیوں کے ذمے بھی جو کام ہے وہ بھی ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کو کرنا پڑتا ہے۔پاکستان کے مقابلے میں برطانیہ، امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی پولیس خفیہ اطلاعات تک رسائی میں قابل ذکر کردار ادا کرتی ہیں ۔لیکن پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اطلاعات تک رسائی و فراہمی کیلئے آئی ایس آئی کا کردار سب سے شاندار رہا ہے۔

کسی ملک کی فوج کی مدد کے لئے انٹیلی جنس ایجنسی کا کردار ناگزیر ہے۔ موساد ، را سمیت دنیا بھر کی خطرناک انٹیلی جنس ایجنسیاں جدید ٹیکنالوجی و ہتھیاروں کے ساتھ پاکستان کی انٹیلی جنس کے مقابلے سے قاصر ہیں۔پاکستان کو ایٹمی صلاحیت بنانے میں آئی ایس آئی کا سب بڑا کردار رہا ہے ۔ آئی ایس آئی نے پاکستان کو ایٹمی قوت بننے سے روکنے والے تمام عناصروں کے خلاف مربوط و موثر حکمت عملی اختیار کی اور ایٹمی اثاثوں کے خلاف تمام عالمی سازشوں کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ آئی ایس آئی جہاں اندورنِ ملک کالی بھیڑوں کے خلاف جہاد میں مصروف رہتی ہے تو سرحدوں کی نگرانی سمیت پاکستان کے خلاف سازشوں پر بھی عقابی نظروں کے ساتھ ہمیشہ چاک و چوبند رہتی ہے۔قومی سلامتی ، حساس معاملات اور کسی بھی غیر معمولی سرگرمی کو اپنے اداروں کو آگاہ رکھنا آئی ایس آئی کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ پاکستانی انٹر سروسز انٹیلی جنس کو اپنے پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے دنیا کی تمام ایجنسیوں پر سبقت حاصل ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ لامحدود وسائل اور جدید ترین سہولیات کی حامل امریکی فوج کی سی آئی ایجنسی دوسرے نمبر پر ہے۔جبکہ بھارت کی ایجنسی رینکنگ کے حوالے سے ساتویں نمبر پر ہے۔برطانوی ایجنسی ایم آئی سکس جسے عام طور پر سیکرٹ انٹیلی جنس سروس کہا جاتا ہے ۔دنیا کے بہترین حساس اداروں میں سے ایک ہے لیکن آئی ایس آئی کی قابلیت کا معیار ان ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

امریکہ نے پاکستانی ادارے پر براہ راست الزام لگا کر دراصل اپنی خفت اور شرمندگی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔آئی ایس آئی پاکستانی فوج کے ماتحت کام کرتی ہے ۔ افواج پاکستان ، ریاستی ادارے ہیں ،ان پر براہ راست الزامات سے ریاستی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن قانون نافذ کرنے والے حساس ادارے بین الاقوامی سازشوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ان سازشوں کے توڑ کے لئے ملکی مفاد میں پالیسیاں بنانا بھی ملک کے بہتر مفاد میں ہی ہوتا ہے۔پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم چلا کر عوام کو بدظن کرنے کی کوشش دراصل ملک دشمن عناصر کی عالمی سازش کا حصہ ہے تاکہ عوام انتشار کا شکار ہوجائیں اور ملک بھر میں مشرقی پاکستان( بنگلہ دیش) جیسی انارکی پیدا کرکے مداخلت کی جائے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش کے پیچھے عالمی قوتوں کا ہاتھ ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔

پاکستان موجودہ جمہوری نظام کے دوسرے ایسے مرحلے میں داخل ہورہا ہے جہاں پر امن انتقالِ اقتدار کا تاریخی لمحہ اگلے برس کے وسط میں آئے گا۔ لیکن چند عناصر قبل ازوقت انتخابات کیلئے پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کے خواہاں ہیں۔ پارلیمان ملک کو درپیش مسائل کے لئے یکسوئی پیدا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے لیکن دفاع پاکستان کے لئے اپنے اختلافات پس ِ پشت ڈال کر قوم کو متحد کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہ لینے کا عزم بھی رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کچھ قوتیں پاکستان کی شہرہ آفاق انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے کردار کو محدود کرنے کے خواہاں ہیں ۔ کیونکہ آئی ایس آئی اس وقت پوری دنیا میں اپنی کارکردگی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے نمبر ایک انٹیلی جنس ایجنسی کا درجہ رکھتی ہے ، جس سے عالمی استعماری قوتیں خوش نہیں ہیں ۔ امریکہ کی جانب سے آئی ایس آئی کے خلاف ہرزہ سرائی کئے جانا کہ آئی ایس آئی کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط ہیں ، مضحکہ خیز بیانیہ ہے۔ پاکستان کی سا لمیت اور بقا کے لئے آئی ایس آئی کا کردار اور عوام میں اعتماد ملک دشمن عناصر کیلئے ہمیشہ دل میں کانٹے کا سبب رہا ہے۔آئی ایس آئی کے خلاف الزامات اور سازشیں اس سے قبل بھی کیں جاتی رہی ہیں جس میں برطانیہ کی MI.6، موساد ، امریکن سی آئی اے،افغان ایجنسی خاد کی سرپرست ممالک کو پاکستانی غداروں نے اپنی وفا داری کے حلف کے ساتھ مشورہ دیا تھا کہ آئی ایس آئی کو ختم کیا جائے۔

امریکن سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ آف اسٹاف نے الزام لگایا کہ “اس بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایس آئی کے دہشت گردوں سے رابطے ہیں۔”پاکستان کے امریکہ میں تعینات سابق سفیر حسین حقانی کا میمو گیٹ اسکینڈل اور پاکستانی فوج کی اسٹریجی پالیسیوں کے مخالفت اور حالیہ دنوں مسلسل متنازعہ مضامین پاکستانی فوج کے کردار کے حوالے سے عالمی سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔اسلام آباد میں نئی سیکورٹی ٹیم اور پاکستان کی فوج کے خلاف مدد طلب کرنے کی خفیہ یادداشت میموگیٹ اسکینڈل بھی سول حکومت اور عسکری ادارے کے درمیان کشیدگی کا سبب بنا ۔ امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کے ترجمان نے پہلے اس کی تردید کی،تاہم بعد میں انہوں نے کہا کہ میمو موصول ہوا تھا لیکن قابلِ بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے نظرانداز کر دیا گیا تھا۔سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے میمو گیٹ اسکینڈل کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔لیکن قومی سلامتی کے معاملات پر سست روئی سے ایسے عناصر کو تقویت ملتی ہے جو پاکستان کے مستحکم اداروں کے خلاف منظم سازش کا حصہ بنتے ہیں۔پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے بھی آئی ایس آئی کے خلاف برطانیہ کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے کئی بار سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے حکومت برطانیہ کو اپنے حلف برادری کے خط اور مختلف تقاریرمیں آئی ایس آئی و فوج کے خلاف زہر فشانی کی تھی اور پھر بعد معافی بھی مانگی۔

آئی ایس آئی کے خلاف بھارت ، افغانستان کی بے بنیاد پروپیگنڈے تو ان ممالک کی حکومتی پالیسی کا حصہ بن چکے ہیں ۔ لیکن ان کے ساتھ امریکا اب کھل کر آئی ایس آئی کے خلاف الزام لگانے میں بھارت سے بڑھ کر مذموم کردار ادا کررہا ہے۔ آئی ایس آئی ، پاکستانی فوج کا ایک حساس اور معتبر ادارہ ہے۔جس پر ہر پاکستانی کو بلا شک و شبہ فخر ہے کیونکہ آئی ایس آئی ملک کی سلامتی کے لئے چاک و چوبند ہراول دستے کا کردار ادا کررہا ہے۔امریکہ۔ پاکستان تعلقات میں گو کہ پہلے جیسی گرم جوشی نہیں ہے کیونکہ پاکستان چالیس برسوں سے امریکی جنگ کے مضمرات کو جھیل جھیل کا تھک چکا ہے۔

Qadir Khan Afghan

Qadir Khan Afghan

تحریر : قادر خان افغان