طالب علم بنیں طالب عشق نہیں

Student Couple

Student Couple

تحریر : علی رضا
محمد اسامہ جس کی عمر پندرہ برس تھی، ساتویں کلاس کا طالب علم تھا۔اسامہ اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول کا رہائشی تھا۔محمد اسامہ اپنی استانی کی محبت میں مبتلا ہوا۔اور اس محبت کا انجام موت پر آ کر ختم ہوا۔اسامہ نے اپنی ٹیچر کو ایک خط بھی لکھا۔لیکن ناکامی پر خود کو گولی مار لی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم سکول میں پڑھنے نہیں بلکہ عشق و محبت کی داستانیں قائم کرنے جاتے ہیں۔یہ ہے ہمارا تعلیمی نظام ۔یہ ہے ہماری بربادی ،جو ہماری نئی نسل کو تباہ و برباد کررہی ہے۔میں نے جب یہ واقعہ سنا تو بہت افسوس ہوااور سوچا کہ ترقی ہم نے خاک کرنی ہے۔ابھی تو ہم عشق و محبت سے ہی نہیں نکل سکے۔ہمارے بچے عشق میں ناکامیوں پر خود کو موت کے گھاٹ اتارر ہے ہیں ۔میں سمجھتا ہو ں یہ ہمارے لیے انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے اور ہماری تعلیم و تربیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔دوسرے ممالک کے لوگ یہ واقعہ سنتے تو ہم پر ہنستے کہ یہ وہ قوم ہے جس کا ایک طالب علم ٹیچر کی محبت میں گرفتار ہو کر خودکشی کر بیٹھا ہے۔ آج ہم تعلیم کے میدان میں ا س لیے پیچھے ہیں اور زوال کا شکار ہیں کہ ہماری سوچ میں، ہمارے دماغ میں اورہمارے کاموں میں عشق رچ بس گیا ہے۔اگر کوئی کلاس روم میں بیٹھا ہے تو وہ اپنی ہیررانجھا کی کہانی سنا رہا ہوگا۔

اگر کوئی دوست کسی سے دیر بعد ملتا ہے وہ بھی ہیر رانجھا شروع کردے گا۔بچوں اور نوجوانوں کے دماغ میں عشق اس طرح بیٹھ چکا ہے کہ انہیں اس سے فرصت ہی نہیں مل رہی۔یہی چیز ہماری نوجوان نسل اور معاشرے کو تباہ و برباد کررہی ہے۔کوئی عشق کی ناکامی کی وجہ سے خود کشی کررہا ہے تو کوئی نشے میں مبتلا ہے۔ میں کہتا ہوں اس عشق نے ہماری قوم ہمارے نوجوانوں کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔جس قوم کے طالب علم جن کو ہم معمار کہتے ہیں جن کو قوم کا مستقبل کہہ رہے ہیں وہ محبتوں کے چکروں سے ابھی نکلی نہیں تو وہ خاک سائنسدان اور انجینئر ز پیدا کرے گی۔یہ عشق نہیں ہے یہ ہوس ہے ۔جو ہماری نوجوان نسل کو تباہ کررہی ہے۔جوہماری نسل تعلیم اداروں میں حاصل کررہی ہے۔اس کی دو بڑی وجوہات ہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں اس میں جتنا بچے کا قصور ہے اس سے زیادہ والدین کا قصور بھی شامل ہے۔بچوں کو اس طرح کی سہولیات دے رکھی ہیں جس کی وجہ سے ہر بچہ خود بخود ایسے کاموں کی طرف راغب ہوتا جارہا ہے۔میری والدین سے گزارش ہے خدارا بچے کو صرف تعلیم نہیں تربیت بھی دیں۔بچے کو صرف تعلیم دلوانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے تربیت کرنا بھی آپ کی ہی ذمہ داری ہے کوئی ٹرمپ تو آکر آپ کے بچے کی تربیت نہیں کرے گا۔

اچھے نمبر لینا مقصد نہیں ہوتا اچھا اخلاق اچھا کردار پیدا کرنا مقصد ہوتا ہے۔آپ اس طرح تعلیم دلوا کر اچھے نمبر تو دلوا سکتے ہیں لیکن اگر اس میں اچھی تربیت نہیں ہے تو وہ تعلیم بے کار ہے۔ اتنا اچھا اور مہنگا موبائل میرے پاس بھی نہیں ہے جتنا مہنگا موبائل فون میں نے ایک بچے ہاتھ میں دیکھا۔ہر طرح کی انہیں آسائش دے رکھی ہے لیکن خدارا تھوڑاسا وقت نکال کر تربیت بھی اس کو دے دیں۔اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔ یابچے پیدا ہی نہ کریں یا ان کو اچھی تربیت فراہم کریں۔ والدین اگر دوسروں کی خامیوں نکالنے سے زیادہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت پر توجہ دیں تو یہ معاشرے کے ساتھ والدین اور بچوں کے لیے بھی بہتر ہوگا۔

Education

Education

اس کی دوسری وجہ مخلوط نظام تعلیم کا بھی ہے۔یہ مخلو ط نظام تعلیم پہلے یونیورسٹیوں سے ہوتا ہوا آج سکولز تک پہنچ چکا ہے۔بچے تو بچے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ ٹیچرز کے ٹیچرز کے ساتھ افئیر چل رہے ہیں۔مخلوط نظام کی وجہ سے ٹیچرز کے ٹیچرز کے ساتھ افیئرز ہیں ۔جو بچہ کسی ادارے میں سیکھنے جاتا ہے لیکن اگر وہاں ٹیچرز کے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے معاملات چل رہے ہیں تو آپ کا سٹوڈنٹ بھی یہی سیکھے گا۔میں نے بھی سکول و کالج میں وقت گزارا۔یقین مانے کہ ہر بچے کا ہر سٹوڈنٹ کسی کے ساتھ چکر چل رہا ہے اس کے دماغ میں یہی پیار و محبت کا بھوت سوار ہے۔اس نظام کو ختم کرنا ہوگا یا اس کا حل یہ ہے کہ بچے کی شادی 14یا15سال کی عمر میں ہی کردی جائے تاکہ کلاس رو م میں بیٹھے اس کی توجہ مکمل لیکچر ہو۔عشق و محبت کی دنیا سے نکل آئے۔

یقین مانے ہمارے سکولز میں ایک نرسری کی تعلیم حاصل کرنے والا بچہ بھی عشق کے نام سے واقف ہوگااور عشق کے متعلق آپ کو مکمل تفصیلات بتائے گا۔ ہمارا تعلیم نظام خود ہمیں گمراہی کی طرف لے جارہا ہے فحاشی اور عریانی کو پھیلا رہا ہے لیکن ہم خواب سوچ رہے ہیں امریکہ یورپ سے آگے نکلنے کے۔عشق و محبت کی دنیا سے باہر نکلیں گے تو ہی آپ امریکہ اور یورپ کے ساتھ مقابلہ کرسکتے ہیں۔نئی نسل کو میں ہر گز پڑھی لکھی نہیں کہوں گا کیوں کہ یہ پڑھی لکھی جاہل قوم ہے۔جو برے رسم و رواج کی تقلید کررہی ہے اور ڈگریاں نمبرز لینے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔

اگر ہم نے اس پر ابھی سے قابو نہ پایا تو آج کئی اسامہ خودکشیاں کریں گے۔سکول و کالج میں پھر تعلیم گاہ نہیں عشق گاہ بن جائے گی۔جہاں عشق کی ناکامی پر روز خودکشیاں ہوں گی۔تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم پھر طالب عشق بن جائیں گے۔اگرکوئی رشتہ بھی ڈھونڈنا ہوتو آپ کالج و یونیورسٹیوں کا رخ کریں گے۔ادارے اشتہار دیں گے کہ اچھی تعلیم کے ساتھ اچھے رشتے بھی ڈھونڈیے۔خدارا!!عشق و محبت کے جال سے نکلیں ۔طالب علم بنیں طالب عشق نہیں۔

Ali Raza

Ali Raza

تحریر : علی رضا