طلباء یونینوں کے انتخابات کیوں ضروری!

Pakistan Students Union Election

Pakistan Students Union Election

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
1984ء میں مارشل لاء دور کے دوران ہی طلباء یو نین انتخابات پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ کہیں طلباء متحد ہو کر فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کو ہی نہ اتار پھینکیںاس کے بعد سے ہر آنے والے حکمران نے اپنی اقتداری کرسی اور سیاسی گھوم چکری کو طلباء کی تحریکوں کے تھپیڑوں سے بچائے رکھا اس طرح33سال سے مسلسل صرف طلباء ہی سکولوں کالجوں میں لاوارثوں کی طرح وقت کاٹ رہے ہیں اور ہر حکمران کو من مانیوں کا خصوصی پر مٹ ملاہوا ہے دیگر تمام طبقات مزدور کسان دوکاندار وپسماندہ طبقات کے افرادووٹ کی طاقت سے اپنے مسائل و مطالبات کے حل کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔مفاد پرستوں نے تعلیمی نظام تباہ و بر باد کر ڈالا ہے طلباء انجمنوں کے انتخابات نہ کرائے جانے پر وہ پڑھا لکھا طبقہ جو قومی سیاست میں فعال کردار ادا کرتا تھا اوراس طرح ملکی سیاست کی رگوں میں تازہ خون شامل ہو تا رہتا تھا وہ بالکل ختم ہو کر رہ گیا اور سیاست صرف پیسہ بنانے پھر اسے بیرون ملک ڈمپ کر ڈالنے کا نام رہ گئی تمام پارٹی کے کلیدی عہدوںاور اسمبلیوں پر جاگیردار ،وڈیرے ،تمندار ،سود خور نودولتیے اور صنعتکار قابض ہو گئے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کو صنعت بنا ڈالا فیسیں اتنی زیادہ کہ عام غریب یا درمیانے طبقے کا فرد اپنے بچوں کو اعلیٰ اداروں سے تعلیم دلو ا ہی نہیں سکتا۔

اسی لیے چائلڈ لیبر کی بہتات ہو چکی جسے کسی ضابطے قانون اور سزائوں کے ذریعے بھی ختم نہیں کیا جا سکتا ایم اے پاس بھی کلر کی ڈھونڈتے پھرتے ہیںاور چپڑاسی تک کی نوکری کے لیے ان کی در خواستیں تو معمول کا حصہ ہیں اس لیے کہ طلباء یا پڑھے لکھوں کا کوئی پرسان حال تک نہ ہے۔طلباء کا کردار اس ملک میں مثالی رہا ہے ایوبی آمریت کے خلاف جدو جہد کرنے والے طلباء راہنما ہی بعد ازاں نو زائیدہ سیاسی جماعتوں پی پی پی وغیرہ کی قیادت بنے۔1972 میں مکتی باہنی اور راء کے مشرقی پاکستان میں داخل ہو جانے کے بعد طلباء کے گروپس اسلامی چھاترو شنگھو،البدر و الشمس نے مغربی پاکستان سے بھیجی گئی افواج کے ساتھ مل کر پاک وطن کو بچانے کی بھرپور کو ششیں کیں۔ملک ٹوٹنے کے بعد راقم نے بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک کو جاوید ہاشمی کی گرفتاری کے بعدبطور چیئر مین سٹوڈنٹس کونسل لیڈ کیا ۔1973کی تحریک سول نافرمانی ہو یا1974کی تحریک تحفظ ختم نبوت طلباء کا کردار انتہائی روشن و موثر رہا تحفظ ختم نبوت کی1974کی تحریک کو تو شروع ہی نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء نے قادیانیوں کے مرکز چناب نگر (سابقہ ربوہ) کے ریلوے اسٹیشن پر ان پر قاتلانہ حملوں کے بعد کیا۔ راقم اور آئی جے ٹی کے دیگرنشترسٹوڈنٹس یونین کے منتخب عہدیداروں کی پریس کانفرنس کے اگلے روز ملک بھر کے اخبارات کی لیڈ بن جانااس کا اصل سبب بنا۔

1977کی نظام مصطفی تحریک میں بھی طلباء راہنما چھائے رہے ۔اگر آج بھی طلباء کی منتخب یو نینز موجود ہوتیں تو کسی سرمایہ دار کو طلباء سے اتنی زیادہ فیسیں وصول کرنے کی جرأت ہی نہ ہوتی طلباء ویلفیر و دیگر یونین فنڈزکے نام پر جو سرکاری و نیم سر کاری اداروں میں کروڑوں اربوں روپے وصول کیے جاتے ہیں وہ سبھی انتظامیہ کی ملی بھگت سے یا تو نام نہاد سیاستدانوں کی طرح مکمل ہڑپ کر لیے جاتے ہیں یا پھر کسی ناچ گانے،محفل مو سیقی و دیگر غیر ضروری سر گرمیوں پر خرچ ہو تے ہیں جن کی طلباء کی ذہنی نشوونما میں قطعاًضرورت نہ ہے طلباء قیادت تو ملکی سوچ کی غماز ہوتی تھی اور طلباء کے پڑھے لکھے طبقے کی رائے کو ملکی مسائل کے حل کے لیے ترجیح دی جاتی تھی اب تو حالت بہ ا یں جا رسید کہ امتحانات میں پیسے دے کر پیشہ وارانہ کالجوں سے بھی طلباء کامیاب ہو سکتے ہیںاسی لیے نااہل انجیئنیرز و ڈاکٹرزکی بہتات ہو چلی ۔وزیر اعظم گیلانی نے حلف اٹھاتے ہوئے ججوں کی بحالی اور طلباء انتخابات پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

PPP

PPP

مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا ۔1988میں محترمہ نے حلف اٹھاتے ہی طلباء یو نینوں کی بحالی کا اعلان کیا صوبہ پنجاب کے علاوہ اس پر عمل نہ ہو سکا کہ دیگر صوبوں کی پی پی حکومتوں نے اس کودر خور اعتناء ہی نہ سمجھا زرداری دورمیں اس سلسلہ میںوٍزراء پر مشتمل کمیٹی بنی مگر وزراء نے دلچسپی تک ہی نہ لی ۔گذشتہ سال سنیٹر روبینہ خالد اور حاصل بزنجو نے سینٹ میں ملک کے تعلیمی اداروں کی یونینز کی بحالی کے لیے تقریر پر سینیٹر رضا ربانی نے پورے ہائوس کی کمیٹی بنادی ۔ جس کی رپورٹ کب آئیگی خدا ہی بہتر جانتے ہیں طلباء کی منتخب انجمنوں کی بحالی اشد ضروری مگرغیر طلباء عناصر کا داخلہ سکولوں کالجوں میں بند کیا جائے طلباء دوران تعلیم اداروں کے اندر کسی قسم کا ہتھیار یاا تشیں اسلحہ رکھنے کے مجاز نہ ہوں انتخابات بائیو میٹرک طرز پر منعقد ہوں پو لنگ کے دن اور نتائج کے اعلان تک پولیس اور سیکورٹی ادارے اس کی نگرانی کریںادارے کے تمام اساتذہ و دیگر ملازمین انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

طلباء کے منتخب راہنما اساتذہ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں مطالبات منوانے کے لیے پر امن ذرائع اختیار کرنے کی پابندی ہو تاہم ضرورت پڑنے پر ملکی سا لمیت کے تحفظ اور اندرونی خلفشار کے خاتمہ کے لیے طلباء اپنی موثر آواز بلند کر سکتے ہیں سیاسی سوچوں پر پابندی لگائی نہیں جا سکتی۔کہ میڈیا ،انٹرنیٹ ،ٹویٹر ،فیس بک کا دور ہے طلباء کو ملک دشمن اور بیرونی سامراجی قوتوں کاآلۂ کار بننے سے روکنا ماں باپ اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے اگر طلباء یونینز نہ ہوں اورغیر نصابی سر گرمیوں پر پابندی ہو گی تو پھر طلباء اپنی ٹیچر کے عشق میں گرفتار ہو کر خود کشیاں کرتے رہیں گے فار غ دماغوں میں ہیر رانجھا کی ہی کہانیاں گشت کرتی رہتی ہیں۔

سندھ کی طرح دوران تعلیم نماذکی پابندی کا دوسرے صوبوں میں نفاذ بہتر نتائج دیگا انتخابات میں امیدواروں کے تعلیمی معیار ،علمی قابلیت ،اس کا صوم و صلوٰة کا پابند ہو نا ایک پلس پوائنٹ ہو سکتا ہے تاکہ کالجوں یو نیورسٹیوں سے بے دین اور خدا کے باغیوں کا راستہ ہمیشہ کے لیے رک جائے ۔اگر منتخب طلباء یونینز ہوتیں تو رشوت خور اور کرپٹ سیاسی لٹیرے یوں نہ دندناتے پھرتے ہوتے ۔فرقہ واریت لسانیت اور دہشت گردی کے بت بھی دفن ہو چکے ہوتے۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری