انداز بیاں اور

Pakistan Political Parties

Pakistan Political Parties

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
پچھلے دو ماہ سے میں نے کوئی کالم نہیں لکھا صرف اور صرف بستر پر لیٹے رہنا ہی میرا مقدر بنا رہا ، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میرا ایک روڈ ایکسیڈینٹ میں پائوں کا فریکچر ہو گیا تھا اور اب بھی میں بستر پر ہی دراز ہوں۔روزآنہ ہی سوچتا تھا کہ کاش! میں اس قابل ہو جائوں کہ کم از کم مضامین ہی تحریر کر سکوں ، اب اللہ رب العزت کی مہربانی سے اس قابل ہوا ہوں کہ بیٹھ کر کچھ کام کر سکوں، یوں بلدیاتی الیکشن کے نتائج کے بعد میں نے اپنا قلم اُٹھایا اور یہ کالم لکھنے کو ترجیح دی تاکہ میں بھی اپنے لکھاری بھائیوں کی صَف میں دوبارہ شامل ہو سکوں۔

پاکستان ہم سب کا وطن ہے، اور کراچی منی پاکستان ہے ، اور پاکستان کا دل بھی، کیونکہ یہاں ہر زبان و مسلک کے لوگ رہتے ہیں۔ صدیوں سے یہاں کے عوام بھائی چارے اور اتحاد کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور آج بھی رہنا چاہتے ہیں لیکن پریشانی صرف یہ ہے کہ کراچی میں عوام کا اتحاد یہاں کی سیاسی پارٹیوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ حالانکہ شہرِ قائد کے عوام سیاسی طور پر پختہ ہو چکے ہیں پھر بھی اکثر چالاک سیاست کے مکین لوگوں کو اپنے بہکاوے میں کرنے کے دَر پہ رہتے ہیں۔ مختلف نظریات کی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں اس ملک کے عوام کو بہکا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی جستجو میں محو رہتی ہیں اور عوام ہر الیکشن میں صرف ووٹ دے کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی والوں نے متحدہ کو کامیابی دلا کر اپنے اتحاد کا جو مظاہرہ کیا ہے ، سیاسی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔اب بھی ارباب اگر کچھ نہیں سمجھے تو ان کے لئے میں صرف یہ شعر ہی لکھ سکتا ہوں۔

نہ تیرا ہے نہ میرا ہے یہ پاکستان سب کا ہے
نہیں سمجھی گئی یہ بات تو نقصان سب کا ہے

Pakistan

Pakistan

یہ تو حقیقت ہے کہ پاکستان ہم سب کا وطن ہے اور اسے ہم سب کا وطن ہی رہنے دیا جائے ، اس کو تیرا میرا میں بانٹنے کے بجائے صرف ہمارا بنا کر رکھا جائے۔ یہ بات گندی، چالاک اور عیار ذہنیت والے لوگوں کی سمجھ میں جتنی جلدی آ جائے اتنا ہی اس ملک کے لئے اور یہاں کے باسیوں کے لئے بہتر ہے۔ جہاں تک نئے صوبوں کی بات ہے تو انتظامی سطح پر ملک بھر میں نئے بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پڑوسی ملک کو ہی لے لیں کیا وہاں نئے صوبے نہیں بنے۔ بنے اور وہاں خوشحالی بھی آ رہی ہے۔ تو پھر ہم پڑھے لکھے با شعور ہونے کے باوجود اس طرف توجہ کیوں نہیں دے رہے اور آج تک تیرا، میرا کے چکر میں اُلجھے ہوئے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی تہذیب کو بھلا نے والے ناواقف لوگ بے جڑ کے پودے کی طرح ہو گئے ہیںجو اپنی سوچ کو بدلنے کے بجائے پست ذہنیت کی طرف ہی رواں دواں ہیں۔

پڑوسی ملک ڈیم پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے مگر ہم لوگ ڈیم کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں،اس پر سیاست کرتے ہیں، اور یوں ہم آج تک کوئی نیا ڈیم بنانے کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی ان ہی باتوں کو اپنانا چاہیئے کہ جن کی باتوں میں ترقی کا راز پنہاں ہے۔اس ملک کے لوگ رشتوں کے اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں اِ ن کو جُدا کرنے کی جستجو کرنے والے خود ہی دَر بَدر ہو جائیں گے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

کہاں کہاں سے الگ کر سکو گے کہ تم مجھ کو
ہزار رشتوں میں تم سے بندھا ہوا ہوں میں

برداشت اور رواداری اس عظیم وطنِ عزیز پاکستان کی تاریخ اور شاندار ماضی و بے مثال اس کے باشندے ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی پر قدرے کنٹرول کر لیا گیا ہے جس کا سہرا ہمارے پاک افواج کو جاتا ہے جن کی وجہ سے امن و امان قائم ہوا۔ مگر اب بھی چند شر پسند ملک میں ایسے ہیں جو اپنا نظرِ بَد اس ملک پر ڈالنے کو ہی فخر سمجھتے ہیں۔ایسے افراد یا گروہ پر کمند ڈالنے کی ضرورت ہے۔

Freedom

Freedom

ہمارے ملک کو آزاد ہوئے ٦٨ سال ہو گئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں، محسوس یہ ہوتا ہے کہ آج بھی ہم انگریزوں کے پھیلائے ہوئے سازشی جال پھندوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ہم فرقہ واریت، ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور آپسی دشمنی کا شکار ہیں۔ اس ملک کو آزاد کرانے میں بے شمار لوگوں نے جانیں گنوائیں، اور ہر طرح کی قربانیاں دیں، لیکن وہ لوگ ایسے تھے کہ ان کو وطن سے سچی محبت تھی ، آج وہ محبت یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کم ہو گئی ہے۔ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے اس پیارے ملک کی آزادی کے لئے اپنے خون سے داستان لکھیں۔

بے شمار قربانیاں اور انتھک محنت کے بعد وطنِ عزیز حاصل کیا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ٦٨ویں آزادی کے بعد ہم سب آپس میں پیار و محبت سے رہیں، اس ملک سے غریبی اور جہالت کو ختم کرنے کا عہد کریں اور خاص طور سے نوجوان نسل آگے آئیں اور ماضی کی کڑواہٹ کو مٹا کر آگے بڑھیں، اس راہ میں ہمیں بہکانے کے لئے بہت سے لوگ آئیں گے لیکن ہمارا مقصد صرف اس زمین پر سلامتی و سکون اور امن کا جھنڈا لہرانا ہوگا تاکہ انسانیت کے غم دور ہو سکیں۔

Jawed Siddiqi

Jawed Siddiqi

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی