سلطان محمود غزنوی لٹیرا یا ”مجاہد غزوہ ہند”

Sultan Mahmud Ghazni

Sultan Mahmud Ghazni

محمد قاسم حمدان
روزنامہ جنگ 14 فروری 2015ء میں ایک صاحب نے ”ایک تھا گانمن سچار” کے عنوان سے کالم لکھاہے اس میں غازی ہند فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی کی کردار کشی میں اپنے قلم کو خوب رگیدا۔ اسی کالم کی من عن عبارت کچھ اس طرح سے ہے پھر دنیا نے دیکھا کہ مسخرے اور خوشامدی بادشاہ الپتگین کے غلام سبکتگین کا بیٹا دنیا کا طاقتور رتین سلطان بنا اور اسے تاریخ میں یمین الدولہ (مملکت کے لیے بابرکت ، یہ خطاب سلطان محمود کو عباسی خلیفہ کی طرف سے ملا تھا ) ابو القاسم محمود بن سبکتگین کے نام سے یاد کیاجاتا ہے یہ وی محمود غزنوی ہے جس نے ہندوستان پر 17 حملے کیے موجودہ پنجاب اور سندھ سمیت محمود زابلی نے سومنا کے مندر پر بھی یلغار کی اور وہاں سے سونا لوٹا۔ آگے چل کر موصوف لکھتے ہی محمود غزنوی اور گائمن سچار کی بایں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ ہماری سیاست میں مومود غزنویوں کا غلبہ ہے جو پاکستان کے سومنات کو لوٹ کر ساری دولت آج کی جدید غزنی کی ریاستوں امریکہ ، برطانیہ، کینڈا، متحد عرب امارات وغیرہ منتقل کر رہے ہیں ۔

اسے ہم اپنی کم نصیبی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے کالم نگار اپنی تاریخ سے بے خبر عالم جہالت میں محض ہندئووں کے جھوٹے پراپیگنڈے سے متاثر ایسی گھٹیا سوچ اپنا چکے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ آج کا پاکستان غزنوی کے غزوہ ہند کا صلہ ہے کیا ہی اچھا ہو کہ روزنامہ جنگ سے کسی صاحب کی غیرت جاگتی اور نہیں تو کم از کم محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خا ںجو غزنوی و غوری کو اپنا آئیڈل سمجھتے ہیں اس جھوٹے پرراپیگنڈے کے تاروبود بکھیرتے ۔ کالم نگاری ایک مشن ہے جو حقائق و سنجیدگی کا متقاضی ہے گر جب کوئی خاندانی مسخرہ قلم تھام لے تو گویا بندر کے ہاتھ میں استرے والی بات ہو جاتی ہے سلطان محمود غزنوی کے والد سلطان سبکتگین کے بارے تاریخ اسلام کے مصنف اکبر نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ انہیں ڈاکوئوں نے بچپن میں اُٹھایا اور پھر بخارا لاکر فروخت کر دیا ۔ گرش ایام سے ان کی سلطان الپتگین کے دربار تک رسائی ہوگئی وہ سلطان کی فوج کے سپہ سالار او پھر داماد بن گئے ۔ کیا کسی فوج میں آرمی چیف آف سٹاف کا عہدہ مسخروں کے لیے ہوتا ہے ۔ہندوستان پر غزنویوںکے حملوں کی اصل وجہ تو ہندوستان کا راجہ جے پال خود تا اس کی سلطنت غزنویہ سے ملنی تھیں جب 976ء میں سبکتگین سلطان بنے تو جے پال نے غزنی پر حملہ کر دیا ۔ لمغان اور غزنی کے درمیان زور کا رن پڑا جے پال کو عبرت ناک شکست ہوئی ۔ صلح نامہ میں طے ہوا کہ جے پال ہاتھی ، گھوڑے اور نقد مال و زر دے گا اس کام کے لیے سلطان کے لوگ ساتھ ہوئے مگر جے پال نے بد عہدی کی اور سلطان کے لوگوں کو قیدی بنا لیا۔ اس بدعہدی کی سزاء کے لیے سلطان کی فوجوں نے چڑھائی کی جس پر جے پال نے معافی مانگی تو اسے چھوڑ دیا گیا محمود غزنوی کو بار بار ہندو راجوں کی بد عہدیوں کی سزاء دینے کے لیے ہندوستان پر حملہ کرنا پڑا ۔ سلطان محمود غزنوی نے ہندستان کو فتح کر کے یہاں اسلام کا علم لہریا اس نے مساجد تعمیر کرائیں ۔ اس کے دور میں علماء و اولیا اللہ نے تبلیغ سے ہندوستان کو نور اسلام سے بھر دیا ۔ اسی بات کی طرف اشارہ کر کے قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی روز بنا گیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔

یہی سب زخم تھے جن کی تکلیف آج تک ہندوئوں کو ہوتی ہے اور جب تک پاکستان رہے گا یہ تکلیف ہوتی رہے گی ۔ سلطان محمود غزنوی اگر ہندوستان نہ آتے تو کبھی یہاں توحید کے ترانے نہ ہوتے۔ اسی لیے ہندوئوں کے اندر چھپا بغض و حسد اور شرک و بت پرستی کا گند سلطان کے خلاف پراپیگنڈے کی صورت میں باہر آتا رہا ہے۔ ہندو ناشرین مسلمانوں کی دل آزاری کی غرض س ایسی کتابیں شائع کیا کرتے تھے جن میں مسلمان حکمرانوں کو نہایت مکروہ شکل میں پیش کیا جاتا تھا ۔ جب انگریزوں کے ساتھ ہند وستان میں ہندو اقتدار میں شریک ہوئے تو انہوں نے برعظیم کے تمام سرکاری سکولوں میں اریخ ہند ے نام سے ایک کتاب پرھانا شروع کی جس میں مسلمان حکمرانوں او اسلامی عہد کی تاریخ سے سخت ناانصافی سے کام لیا گیا ۔ اس کتاب میں درج ہے کہ محمد بن قاسم نے حرص و طمع کے سبب ہندوستان پر حملہ کیا، سلطان محمودغزنوی غاصب ظالم لالچی او بے انصاف بادشاہ تھا ، اورنگزیب عالمگیر تمام برائیوں کا مجسمہ تھا وہ ہندوئوں کے مندروں اور مقدس مقامات اور ان کے رسوم و رواجکا سخت دشمن تھا (ہفت روزہ نوائے وقت 1928ء ) 1924ء میں ہندی زبان کے فروغ کے لیے مہاتما گاندھی کی صدارت بھارت ہندی پرچار سبھا قائم کی گئی تھی ۔ اسی سبھا کے تحت سال میں دو مرتبہ ہندی کے امتحانات ہوئے تھے ۔ 1940ء میں اوسط درجے کے امتحان کے لیے ایک تاریخی کتاب سچی کہانیاں نصاب میں داخل کی گئیں۔

History

History

نوائے وقت کا کہنا ہے کہ کوئی ناپاک جھوٹ ایسا نہیں جو اس کتاب میں نہ بولا گیا ہو (پندرہ روزہ نوائے وقت 1940ئ) مشہور ہندو ناشر عطر چند کپور نے ہائی روڈر آف انڈین ہسٹری ( High Roads of Indian History) کے نام سے چھٹی جماعت کے طلباء کے لیے ایک کتاب شائع کی جس میں سلطان محمود غزنوی کی شخصیت کو مسخ کیا گیا تھا (روزنامہ زمیندار، اداریہ 7 جون 1928ء ) اسی اداریہ میں لکھا ہے کہ ایک آریہ سماجی اخبار نے سلطان محمود غزنونی کو طوائف کا بیٹا لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو سخت مجروع کیا ہے ۔ سلطان محمود کے اعلیٰ کردار کا اعتراف بہت سے ہندو دانشور کرنے پر مجبور ہوئے ۔چنانچہ پروفیسر سینتی کمار چیٹر جی نے لکھا محمود غزنوی کا پانے سکوں پر سنسکرت لکھوانا اس کی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت ہے اس کی اعلیٰ دماغی اور فراخ دلی کی دلیل ہے ۔ (البیرونی ہاد گار جلد ایران سوسائٹی کلکتہ 98) ْ اس کی فوج میں ہندو سردار اور لشکری بھی تھے (تاریخ لمیس بحوالہ الیٹ ،جلد دوم ص32) ۔ محمود کے بارے میں یہ کہیں نہیں آتا کہ اُس نے ہندو کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ پالٹیکس ان پری موغل ٹائمس از ڈاکٹر ایشور ٹوپاص 45-46)۔ سی وی دیدیہ نے اپنی کتاب ہسٹری آف مڈویول ہندو انڈیا ج 3 میں لکھا ہے کہ ایک انسان کی حیثیت سے وہ ایک سخت ضبط و نظم او اعلیٰ کردار کا حامل انسان تھا اس ے حملوں میں کون ریزی ہوئی قیدی غلام بنائے گئے لیکن عورتوں کی عصمت ریزی یا ان کے قتل و خون کی کوئی مثال نہیں ملتی وہ عدل پسند تھا۔الہ آباد یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ایشوری پرشاد اپنی کتاب مڈیول انڈیا میں لکھتے ہیں مسلمانوں کی نظر میں محمود غازی اور اسلام کا علمبردار تھا ۔ ہندوئوں کی نظر میں آج بھی سنگدل اور ظالم لیٹرا ہے جس نے ان کی مقدس عبادت گاہوں کو ملیامیٹ کر کے ان کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچایا لیکن یاک غیر متعصب محقق اور مورخ اس کا زمانہ کی صور حال کو پیش نظر رکھ کر کچھ اور ہی فیصلہ دینے پر مجبور ہوگا بلا شک و شبہ وہ دنیا کے بہترین اور عظیم ترین حکمرانوں میں شامل کئے جانے کے لائق ہے۔

(ہندوستان کے عہد و سطیٰ کی ایک جھلک ص30- ) سلطان محمود غزنوی تو حضرت ابو ہریرہ کی اس حدیث کے مصداق لڑتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ نبی رحمت ۖ نے فرمایا میری اُمت کی ایک جماعت غزوہ ہند کرے گی ۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ اگر میں اس غزوہ ہند میں شہدی ہو گیا تو میں عام نہیں اعلیٰ درجے کا شہید ہوں گا اور اگر غازی بن گیا تو دنیا میں جہنم کی آگ سے آزاد چلتا پھرتا ابو ہریرہ ہوں گا ۔ یہ ہے غزوہ ہند کی شان و اہمیت اللہ ذوالجلال و الاکرام نے یہ سعادت و خوش نصیبی سلطان محمود غزنوی کو عطاء کی وہ پتھر کے خدائوں پر ابراہیم کی طرح ہتھوڑے برساتا اور ایک خدا کی واحدانیت کا علم لہرا گیا ۔ سومنات میں جب سارے راجہ مہارجے شکست فاش کھا چکا تھا اور اس کے سامنے عرض داشت تھلے کہ تم سارے ہندوستان کے خزانے لے لو مگر ہمارے بت کو نہ توڑوتو سلطان نے تاریخی کلمے کہے کہ محمود تاریخ کے صفحات میں بت فروش نہیں بت شکن کے نام سے پہچان چاہتا ہے۔
باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

Muslims

Muslims

تمام انصاف پسند احباب سے گذارش ہے کہ وہ انصاف کریں کیا ڈاکو ایسے ہوتے ہیں کہ اس ہندوستان کے خزنیوں دفینوں کی آفر ہو رہی ہو اور محمود رسول کے نقش قدم پر رب کی دھرتی کو بتوں سے پاک کر رہا ہے۔ جہالت کی اوج و ثریا ہر ممکن موصوف کالم نگار نے یہ بھی سوچا کہ مسلمانوں کو قرآن نے جب جہاد کا حکم دیا اور انہوں نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر رب کی غلامی میںدینے کے لیے جہاد کیا تو پھر قیصر و کسریٰ کے تاج و تخت روندے گئے ۔ مسلمانوں کو ایسے ہی مال و دولت غنیمت اور جزیے کی صور ت ملا یہ محمود غزنوی کو ملا تو نعوذباللہ موصوف کے فلسفے کے مطابق تو وہ صحابہ کرام بھی ڈاکو ٹھہرتے ہیں۔ آج ہمیں جن ڈاکوئوں اور لیٹروں سے سامنا ہے اور یہاں کی دولت کولوٹ کر اپنے انگریز آقائوں کے ملکوں میں محفوظ بناتے ہیں یہ اسل مسخرے اور خوشامدی ہیں جنھوں نے انگریز کی خوشامد کی ان کے کتوں کو نہلاکر سرداریاں ، نوابیاں ، جاگیریں حاص کیں یہ لوگ کیسے سلطان محمود غزنوی کے قبیلہ سے ہوگئے بلکہ ان سے نجات کے لیے توا ب پھر سے ایک باربت شکن سلطان محمود غزنوی کی اشد ضرورت ہے۔

محمد قاسم حمدان
qasimhamdan@gmail.com