سلطان شمس الدین التمش

Hazrat Sultan Shamsuddin Altamash

Hazrat Sultan Shamsuddin Altamash

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
بزرگ ولی اللہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔ جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نمازِجنازہ تیار ہوا،بہت بڑے میدان میں لایا گیا۔کیونکہ مخلوقِ خدا کا بے پناہ رش تھا۔بے پناہ لوگ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آئے ہوئے تھے. انسانوں کا ایک سمندر تھا ۔ انسانی نگاہ جہاںتک پڑتی انسان ہی انسان نظر آتے تھے. جب نمازجنازہ پڑھنے کا وقت آیا، ایک آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کا وکیل ہوں. حضرت نے ایک وصیت کی تھی. میں اس مجمعے تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں. تمام لوگوں پر سناٹا چھا گیا. حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے وکیل نے پکار کر کہا. حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں.زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو.اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو.س نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو.

اتنا عبادت گزار ہو کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں.جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے. جب یہ بات سنائی گئی تو مجمعے پر ایسا سناٹا چھایا کہ جیسے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا ہو. کافی دیر گزر گئی، کوئی نہ آگے بڑھا. آخر کار ایک شخص روتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آئے. جنازہ سے چادر اٹھائی اور کہا. حضرت! آپ خود تو فوت ہوگئے مگر میرا راز فاش کردیا.اس کے بعد بھرے مجمعے کے سامنے قسم اٹھائی کہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں. یہ شخص وقت کے بادشاہ شمس الدین التمش تھے۔شمس الدین التتمش سلطنت دہلی کاتیسرا حکمران اور خاندان غلاماں کا تیسرا بادشاہ۔ قطب الدین ایبک کا غلام تھا۔ ۔شمس الدین التتمش کوہونہار دیکھ کر بادشاہ نے اپنا داماد بنا لیا۔ 1211ء میں قطب الدین ایبک کے نااہل بیٹے آرام شاہ کو تخت سے اتار کر خود حکمران بن گیا۔ اس وقت وہ بہار کا صوبیدار تھا۔ تخت نشین ہوتے ہی اُسے ان صوبیداروں کی سرکوبی کرنی پڑی جو خود مختار بن بیٹھے تھے۔ پنجاب اور غزنی میں تاج الدین، سندھ میں ناصر الدین قباچہ اور بنگال میں خلجیوں نے سر اٹھایا۔ اس نے سب کو مطیع کیا۔ 1226ء سے 1234ء تک کے درمیانی مدت میں راجپوتوں سے جنگ کرکے رنتھمبور، منڈو، گوالیار، اور اُجین فتح کیے 1221ء میں منگول سردار چنگیز خان خوارزم شاہی سلطنت کے بادشاہ جلال الدین خوارزم کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سندھ تک آ پہنچا، لیکن دریا سے پہلے تمام علاقے کو تباہ برباد کرکے واپس چلا گیا اور ہندوستان اس خوف ناک آفت سے بچ گیا۔ التتمش نے قطب مینار اور قوت اسلام مسجد کو، جنہیں قطب الدین ایبک ناتمام چھوڑ کر مرگیا تھا، مکمل کرایا۔ التتمش نے رضیہ سلطانہ کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔

آپ کو بخو بی علم ہوگا کہ انارکلی بازار لاہور سے ایک سڑک جو میوہسپتال کی طرف جاتی ہے اسے ایبک روڈ کہتے ہیں۔ اس چھوٹی سی سڑک پر ایک بہت بڑا اور ہندوستان کا پہلا باقاعدہ مسلمان بادشاہ قطب الدین ایبک آسودہ خاک ہے۔

قطب الدین ایبک ایک ترک غلام تھا۔ نیشا پور کے قاضی فخر الدین نے اسے ترکستان کے ایک تاجر سے خریدا اور غزنی لے گئے۔ سلطان شہاب الدین غوری کی جہاں دیدہ نگاہوں نے قطب الدین ایبک کی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور ایبک کو خرید کر اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ قطب الدین ایبک نے چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا اور عربی و فارسی علوم پر دسترس حاصل کر لی۔ اس کے علاوہ اس نے حربی کمالات پر عبور حاصل کر لیا۔ رفتہ رفتہ اس کی صلاحیتوں اور کمال فن کا ڈنکا بجنے لگا۔ وہ ہر معرکے میں سلطان شہاب الدین غوری کے ہمراہ ہوتا اور اپنی بہادری’ شجاعت اور ذہانت کے جوہر دکھاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صلاحیتوں پر بادشاہ کا اعتماد بڑھتا گیا اور وہ اس کی ذمہ داریوں اور مراتب میں اضافہ کرتا گیا۔ قطب الدین ایبک ہر موقع پر بادشاہ کے اعتماد پر پورا اترتا رہا۔ لہٰذا سلطان شہاب الدین غوری نے اسے ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کر دیا اور اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی بھی اس سے کر دی۔

شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد اس کا بھتیجا تخت نشین ہوا تو اس نے قطب الدین ایبک کو ہندوستان کی حکومت سونپ دی۔ قطب الدین ایبک کی شجاعت اور سخاوت کی داستانیں ہر طرف پھیل چکی تھیں۔ عوام اس سے محبت کرتے تھے۔ لاہور شہر کے باسیوں نے اس کی آمد کی خبر سنی تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ 25 جون 1206ئکو جب وہ لاہور آیا تو اگلے دن اس کی تاج پوشی کا جشن منایا گیا۔ اس کے عوامی و سماجی بہبود کے کاموں کی وجہ سے عوام میں اس کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ وہ اپنی رعایا پر اتنا مہربان تھا کہ پیار اور عقیدت سے لوگ اسے ”لکھ بخش” اور ”لکھ داتا” کہتے تھے۔ وہ سخاوت کرنے کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق نہیں کرتا تھا۔ اس کی سخاوت کی بارش تمام رعایا پر بلاتفریق ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ اس کے دربار میں بہت سا مال و اسباب لایا گیا تو ا س نے فوراً وہ سب عوام میں تقسیم کر دیا۔

آج جس جگہ قطب الدین ایبک کا مقبرہ ہے یہاں اس کا وسیع محل ہوا کرتا تھا۔ تب سے اس علاقہ کا نام محلہ قطب غوری مشہور ہے۔ محل اس قدر وسیع و عریض تھا کہ قطب الدین ایبک محل میں چوگان یعنی پولو بھی کھیلا کرتا تھا۔ وہ اس کھیل کا بہت شوقین تھا۔ یہی کھیل اس کی موت کا سبب بن گیا۔ 1210ئمیں وہ اپنے محل میں پولو کھیل رہا تھا کہ گھوڑے سے گر پڑا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ کہا جاتا ہے کہ گھوڑے سے گرتے وقت لوہے کی زین اس کے سینے میں پیوست ہو گئی تھی جس کے باعث اس کی موت واقع ہو گئی۔ یوں ہندوستان پر چار سال تک مثالی حکومت کرنے کے بعد وہ اپنے محل میں ہی آسودہ خاک ہوا۔

سلطان شمس الدین التمش 1215ئمیں جب لاہور آیا تو وہ سلطان قطب الدین ایبک کے مزار پر حاضر ہوا۔ فاتحہ خوانی کی اور یہاں ایک شاندار مقبرہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس وسیع و عریض اور خوبصورت مقبرے کی تعمیر پر کثیر دولت خرچ ہوئی۔ لوگ بادشاہ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ ہر سال 14 رجب کو بادشاہ کا عرس منایا جاتا تھا۔! جس دن اللہ پاک نے اسلامی جموریہ پاکستان کو ” سلطان شمس الدین التمش ” جیسا بادشاہ نصیب کر دیا۔اس دن دنیا کی امامت ” اسلامی جموریہ پاکستان ” کے حصہ میں آ جائے گئی۔

DR Tasawar Hussain Mirza

DR Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا