سپریم کورٹ میاں صاحب اور مورثی سیاست

Supreme Court

Supreme Court

تحریر : عنایت کابلگرامی
گزشتہ دن یعنی بدھ کے روز سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پر سے ایک بڑا فیصلہ سنا دیا، تین رکنی بنچ جس کی قیادت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کر رہے تھے، انہوں انتخابی اصطلاحات 2017ء کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مسلم لیگ کی صدارت کے لئے بھی ناہل قرار دے دیا۔ اس مرتبہ میاں صاحب پر سپریم کورٹ میںدائر کی گئی درخواست میں تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل تھی ، ان تینوں پارٹیوں کا موقف تھا کہ ایک ناہل شخص کس طرح ایک سیاسی جماعت کی قیادت کر رہاہے یہ آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس قبل گزشتہ سال بھی سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو آئین کی شق 62 ،63کے تحت امین و صادق ناپاتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے کے لئے نااہل قرادیا تھا ۔ میاں صاحب کی بدقسمتی کے وہ تیسری بار بھی وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے گئے ، جبکہ موجودہ دور میں انکے قسمت کا ستارہ کچھ زیادہ ہی گردش میں ہے۔

میاں صاحب اور ان کے ارکان اسمبلی مسلسل اس بات کا دعویٰ کر ہے ہیں کے میاں صاحب پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہے اور انہوں نے ہی ملک قانون کی بالادستی قائم کی ہے ۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں میاں صاحب صرف اپنے اقتدار کی خاطر قانون میں صرف ردو بدل کرتے رہتے ہیں ، جب کسی قانون کے تحت ان کو ہٹایا گیا اس کے بعد میاں صاحب نے اس میں ردو بدل کیا۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے انصاف پر مبنی فیصلے کئے جائینگے ،خواہ ان کی زد میں عوامی نمائندے ہی کیوں نا آیئے، ہم صرف ملک کی خاطر ایسے فیصلے کرینگے جو انصاف پر مبنی ہو اور اس سے عوام میں عدالت کا کویا ہوا معیار بھی بحال ہو سکے۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں سیاست دان اپنی سیاست کے لئے جرائم پیشہ آفراد کو استعمال کرتے ہے اور ان لوگوں کوان کی فیس دینے کے لئے کرپشن بھی کرتے ہیں ، جس کے بعد وہ اپنی تجوریوں کی بھرنے کے لئے بھی خوب کرپشن کرتے ہے ۔ جب تک سیاست کو جرائم سے پاک نہیں کیا جاتا تب تک ملک میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی میرٹ کو نظر انداز کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔

عرسہ دراز سے ملک پر حکمرانی کرے والی دوبڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا کرپشن ، بدتر حکمرانی، جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کے علاوہ مالی دہشت گردی میں ملوث ہونا قومی مجرموں کا سہولت کار ہونا ملک دشمنوں کے ساتھ بیٹھانہ ایک ایسی سیاسی خرابی ہے جس نے پورے ملک و معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ جب تک سیاست کو جرائم و کرپشن سے پاک نہیں کیا جاتا اور ملک و عوام دشمن عناصر کویہ سیاست دان اپنا دشمن تصور نہیں کرتے تب تک وہ قانون سے بالاتر قرار نہیں دئے جاسکتے ، چاہیئے وہ لاکھوں نہیں کروڑں ووٹ ہی کیوں حاصل نا کریں۔

میاں صاحب اور ان کے رفقاء کا یہ موقف ہے کہ جس شخص کو ملک کے کروڑوں عوام منتخب کریں ، اس کو عدالت عظمیٰ کے تین چار جج صاحبان کیسے ہٹاسکتے ہیں؟ کیا اس ملک میں عوامی رائی کا کوئی احترام نہیں ؟ ۔ یہ ایک ایسا موقف ہے کہ جیسے کہ کوئی مولوی اگر غلط کام کرتا ہے اور عام لوگ اس کی نشاندہی کریں تو مولوی صاحب فوراََ خود کو انبیاء کرام علیہ سلام کا وارث کہانا شروع کردے تا ہے ، اس کے ساتھ ان عام لوگوں کو جنہوں نے مولوی کی غلطی کی نشاندہی کی وہوتی ہے ان پر گستاخ علماء کا فتویٰ لگادیا جاتا ہیں۔ ایسی طرح ہمارے سیاست دان بھی جب کوئی حق کی بات کریں یا کوئی جج انصاف پر مبنی فیصلہ دیں اور اس بات یا فیصلے سے کسی سیاست دان کو نقصان ہو یا اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہو تو وہ سیاست دان اس حق کی بات یا فیصلے کر نے والے کو جمہوریت کا دشمن قرار دے تے ہیں۔

ایساکیوں ؟ یہ خرابی کہاں ہے، یہ تمام خرابی مورثی سیاست میں ہے ، جو پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور جمعت علماء اسلام میںنمایا ہے ۔ ایک طرف زرداری صاحب اپنے بیٹے کو تیار کرہے ہیں ، تو دوسری طرف میاں صاحب اپنی بیٹی کو ، جب کہ مولانا فضل الرحمان بھی ان سے پیچھے نہیں وہ بھی اپنے بیٹے کو اپنے بعد قیادت کے لئے بھر پور انداز میں تیار کرا رہے ہیں ۔یہ پارٹیاں جو مورثی سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں ان کے لیڈران کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ملک کا اقتدار اور پارٹی کی قیادت ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہے ۔ حالانکہ ان پارٹیوں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے جن کو اگے لاکر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ، لیکن یہ صاحبان کبھی نہیں چاہینگے کہ اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں چلاجائے ۔ اس ملک کو سب سے زیادہ ان مورثیوں نے نقصان پہنچایا ہیں، جب تک ملک سے مورثی سیاست کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک یہ سیاست دان یوں ہی اقتدار کے خاطر ملک کے خزانوں کو اور عوام کو نقصان پہنچاتے رہینگے۔

عوام کو اب سوچ نا ہوگا کہ آئندہ انتخانات کیسے لوگوں کو منتخب کیا جائے ؟، جو ملک میں کرپشن لوٹ مار اور دہشت کی سیاست کر رہے ہیں؟ ، یا ایسے لوگوں کو جو پڑھے لکھے اور ملک کے خیر خواہ ہے جو حق کی بات کرتے ہوئے زرابھی نہیں کتراتے ہو۔ ممبر قومی اسمبلی ایک علاقے سے منتخب ہوتا ہے اور ان کوووٹ بھی علاقے والے ہی دیتے ہیں ، ہمیں ایسے لوگوں کو منتخب کرنا ہوگا جو مورثی سیاست اور کرپشن سے پاک ہو اور ملک کا خیر خواہ ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااللہ تو ہی میرے ملک کے حکمرانوں کو ہدایت عطا فرما۔ (آمین)

Inayat ulhaq Kabalgraami

Inayat ulhaq Kabalgraami

تحریر : عنایت کابلگرامی