سشما سوراج۔۔۔کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے

Sushma Swaraj

Sushma Swaraj

تحریر: مہر بشارت صدیقی
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت نہیں کریگا۔ ہم این ایس جی میں میرٹ کی بنیاد پر پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی شمولیت کے مخالف نہیں ہے۔ سشما سوراج نے واضح کیا کہ چین این ایس جی میں بھارت کی رکنیت کا مخالف نہیں بلکہ چین صرف طریقہ کار پر بات کر رہا ہے۔ میں پر امید ہوں کہ ہم چین کو قائل کر لیں گے۔ میں 23 ممالک کے ساتھ رابطے میں ہوں جن میں سے ایک یا دو ممالک نے اعتراضات اٹھائے ہیں لیکن میرے خیال میں اتفاق ہوجائیگا۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت رواں سال کے اختتام تک این ایس جی کا رکن بن جائے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان بھارت سیکرٹری خارجہ مذاکرات منسوخ نہیں ہوئے’ صرف پاکستان کی جانب سے پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان نے تحقیقات کیلئے مزید وقت مانگا ہے۔ ، وزیراعظم مودی نے دس ماہ کے دوران بہتر اقتصادی تعلقات کیلئے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران اور قطر سمیت مختلف ممالک کے کامیاب دورے کئے ہیں، آج جب بھارت بولتاہے تو دنیا سنتی ہے۔ بھارت جنوبی بحیرہ چین کے تنازعہ کا پر امن حل چاہتا ہے۔

امریکہ کے ساتھ ہماری مصروفیت بڑھ گئی ہیں لیکن ملکی مفاد کی قیمت پر نہیں، جب بھی ضرورت پڑی ہم نے انکے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔سشماسوراج اصل حقائق کو نظر اندازکرکے دنیا کوگمراہ کرنا چاہتی ہیں ان کے بیان کی وضاحت ہونی چاہئے۔پاک بھارت تعلقات ہندوستان کی ہٹ دھرمی،پاکستان دشمنی،آر ایس ایس،شیوسینا اور ابھی نائوبھارت جیسی انتہاپسندتنظیموں کے زیر سایہ پروان نہیں چڑھ سکتے۔انڈ یا اگر اتناہی مخلص تھاتو مذاکرات کی راہ کو ہمیشہ وقت گزاری کے طور پر کیوں استعمال کیاگیا؟۔ مودی خود ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستان توڑنے کا اعتراف کرچکے ہیں جبکہ متعدد بار علی الاعلان پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو بھی ہندوستان کے لئے خطرہ قراردیتے آرہے ہیں۔پاکستان کو دنیا میں تنہاکرنے کی سازشوں کے پیچھے ہندوستان ملوث ہے۔پاکستان میں راء کے افسرکل بھوشن کی بلوچستان میں گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کے پیچھے بھارت اور دیگر دشمن قوتیں ہیں۔

United Nations

United Nations

ہندوستان سے اس وقت تک دوستی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل،آبی جارحیت کاخاتمہ اور راء کی پاکستان میں مداخلت کامکمل قلع قمع نہیں ہوجاتا۔ہندوستان کی خارجہ پالیسی پاکستان دشمنی پر چل رہی ہے۔جنوبی ایشیامیں طاقت کاتوازن اپنے حق میں کرنے کے لئے بھارت نے اسلحہ ذخیرہ کرنے کی دوڑ شروع کررکھی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔بھارت ہماراازلی دشمن ہے اس نے ہمیشہ پاکستان کی آزادی اور سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ دشمن قوتیں چاروں طرف سے حملہ آوار ہیں۔ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحادویکجہتی کامظاہرہ کرنا ہوگا۔جب تک بھارت سمیت ملک دشمن قوتوں کو بھرپور انداز میں جواب نہیں دیاجاتااس وقت تک پاکستان مستحکم اور مضبوط نہیں ہوسکتا۔پاکستان سے رائ،موساد اور سی آئی اے کانیٹ ورک ختم کرنا ملکی سلامتی اور بقاء کے لئے ضروری ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ آر ایس ایس، ابھی ناو بھارت، شیو سینا جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں ہیں، بھارتی حکومت تعلقات کی بحالی میں سنجیدہ ہے تو مذاکرات کے دروازے اتنا عرصے سے بند کیوں کئے ہوئے تھے؟ پاکستان کے حوالے سے مودی صاحب کی دوست پالیسی انکی امریکی کانگریس میں تقریر سے عیاں ہو گئی تھی۔

پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے بھارتی وز یر خارجہ کا بیان حیران کن ہے۔ بھارتی وزیرِخارجہ اگر پاک بھارت تعلقات کے بارے میں اتنی ہی سنجیدہ اور پر عزم ہیں تو پھر وہ پہیلیوں میں بات نہ کریں اور نہ ہی اس مسئلے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کریں، وزیرِاعظم پاکستان نوازشریف کے کسی بھی ملک یا کسی سربراہ حکومت سے تعلقات پاکستان کے مفادات سے منسلک ہیں۔ بھارتی وزیرِخارجہ کی جانب سے انہیں ذاتی رنگ دینا کسی طور مناسب نہیں۔ انہیں کھل کر یہ وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ ان کے نزدیک وہ کون سی طاقتیں ہیں جو پاکستان اور بھارت میں تعلقات کی بحالی نہیں چاہتیں۔ ہمارے نزدیک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ آر ایس ایس، ابھی ناو بھارت ، شیو سینا جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں اور انکے ہندوستان کی حکومت سے تعلقات اور اثرورسوخ ہے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کسی ملک کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جسے ہمسایہ ملک سمیت خطہ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بتدریج بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط ہیں یہ تاثر دینا کہ ہماری خارجہ پالیسی 70سال میں ناکام رہی ہے یہ درست نہیں ہے اور نہ ہی ہم دنیا میں تنہا ہو رہے ہیں۔9/11کے بعد تقریباً ہر ملک میں حملہ ہوا لیکن پاکستان اس سے بچ گیا۔

Qatar

Qatar

ہم ہمسایہ ممالک اور خطہ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ چین اقتصادی راہداری، تاجکستان کے ساتھ کا سا1000کا معاہدہ اور قطر کے ساتھ ایل این جی کا معاہدہ کیا ہے۔ مسلمان ممالک سے ہمارے تعلقات تاریخی اور برادرانہ ہیں ایران کیس اتھ تعلقات اچھی سمت میں جا رہے ہیں۔ افغانستان کے دورے سے ہم نے پالیسی میں تبدیلی کی کہ کسی کی خودمختاری کو پامال نہیں کیا جائے گا۔ افغانستان کے ساتھ بارڈر کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے گزشتہ دنوں بھارت سے تعلق رکھنے والا ایک گینگ پکڑا گیا ہے۔ اس گروہ میں شامل لوگ یہاں کی معلومات لے رہے تھے اور دے رہے تھے، پکڑا گیا گروہ دہشتگردی کی کارروائیاں کرا رہا تھا اور پیسے تقسیم کر رہا تھا، افغانستان سے حالیہ کشیدگی پر پاکستان کا موقف واضح ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر کا غیرمحفوظ بارڈر ہے۔ اس سلسلے میں جو بھی بات ہورہی ہے وہ بارڈر منیجمنٹ کے ضمن میں ہے۔ سیاسی قیادت، فارن آفس اور عسکری سطح پر گفتگو میں دو چیزیں پتہ چلی ہیں۔ پہلی چیز کراسنگ پوائنٹس پر باقاعدہ طریقہ کار اختیار کرنا ہے۔ افغان مہاجرین کی چیکنگ اور انکی باعزت واپسی پر بھی بات ہوتی ہے۔کچھ عرصے سے افغان سرزمین سے انٹیلی جنس ایجنسیز کاروائیاں کرتی رہی ہیں۔

Mehr Basharat Siddiqi

Mehr Basharat Siddiqi

تحریر: مہر بشارت صدیقی