کوئی تماشا نہیں ہے

karachi Car Firing

karachi Car Firing

تحریر : روہیل اکبر
صبح اٹھنے کے بعد جب ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوا تو پاس پڑے ہوئے ریموٹ کو اٹھایا اور ٹیلی ویژن کا سوئچ آن کردیا مختلف چینل بدلتے بدلتے انگوٹھا یک دم رک گیا سامنے ایک رپوٹ چل رہی تھی سارا دن خبروں میں ہی الجھا رہتا ہوں اور کوئی خبر مشکل سے ہی نظروں سے بچ پاتی ہے سامنے سکرین پر جو رپورٹ چل رہی تھی یہ واقعہ کچھ دن پہلے ہی پیش آیا تھا ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رواج سرے سے ختم ہوچکا ہے اور خاص کر پیسے والوں اور بلخصوص جن کے مامے چاچے اور تائے کسی نہ کسی طرح اہم عہدوں پر پہنچ گئے ہوں اور حلال حرام کی تمیز ختم ہوچکی ہو تووہ بلکل ہی اپنے آپ کا کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارا یہ تمام کا تمام سسٹم انکے باپ کی جاگیر بن چکا ہے پہلے زرا آپ بھی وہ رپورٹ ملاحظہ فرمالیں اسکے بعد اور بھی بہت کچھ ہے چند روزقبل کراچی کے علاقے سی ویو پر معمولی حادثے کے بعد کار سوار نوجوان کو فائرنگ کرکے قتل کرنے والے ملزمان کو پولیس کی جانب سے ساحل تھانے میں وی آئی پی پروٹوکول فراہم کیا جارہا ہے اور اے سی کمرے میں رکھا گیا ہے۔ مرکزی ملزم خاور کا والد اشتیاق برنی شہر کا سب سے بڑا کار ڈینٹرپینٹر اور اثرو رسوخ کا حامل ہے۔

ساحل تھانے میں ملزمان کے لئے خصوصی کھانوں اور ناشتوں کا اہتمام کیا جارہا ہے اور مقدمے میں انسداد دہشتگردی کی دفعہ نہ لگا کر کیس کو معمولی بنادیا گیا ہے۔مقتول کے اہلِ خانہ کی اپیل کے باوجود پولیس نے مقدمے میں صرف قتل اور اقدامِ قتل کی دفعات شامل کی ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ کراچی پولیس دباؤ کا شکار ہے یا پیسے کی چمک کے آگے ڈھیر ہوگئی ہے۔اس رپورٹ میں مقتول کے لواحقین کے وکیل ایڈوکیٹ جاوید چھتاری کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کی دفعہ نہ لگا کر ملزم کو رعایت دی گئی، کوئی جرم جو عوام کے سامنے کیا جائے اور خوف پھیلے، وہ دہشت کی علامت ہے، اس واقعے سے بھی دہشتگردی اور خوف پھیلا ہے۔

اب زرا اس سے پہلے پیش آنے والے بھی چند واقعات کو پڑھ لیں تاکہ پوری طرح سمجھ آجائے کہ ہمارا معاشرہ جا کس طرف رہا ہے اورکسی کے غم کو لفطوں میں ڈھال کر اسکی کیا داد رسی ہوسکتی ہے اورمیرے لکھنے سے کسی پر کیا فرق پڑ جائے گا۔۔بس میرا دل شاید ہلکا ہو جائے، اسے لکھ کرمیں بھی بھول جاوں گا اور شائد آپ بھی پڑھ کر بھلا دیں گے لیکن ان لوگوں کا غم انکے دکھ انکے دلوں کا بوجھ وہیں کا وہیں رہے گا۔ ابھی کچھ دن پہلے شاہ رخ جتوئی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے آنکھوں کے سامنے کئی واقعات کی فلم چل رہی ہے۔سوچ رہا ہوں یہ کیسا ملک ہے جہاں اکلوتے لعلوں کی ماؤں کو پہلے انکی لاشیں دیکھنی پڑتی ہیں اور پھر باقی خاندان کی بقا کیلیے قاتل کو معاف کر کہ صلح نامے پر دستخط بھی کرنا پڑتے ہیں۔۔شاہ زیب کی تصویر دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اتنا پیارا بھائی جب بہنوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا ہو گا تو ان پر کیا گزری ہو گی۔؟اس کے بعد جب عدالت سے باہر نکلتے شاہ رخ جتوئی کی اتراہٹ دیکھی تو خود کو انتہائی بے بس محسوس کیا۔۔دل کیا کہ زمین پھٹ جائے اور سب کچھ اس میں غرق ہو جائے۔مجھے رہ رہ کر یاد آ رہا ہے کہ جب شاہ رخ نے شاہ زیب کی بہنوں کو ہراساں کیا اور اسکے روکنے پر اسکو گولی مار کر کہا کہ” مجھے جس نے روکنے کی کوشش کی اسکو بھی مار دوں گا”شاید اسکو معلوم تھا کہ یہ سب ادارے اسکے باپ کی جاگیر ہیں۔

مجھے پھر مصطفی کانجو کے ہاتھوں قتل ہونے والے اس اکلوتے بیٹے کی ماں یاد آتی ہے جس نے عدالت کی دہلیز پر کھڑے ہو کر کہا تھا”میں ان سے لڑ نہیں سکتی میری دو جوان بیٹیاں ہیں اور انکی عزت کی خاطر میں انھیں معاف کرتی ہوں”مجھے ایان علی کے خلاف کیس لڑنے والا وہ کسٹم انسپکٹر یاد آتا ہے جسے اسکے گھر میں گھس کر بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھااور ایان علی وکڑی کا نشان بناتے دبئی چلی گئی کیونکہ اسکو معلوم تھا یہ سسٹم کس کی جاگیر ہے۔یہاں ہمیشہ مقتول ڈرا سہما سر جھکائے عدالت سے باہر نکلتا ہے جب کہ قاتل کے ہاتھ وکڑی کا فخریہ نشان بناتے ہوئے اس ریاست کے منہ پر تھپڑ رسید کر رہے ہوتے ہیں۔یہ تو چند واقعات ہیں جو میڈیا پر آجاتے ہیں نہ جانے کتنے ہی ایسے شاہ زیب اس ملک میں وڈیروں کی بگڑی اولادوں کے ہاتھوں کچلے جاتے۔خاندان اجڑ جاتے ہیں،مائیں ویران ہو جاتیں ہیں،بہن بھایؤں کو عمر بھر کا روگ لگ جاتا ہے لیکن انکی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا یہ ویسے کے ویسے اتراتے،وکڑی کا نشان بناتے ہوئے عدالتوں سے باہر آتے ہیں کیوں وہ جانتے ہیں کہ یہ سارا سسٹم انکے باپ کی جاگیر ہے اور انکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔مگر یاد رکھنے کی بھی ایک بات ہے کہ اس سارے نطام سے ہٹ کر ایک اور بھی نظام ہے جسے ہم نظام قدرت کہتے ہیں ریاضی میں ایک ہندسہ ہوتاہے جسے صفر zero کہتے ہیں اس میں ایک خاص بات ہے کہ اسے کتنے بھی بڑے عددسے ضرب دیں اسکو صفر zero کر دیتاہے انسان اگر کبھی سوچے کہ زندگی کی رونقیں آسائشیں جوانی حسن خوبصورتی امارت گاڑیاں بنگلے کوٹھیاں یہ ماڈرنزم یہ بنک بیلنس یہ chill پارٹیاں یہ دولت کی مستی یہ اکڑ یہ تکبر جب موت سے ضرب کھاتی ہے تو پھر زیرو ہوجاتی ہے۔۔۔

موت وہ واحد حقیقت ہے جسکا کوئی انکار نہیں کرتا دولت ،اختیار اور اقتدار کے نشہ میں بدمست ہو کر آپکو خدا کی ذات کا انکار کرنے والے مل جائیں گے مگر موت کا انکار کرنے والا کوئی نہیں ملے گاکیونکہ زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ اس لئے ہم سب کو مل کر سوچنا چاہئے کہ ہم نے موت کی بعد کی زندگی کا کیا سامان تیار کیا ہے کسی پر ظلم کرنے اور ظالم کا ساتھ دینے کی بجائے یہ سوچیں کہ آج تک اللہ کی بات زیادہ مانی یا شیطان کی ایک فرمان ہے کہ روز رات کو سونے سے پہلے اپنے دن بھر کے اعمال کا جائزہ لو کہ اللہ کے راستے پر زیادہ چلے یا شیطان کے راستے پر اگرتو اللہ کے راستے پر چلے تو اللہ کا شکر ادا کرکے سوجاؤ اور اگر شیطان کے راستے پر چلے تو اللہ سے معافی مانگ کے سوئیں ہوسکتا ہے یہ ہماری زندگی کی آخری رات ہوکیونکہ موت پوچھ کے نہیں آنی اور جب آنی ہے توپھر پیچھے سب کچھ زیرو ہو جاتا ہے سوائے آپ کے اچھے اعمال کے کچھ ساتھ نہیں جانا اچھے اعمال کا خزانہ جمع کرتے رہیں زند گی میں کبھی تکبر نہ کریں کسی کی دل آزاری نہ کریں اگر ایسا ہو گیا ہے توسچے دل سے اس سے معافی مانگ لیں اور پھر اپنے اللہ سے معافی مانگیں ورنہ یہ دنیا ہی عبرت کی جگہ ہے کوئی تماشا نہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200