جن ملزموں کی رہائی نہیں ہوتی‘ حکومت پیرول پر چھوڑ دیتی ہے : چیف جسٹس

Anwar Zaheer Jamali

Anwar Zaheer Jamali

کراچی (جیوڈیسک) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ جن ملزموں کی عدالت سے رہائی نہیں ہوتی حکومت انہیں پےرول پر چھوڑ دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں بدامنی اور اویس شاہ اغوا ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔

اس موقع پر آئی جی سندھ اور ڈائریکٹر پے رول نے اے کلاس کئے گئے مقدمات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 480 مقدمات اے کلاس کئے گئے جس پر چیف جسٹس نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اے کلاس کئے گئے مقدمات کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ڈائریکٹر پے رول سے استفسار کیا کہ جس دن چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا بیٹا اغوا ہوا اس دن کتنے لوگوں کو پےرول پر چھوڑا گیا، جواب میں ڈائریکٹر پےرول کا کہنا تھا کہ اس روز 25 ملزوں کو پےرول پر رہا کیا گیا۔

چیف جسٹس نے میں کہا کہ جن لوگوں کو پےرول پر رہا کیا گیا وہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں، جن ملزموں کی ہائی کورٹ سے ضمانت نہیں ہوتی انہیں پےرول پر چھوڑ دیا جاتا ہے، کیوں نہ آپ کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ان ملزمان کی جگہ جیل بھیج دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ڈائریکٹر پےرول سے استفسار کیا کہ آپ کتنے سال سے اس عہدے پر ہیں، ڈائریکٹر پےرول کا کہنا تھا کہ 10 سالوں سے اس پوسٹ پر ہوں جس پر چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب یہ 10 سال سے اس عہدے پر اس لئے ہیں کہ اچھے سودے کر لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ اویس شاہ کے اغوا کیس میں پیش رفت نہ ہونے پر ایس ایس پی جنوبی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے اور دوسرا افسر تعینات کیا جائے۔ اس موقع پر ایس ایس پی جنوبی فاروق احمد کا کہنا تھا کہ مجھے شام سوا 7 بجے واقعہ کا پتہ چلا جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عبداللہ نامی شخص نے 15 پر سوا 2 بجے کال کی تھی جب کہ ایس ایچ او کو 4 بجے واقعہ کا پتہ چلا لیکن اس نے جائے وقوعہ کا دورہ بھی نہیں کیا۔

عدالت نے ایس ایس پی ساتھ سے استفسار کیا کہ جب آپ کو واقعہ کا پتہ چلا تو آپ نے آئی جی سندھ کو بتایا؟، ایس ایس پی فاروق احمد نے کہا کہ ایک دوسرے واقعے میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں بتا سکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وائرلیس پر اطلاع دے سکتے تھے مگر آپ نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ عدالت نے آئی جی سندھ سے پوچھا کہ کیا آپ کو علم تھا کہ فاروق احمد کو ہٹایا گیا جس پر اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ جب 23 جون کو فاروق احمد کو ایس ایس پی ایسٹ لگایا تو میں نے مخالفت کی جس پر حکم واپس لے لیا گیا، عدالت نے کہا کہ جب تک متعلقہ افسر سے مشاورت کر کے تقرری اور تبادلے نہیں ہوں گے تو شہر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

چیف سیکرٹری بتائیں کہ ایس ایس پی ساﺅتھ کے حوالے سے کیا کارروائی کی جارہی ہے جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلی سندھ نے ایس ایس پی ساﺅتھ کو ہٹانے کی منظوری دے دی ہے، کسی اچھی شخصیت کے حامل افسر کو ان کی جگہ تعینات کیا جائے گا۔

آئی جی سندھ اور ڈائریکٹر پیرول نے اے کلاس کئے گئے مقدمات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 480مقدمات اے کلاس کئے گئے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اے کلاس کئے گئے مقدمات کی تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت سندھ نے ایس ایس پی جنوبی کراچی ڈاکٹر محمد فاروق کا تبادلہ کر دیا ہے۔