شام میں فائر بندی کے معاملے مین روس اور امریکہ کے درمیان اختلافات

Russia and United States

Russia and United States

شام (جیوڈیسک) شام میں 12 ستمبر کے روز سے نافذ ہونے والے نو روزہ فائر بندی پر عمل درآمد کے بعد سے اسلحہ کی آوازیں کافی حد تک تھم گئی ہیں۔

تا ہم اسد انتظامیہ بعض علاقوں کو انسانی امدادی قافلوں کی رسد کی اجازت نہیں دے رہی۔ اقوام متحدہ کے 40 امدادی سامان کے ٹریلرز ترکی ۔ شام سرحدوں کو پار کرنے کے بعد تا حال کسٹم چیک پر انتظار میں کھڑے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی امور رابطہ دفتر کے ترجمان جینز لارکے نے امدادی سامان کی ترسیل کی اجازت نہ دینے والی اسد انتظامیہ کے خلاف ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حرکت ہمارے اوسان خطا کر رہی ہے۔

دوسری جانب شام میں جنگ بندی نافذالعمل ہونے کے چار دن بعد امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔

روس نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے ’اعتدال پسند‘ باغی تنظیموں کو شدت پسند تنظیموں سے الگ نہ کیا تو وہ ان پر دوبارہ سے بمباری شروع کر سکتا ہے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے حلب اور دوسرے محصور علاقوں تک امدادی سامان نہ پہنچنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے روسی ہم منصب سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرتے ہوئے امدادی قافلوں کی متاثرہ علاقوں تک ترسیل نہ ہونے تک روس کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر زور دیا ہے۔

جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فائر بندی میں توسیع کے حوالے سے آج رات منعقد کیے جانے والے ہنگامی شام اجلاس کو منسوخ کر دیا ہے، جس کا یہ جواز پیش کیا گیا ہے کہ شام میں فائر بندی کی تفصیلات کے معاملے میں امریکہ اور روس کو مزید وقت درکار ہے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے یومیہ پریس کانفرس میں شام میں فائر بندی کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے وقت اس بات پر زور دیا کہ اس ملک میں امدادی سامان کو ان کی منزل تک پہنچنے اور ملک میں پر تشدد واقعات میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جبکہ روس اسد انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے ہوئے شدت میں کمی اور انسانی امدادی قافلوں کو منزل مقصود تک پہنچانے میں تعاو ن نہیں کرتا اس کے ساتھ فوجی تعاون کا معاملہ زیر ِ بحث نہیں آسکتا۔