شام کے سرکاری مفتی کےمتنازع بیان کا فرانس دہشت گردی سے تعلق؟

Syria Mufti

Syria Mufti

برونائی (جیوڈیسک) فرانس کے جنوب مشرقی شہر نیس میں جمعرات کی شام ایک جنونی ٹرک ڈرائیور کی جانب سے شہریوں کو کچلنے جانے کے خونی واقعے کے جلو میں شام کے سرکاری مفتی علامہ بدرالدین حسون کا پانچ سال پرانا ایک بیان ایک بار گردش میں ہے جس میں موصوف نے مغرب اور امریکا کو ’فدائی‘ حملہ آوروں کے ذریعے نشانہ بنانے کے دھمکی دی تھی۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مفتی حسون کا متنازع بیان یوٹیوب پر ان بھی موجود ہے۔ یہ بیان انہوں نے اکتوبر سنہ 2011ء میں جاری کیا تھا۔ علامہ حسون نے ایک ہی جملے میں امریکا، فرانس، برطانیہ اور پورے یورپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم فدائی حملہ آور تیار کرتے رہے ہیں۔ آج وہ تمہارے پاس پہنچ چکے ہیں‘۔

پانچ سال پہلے مفتی حسون کے بیان پریورپی یا امریکا کی جانب سے کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا بیان اب آسانی سے اس لیے سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ یورپ اور امریکا تواتر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ادھر دوسری جانب نیس حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر بھی گرما گرم بحث جاری ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر سرگرم سماجی کارکن نیس حملوں کو حال ہی میں پیرس کی میزبانی میں منعقد ہونے والی ایرانی اپوزیشن کی نمائندہ کانفرنس سے جوڑ رہے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ نیس حملے پیرس کانفرنس پر ایران کا فرانس سے انتقام ہو۔ کیونکہ ایرانی حکومت پیرس میں اپوزیشن کی دو روزہ کانفرنس پر فرانس پر سخت برہم ہے۔ اس برہمی کا اظہار تہران میں متعین فرانسیسی سفیر کی دفتر خارجہ طلبی اور ایرانی حکومت کا اس پر احتجاج سے ہو رہا ہے۔

مائیکر و بلاگنگ ویب سائیٹ’ٹویٹر‘ پر ’ھیش ٹیگ ایران فرانس میں دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے‘ ٹاپ پر ٹرینڈ کررہا ہے۔ اسی ہیش ٹیگ کے ضمن میں بیسیوں ٹویٹس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ماضی میں ایران القاعدہ کو اپنے ہاں پناہ دے چکا ہے جس سے تہران کی دہشت گردی کی حمایت کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔

’’شغار‘‘ نامی ایک شہری نے ٹوئٹر پر ٹویٹ کیا ہے کہ ’اغلب امکان یہ ہے کہ فرانس میں ہونے والی تازہ دہشت گردی کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہو کیونکہ ایرانی رجیم پیرس میں اپوزیشن کی کانفرنس پر سیخ پا ہے۔ اس تبصرے کے بعد دسیوں نئے ’ہیش ٹیگ‘ سامنے آئے ہیں جنہیں ’ایران دہشت گردوں کا سب سے بڑاسرپرست‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔

’ایرانی امور‘ نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک تبصرے میں لکھا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ ایران براہ راست فرانس میں دہشت گردی کا مرتکب ہو۔ داعش ایران کی ایجنٹ کے طورپر اسی کام میں تو مصروف ہے۔