شام امن مذاکرات، تاخیر کی تصدیق نہیں کی جا سکتی: اقوام متحدہ

Meeting

Meeting

واشنگٹن (جیوڈیسک) اقوام متحدہ نے بتایا کہ فروری میں شام کے مجوزہ امن مذاکرات کو مؤخر کیے جانے کی ’’کوئی تصدیق نہیں‘‘ کی جا سکتی، جس کے باعث روس کے وزیر خارجہ کی جانب سے آج ہی دیے گئے ایک بیان پر شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔

سرگئی لاوروف نے ماسکو میں متعدد شامی باغی گروپوں کے ساتھ ہونے والے ایک اجلاس میں بتایا کہ اقوام متحدہ کے زیر سایہ 8 فروری کی مجوزہ بات چیت کو مؤخر کیا جائے گا۔ اُنھوں نے معطلی کی کوئی وجہ بیان نہیں کی۔

تاہم، شام میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے ترجمان، نے کہا ہے کہ جنیوا مذاکرات میں شرکت کرنے والے سفارت کاروں کی فہرست کو حتمی شکل دی جا چکی ہے اور اِنہیں معطل کیے جانے کی تصدیق نہیں کی۔

اقوام متحدہ کی خاتون ترجمان، یارا شریف نےاخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’فروری کے مذاکرات کی معطلی کی کوئی تصدیق موجود نہیں۔ میں نے یہ کہا کہ ہمیں اُسی وقت یقین آئے گا جب خصوصی ایلچی (استفان ڈی مستورا) واپس پہنچیں گے‘‘۔

اس سے قبل، اِسی ہفتے، ایران کے ساتھ، ترکی اور روس نے امن مذاکرات کے مرحلے کے لیے حکومتِ شام اور باغیوں کے گروپوں کے وفود کو قزاقستان اکٹھا کیا، جن تینوں ملکوں کی جانب سے نامکمل جنگ بندی کی نگرانی میں مدد دینے کے لیے اور شام کے تنازع کے سیاسی حل کے لیے کوششوں پر اتفاق کیا۔

ترکی کے ترجمان، حسین مفتوگلو نے جمعرات کے روز بتایا کہ چند لڑاکوں کو جنگ بندی میں روڑے اٹکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جس پر دسمبر کے اواخر میں عمل درآمد شروع ہوا۔

اُنھوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ مستقبل کے شام میں صدر بشار الاسد کی کوئی گنجائش نہیں۔ ترکی جاری تنازع میں ہمیشہ سے باغیوں کی پشت پناہی کرتا آیا ہے، جس تنازع کی ابتدا 2011ء میں ہوئی، جب خانہ جنگی کے خلاف پُرامن احتجاج کا آغاز ہوا۔