شمالی شام میں ترک اور کرد فورسز کے درمیان جھڑپ کے بعد کشیدگی

Syria Forces

Syria Forces

شام (جیوڈیسک) شام کے شمالی علاقے میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجوؤں اور کرد فورسز کے درمیان ہفتے کو ہونے والی جھڑپ کی وجہ سے شدت پسند گروپ داعش کے خلاف برسر پیکار دو امریکی اتحادیوں کے درمیان ایک مکمل جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

ترکی کی اناتولیہ خبر رساں ایجنسی کے مطابق کرد ملیشیاء کے ایک راکٹ حملے میں ایک ترک فوجی ہلاک جب کہ تین دیگر زخمی ہو گئے۔ انقرہ کی حکومت کرد جنگجوؤں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے۔

جب کہ امریکہ کی حمایت یافتہ سرئین ڈیموکریٹک فورسز کا موقف ہے کہ ترکی کے لڑاکا طیاروں نے سرحدی قصبے جرابلس کے جنوب میں کرد ملیشیاء جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جہاں ترک فورسز نے بدھ کو بھی حملہ کیا تھا۔

تاہم ہفتے کو سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اب یہ علاقہ سرئین ڈیموکریٹک فورسز کے کنڑول میں ہے۔ فوری طور پر جانی نقصان کے بارے میں کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔

ان جھڑپوں کی وجہ سے مغربی ممالک کی اس حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ ترک فوج کی شام میں مداخلت کا ہدف داعش کے عسکریت پسند اور کرد فورسز دونوں ہیں۔ شام میں سرگرم کرد فورسز پیپلز پروٹیکشن یونٹ یعنی ’وائی پی جی‘ ملیشیاء کے نام سے معروف ہیں۔

امریکہ ’وائی پی جی‘ کو داعش کے خلاف لڑائی میں اپنا ایک سب سے زیادہ موثر اتحادی قرار دیتا ہے جب کہ ترکی کا مطالبہ ہے کہ ’وائی پی جی‘ اس سرحدی علاقے سے نکل جائے جو داعش کے عسکریت پسندوں سے چھینا گیا ہے۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کے شام کے لیے خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ ایک عارضی جنگ بندی کی صورت میں اقوام متحدہ نے محصور شہر کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے ایک ہنگامی منصوبہ بنایا ہوا ہے۔

ایک بیان میں اسٹافن دی مستیورا نےکہا کہ روس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی ہنگامی منصوبے کا احترام کرے گا جب کہ گزشتہ ہفتے پیش کیے جانے والےاس منصوبے کے لیے ماسکو کی طویل عرصے سے اتحادی صدر بشار الاسد کی حکومت کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے اس منصوبہ کا مقصد حلب شہر میں محصور ہزاروں افراد کو ہنگامی امداد فراہم کرنا ہے اور اس شہر کو بجلی کی فراہمی کو بحال کرنا ہے جہاں ایک وقت میں لگ بھگ 23 لاکھ افراد مقیم تھے۔

دوسری طرف برطانیہ میں قائم تنظیم سرئین آبزر ویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے ہیلی کاپٹروں نے چند لمحوں کے وقفے سے مشرقی حلب کے مادی کے علاقے پر دو بیرل بم گرائے۔

بتایا گیا ہے کہ یہ بم حلب شہر کے نواحی علاقے میں ایک خیمے کے قریب گرے جہاں لوگ جمعرات کو ایک بیرل بم حملے میں ہلاک ہونے والوں کا سوگ منا رہے تھے۔ اس حملے میں 11 بچوں سمیت 15 افراد ہلاک ہوئے۔

شام کی حکومت بیرل بم استعمال کرنے سے انکار کرتی آ رہی ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ حلب کے اوپر صرف دمشق اور ماسکو کی فورسز ہی ہیلی کاپٹروں کو استعمال کر رہی ہیں۔

ہفتے کو ہی شامی باغی اور ان کے خاندانوں نے دمشق کے نواح میں واقع دریا کے قصبے سے انخلا کا عمل جاری رکھا۔

یہ پیش رفت جمعرات کو شامی حکومت کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے پا جانے کے بعدعمل میں آئی ہے۔ یہ شہر چار سال تک محاصرے میں رہا اور اس دوران ہونے والی فضائی کارروائیوں کی وجہ سے یہ تباہ ہو گیا۔

شام میں پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں دوسرے ملکوں کا رخ کرنا پڑا۔