نظام بدلنا ہو گا

Power

Power

تحریر : ابنِ نیاز
”آپ کی تحریر پڑھنے انٹرنیٹ تک رسائی کرتا ہوں، اور جب آپ کی تحریر پڑھ لیتا ہوں تو دل کو ہلکا ہلکا … پر سکون پاتا ہوں کہ اس دل بسمل کی آواز کوئی تو اپنے قلم کی نوک سے قرطاس پر اتار رہا ہے۔ آپ نے جو کچھ لکھا درست لکھا اور سچ لکھا، مگراس کے باوجود فقیر سمجھتا ہے کہ آپ نے رعایت کی اور خوب رعایت کی جس کے قابل اب یہاں کوئی نہیں، آپ کی تحریر ابتدا ہی سے اپنی گرفت میں اقتدار میں رہنے والوں کو لئے ہوئے ہے، بہت بے باکی سے آپ بات کرتے ہیں حتی کہ حاکم وقت کو ایسی بے باکی نہیں پسند… مگر آپ ہیں کہ خوف کھانے کو تیار نہیں ..آپ نے جنرل ضیا کی بات کی …. میں موجودہ دور تک بات لے آتا ہوں ….. کون ہے جو اس ملک کے ساتھ مخلوص ہے، نہ عام نہ خاص یہ ملک صرف اس لئے بچا ہوا ہے کہ قدرت نے ابھی کچھ خاص کام اس ملک سے، اس خطے سے لینا ہے….. اور جو لکھ دیا اور جو کہہ دیا اور جو پہنچا دیا …. اس کے خلاف جانے والا کسی اور کو نہیں اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور کچھ نہیں، یہ جملہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔

کلمہ گو … جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں وہ کبھی ایسا راستہ نہیں اپنائیں گے جو ان کو نہ دیا گیا نہ بتایا گیا، نہ سکھایا گیا اور اگر ایسا کریں گے تو وہ سوائے ذلت کے کچھ نہیں پا سکتے … آپ سمجھ گئے ہونگے فقیر نے کس کی بات کی ہے، ایسی جمہوریت کیا اسلام نے سکھائی ہم کو؟؟؟ ایسا نظام ِ حکومت کیا اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کیا تھا ہمیں سکھانے کے لئے؟؟؟؟ہم ان راستوں پر چل کر اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہو سکتے ہیں قریب نہیں، ان راستوں پر چل کر کوئی ملک چاہے مسلم ہی کیوں ناں ہو … کتنی ہی ترقی کر لے مگر جب سوال بنیادی ہوگا تو جواب بھی بنیادی ہی ہوگا کہ ایسا نظام ِ حکومت جہاں عام اور خاص کا ووٹ یکساں ہو، جہاں علم والا اور جاہل سب برابر ہوں …. ایسا نظام نہ اللہ کی یہاں، نہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہاں اور نہ ان کے چار یاروں ( خلفائے راشدین) کی یہاں منظور تھا۔

Election

Election

اگر ہوتا تو وہ بھی ہر عام سے ووٹ لیتے، ہر عام کی رائے جانی جاتی …. یہ اسی طرح ہے کہ ہم محفل نعت کا اہتمام تو کریں مگر بیچ سڑک پر، آواز ایسی بلند کرکے کے لوگوں کو تکلیف ہو، چوری کی بجلی استعمال کرکے، مجروں کا ماحول پیدا کرکے نوٹ لٹالٹا کر سمجھیں کہ ہم اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پاک کرکے اللہ کو راضی رکھے ہوئے ہیں، تو ہم اس وقت بھی نادان ہی کہلائیں گے، جیسے ابھی اگر نادان سوچتے ہیں کہ الیکشن ملک کی قسمت بدل دیں گے یہ نظام حق کا نظام ہی نہیں جہاں انصاف مرنے کے بعد ملتا ہے، جنرل رخصت ہو رہا ہے، ڈاکٹر عاصم بھی جلد باعزت بری ہوگا …. اور وہ ماڈل وہ تو معصوم ٹھہری، پھر لوگ کسی کو بھی ووٹ سے لیکر آئیں …. جب یہ نظام ہی ہمارے لئے اللہ نے منتخب نہیں کیا تو ہم کو اس سے فلاح کیسے مل سکتی ہے، نہیں محترم ، نہیں میرے عزیز یہ نظام لادینی ہے، اور اس سے دنیا تو مل سکتی ہے مگر دین نہیں، لکھنے والے نے لکھا:

حاکم کو برا کیوں کہتے ہو، خود اپنے گریباں میں جھانکو
سلطان کی غلطی میں شامل جمہور کو پایا ہے اکثر ”

قارئین کرام، آپ بتائیں کہ اس میں کیا غلط ہے جو ان صاحب نے لکھا۔ کیا آج کل پاکستان کا نظام کچھ اس طرح ہی نہیں ہو گیا۔ پاکستان میں انصاف بکتا ہے، تعلیم بکتی ہے، مولوی بکتا ہے یعنی دین بکتا ہے۔۔ جب سب کچھ بکتا ہے تو پھر یہاں کا نظام کتنا درست ہے؟ بالکل نہیں۔ جب نظام کی غلطی ہے تو نظام کو تبدیل ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ جمہوریت جس میں دس فیصد کی اقلیت پورے سو فیصد پر حکمرانی کرتی ہو، اور دس فیصد میں سے بھی اکثیریت صرف اقرباء پروری یا پھر ایک قبیلہ کے بنا پر ووٹ دیتی ہو، دل سے راضی نہ ہو، تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ جمہوری نظام ہے۔ جمہوری نظام دیکھنا ہے تو دیکھو جب حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کیا تو اس وقت موجود تمام مسلمانوں نے ایک آواز ہو کر ان کو خلیفہ مانا۔ انھوںنے چھ افراد متنخب کیے کہ ان میں سے خلیفہ چن لیں تو سب نے حضرت عثمان غنی کو خلیفہ چنا۔ جمہوریت اور کس کا نام ہے۔

شاید پاکستان میں جمہوریت نام ہے اپنی اپنی باری لینے کا۔ جو اپنے آقائوں کو خوش نہیں کرتا یا جو انکو آقا نہیں مانتا جو دنیا کا نظام اپنی مرضی سے چلاتے ہیں تو ان کو کبھی حکمرانی نہیںملتی۔ پاکستان کی جمہوریت نام ہے اپنی اپنی جیبیں بھرنے کا۔جمہوریت نام ہے یہاں پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا اور نہ کھیلوں گا نہ کھیلنے دوںگا کا۔۔ پاکستان کی جمہوریت تو ایسی ہی ہے۔ کسی کو شک ہے تو پاکستان کے بننے کے بعد سے دیکھ لے۔آمریت میں کیا کچھ ہوتا رہا، میں اس کی بات ہر گز نہیں کروں گا۔ لیکن جب سب جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں تو جمہور کی بات بھی مانیں۔ اپنی مرضی سے فیصلے کیوں کرتے ہیں۔ یہاں پاکستان بدلنے کی بات ہوکرتے ہیں ، کرپشن ختم کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی ہی پارٹی میں ایک سے بڑھ کر ایک کرپٹ ساتھی چنا ہے۔

Democracy

Democracy

بات کرتے ہیں کہ اقرباء پروری ختم کر دیں گے، لیکن کس سیاسی پارٹی ممبر کا کونسا رشتہ دار کسی بھی ادارے میں اس کی سفارش سے ملازم نہیں ہوا۔ ایک ایس پی ایک بندے کو اپنے لیٹر پیڈ پر لکھ کر دیتا ہے کہ یہ میرا فلاں فلاںہے، اس کو کسی بھی چیک پوسٹ پرتنگ نہ کیا جائے اور نہ چالان کیا جائے۔ ایک منسٹر کسی بھی ادارے میں اپنے رشتہ دار کو بھرتی کروانے کے لیے اس کو چٹ نہیں دیتا بلکہ اس کے لیے فون پر فون کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا لکھا ہوا اس ادارے میں آن ریکارڈ آجائے گا۔ یہ سب کیا ہے؟ اقرباء پروری ،سفارشی کلچر نہیں تو کیا ہے۔

پاکستان کے حالات اس طرح کبھی درست نہیں ہوں گے جس طرح ہمارے وطن کے سیاستدان سوچتے ہیں۔ کیونکہ ان کو اپنا ذاتی مفاد زیادہ عزیز ہے۔ انھوںنے ہر بات میں، ہر کام میں یہ سوچنا ہے کہ ان کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ بیشک پیسے کا مفاد نہ بھی ہو تو اس نے کم از کم مستقبل کے لیے اپنا سیاسی مفاد ضرور دیکھنا ہے۔ وہ کسی بھی محلہ گلی میں قصبہ گائوں میں کوئی کام تب کرواتا ہے جب اس کے نام کی تختی وہاں لگتی ہے اور اس کو افتتاح کے لیے بلایا جاتا ہے۔ورنہ تو وہ آپ کو اپنے علاقے میں کیا شہر میں نظر نہیں آتا۔ قارئین کرام، یہ نظام بدلے گا تب ، جب آپ کی سوچ بدلے گی۔ آپ اندھی عقیدت اور تقلید کے دائرسے باہر آئیں گے۔ آپ کو یہ سوچنا ہو گا کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ اور پاکستان کو اللہ کے حکم سے قائم و دائم رکھنے کے لیے آپ کو اٹھنا ہوگا۔ اپنے حق کے لیے لڑنا ہو گا۔آپ کو نظام بدلنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ اور نظام درست کرنے کے لیے ہمیں یا تو نئی پود جو عقل ، شعور اور تعلیم رکھتی ہو کو سامنے لانا ہو گا۔ یا پھر ان موجودہ سیاستدانوںکو تعلیم یافتہ کرتے ہوئے عوام کو اپنے ہر کام کے لیے جواب دہ کرنا پڑے گا۔ تب ہی کچھ نہ کچھ ہو گا، ورنہ جاہل کے جاہل رہ جائو گے، بے شک پی ایچ ڈی کر لو۔

Ibn E Niaz

Ibn E Niaz

تحریر : ابنِ نیاز