تاج محل ہندو نفرت کا شکار

Taj Mahal

Taj Mahal

تحریر : علی عبداللہ
یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیے جانے والے اور دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک تاج محل کو اتر پردیش کی سرکار نے سیاحتی کتابچے میں شامل نہ کر کے روایتی تعصب اور مسلمانوں سے نفرت کا کھلا اظہار کیا ہے ۔ حال ہی میں شائع ہونے والے اس سیاحتی کتابچے میں کئی ہندو اور بدھ یادگاریں شامل ہیں لیکن محبت کی اس نشانی، مسلمانوں کے فن تعمیر کے شاہکار اور اسلامی ثقافت کو نمایاں کرنے والے تاج محل کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ سالانہ چھے لاکھ سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے والا یہ عظیم الشان محل ہندوستان میں موجود کسی بھی تاریخی یادگار کے مقابلے میں سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے ۔

ہندوستانی مصنف اور ماہر ثقافت سہیل ہاشمی کے مطابق مودی سرکار اب تاج محل پر بھی سیاست کر رہی ہے ۔ بی جے پی نے اقتدار اس شرط پر سنبھالا تھا کہ ہر وہ شے اور مقام جو ہندومت سے منسلک ہے صرف اسے ہی ہندوستانی مانا جائے گا ۔ اب چونکہ تاج محل مسلمانوں کے ساتھ منسلک ہے لہٰذا یہ ہندوستانی ثقافت ہی نہیں ہے ۔مودی حکومت مشترکہ ہندوستانی ثقافت کو ہندو اور مسلم ثقافت میں تقسیم کر رہی ہے ۔ اس سے پہلے سڑکوں کے نام جو مغلوں سے وابستہ تھے انہیں بدل کر ہندو ناموں پہ رکھ دیا گیا تھا اور نہ صرف یہ بلکہ مودی حکومت پر تاریخ کے نصاب میں بھی ردوبدل کا الزام لگ چکا ہے ۔

آگرہ ہندوستان کی شمالی ریاست اترپردیش کا شہر ہے جہاں تاج محل واقع ہے ۔یہ دہلی سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ مغلوں کے دور میں یہاں کئی تعمیرات ہوئیں جن میں تاج محل، فتح پور سیکری اور لال قلعہ مشہور ہیں ۔ 1631 ء میں مغل بادشاہ شاہ جہان کی تیسری بیوی ممتاز محل کا انتقال ہوا تو اس نے اپنی ملکہ کی یاد میں تاج محل تعمیر کروانے کا فیصلہ کیا ۔ یہ عمارت 22 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی اور چار کروڑ کی لاگت کے ساتھ تقریباً 20000 مزدوروں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ۔ تاج محل ایرانی اور مغل فن تعمیر کا امتزاج ہے جس کے چار مینار ہیں جو خالص اسلامی ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں ۔ تاج محل کی آرائش میں قران کریم کی خطاطی نمایاں ہے اور یہی ہندوؤں کو سب سے زیادہ پریشان بھی کیے ہوئے ہے ۔ تاج محل کی تعمیر کے سلسلے میں یشب اور کرسٹل چین سے ، فیروزہ تبت سے ، نیلا یاقوت سری لنکا سے اور سرخ عقیق سعودی عرب سے منگوایا گیا تھا ۔ افرادی قوت میں نقش و نگار کے لیے بخارا، خطاطی کے لیے شام اور ایران، پچی کاری کے لیے جنوبی ہند جبکہ پتھر تراشنے کے لیے بلوچستان سے ماہرین بلوائے گئے تھے ۔

تاج محل کے مرکزی گنبد کو ڈیزائن کرنے کے لیے اسماعیل آفندی کو بلوایا گیا تھا جن کا تعلق ترکی سے تھا ۔ استاد عیسیٰ اور عیسیٰ محمد آفندی کو ایران سے بلوایا گیا تھا ۔یاد رہے کہ یہ دونوں مشہور عثمانی معمار سنان آغا کے شاگرد تھے ۔ گنبد کے اوپر موجود چاند ستارے کو سونے سے تیار کرنے والے کظیم خان کا تعلق لاہور سے تھا ۔ ان کے علاوہ کئی بہترین ماہرین تعمیرات، خطاطی اور موزائیک کے لیے مختلف علاقوں سے آگرہ بلوائے گئے تھے ۔ برطانوی دور حکومت میں انگریزوں نے سونے کے چاند اور ستارے کو چوری کر کے اسکی جگہ تانبے سے بنا چاند اور ستارہ نصب کر دیا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ تاج محل کے گرد بنے باغات میں بھی بدلاؤ کر کے انہیں لندن کے باغات کی شکل دینے کی کوشش بھی کی گئی تھی ۔

ہندو یوگی ادیتیاناتھ جو کہ مسلم دشمنی میں مشہور ہے کسی بھی طور پر تاج محل کو مسلمانوں کی نشانی ماننے کو تیار نہیں ۔ ماضی میں وہ تاج محل کو ہندو مندر کہہ چکے ہیں جس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں بھی دائر ہوا اور وہاں ثابت ہوا کہ تاج محل ہندو مندر نہیں بلکہ خالصتاً مسلمانوں کی نشانی ہے ۔ اسی یوگی نے سیاحتی کتابچے میں گورکھ ناتھ مندر بھی شامل کروایا ہے لیکن تاج محل شامل نہیں ہونے دیا ۔

گذشتہ سال 6.2 ملین سیاح تاج محل دیکھنے ہندوستان آٰئے تھے اور تقریباً چار لاکھ لوگوں کا چولہا بالواسطہ یا بلاواسطہ تاج محل کے ذریعے جلتا ہے ۔ جبکہ اترپردیش کا 20 فیصد ریونیو تاج محل کی سیاحت سے جڑا ہوا ہے ۔ لیکن مسلم دشمنی اور نفرت میں مودی سرکار اس تاریخی اور عالیشان مغل یاد گار کو بھی سیاست کی نظر کر کے اسے ہندوستانی ثقافت سے ہی خارج کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ بی جے پی کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے دن تمام ہوئے جو ہندوؤں کے جذبات کو کچلتے تھے ۔ اب وہی ہو گا جو ہندو چاہیں گے ۔ مسلمانوں کی تاریخی یادگاروں سے یہ سلوک نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں پر اثر انداز ہو گا بلکہ پوری دنیا کے مسلمان اور دیگر ماہرین ثقافت بھی اس سے متاثر ہوں گے۔

ALi Abdullah

ALi Abdullah

تحریر : علی عبداللہ