تحریک طالبان اور پاکستان مذاکرات

Pakistan

Pakistan

پاکستان کو طالبان نے اس حد تک تنگ کر دی ہے جس کی گرفت سے چھٹکارا حاصل کرنا انتہائی مشکل عمل ہے۔ خلافت کے حامی معروف دفاعی تجزیہ نگار سید زید حامد نے کئی سال پہلے پاکستانی حکومت کو خبر دار کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا کہ پاکستان 2008 ء کے بعد بیرونی و اندرونی دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے گا احتیاط کی جائے اور خلافت و شرعی نظام نافذ کر کے اپنی دفاع کو مضبوط کی جاسکتی ہے۔ کسی نے بھی اس کی بات پر غور نہیں کی بلکہ اس پر پابندی بھی عائد کر دی۔ خیر بات تحریک طالبان پاکستان کی ہے تو اس طرف آتے ہیں۔

پاکستان کی حکومت طالبان سے مذاکرات کے لئے کئی بار تیار ہوا مگر مذاکرات سے قبل کسی نہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی وجہ ناکام ہوتی رہی۔ تحریک طالبان پاکستان گزشتہ روز میڈیا میں جاری بیان میں کہا ہے کہ با مقصد مذاکرات سے انکا ر نہیں ، حکومت جنگ بندی کرے ہم بھی نظر ثانی کریں گے اس طرح کے بیانا ت پہلے بھی آئے ہیں مگر عین موقع پر کچھ اور ہی ہو جاتا ہے۔ جمعیت علماء اسلام نظریاتی اور دیگر علماء کرام کے نظر میں طالبان دو طرح کے ہیں ایک افغانی طالبان جو افغانستان میں نیٹو سے جنگ میں مصروف ہیں جن کی سربراہی ملا محمد عمر (جسے امیر المومنین بھی کہتے ہیں ) کر رہے ہیں جو راہ راست پر بھی ہیں اور جہاد ی بھی ہیں۔ اور دوسری طالبان پاکستان تحریک طالبان ہیں جن کے نظریے کے ساتھ ان کا اختلاف ہے کہ یہ غلط راستے پر ہیں او ر امریکی ایجنٹ ہیں۔

Pakistan Tehreek-e-Taliban

Pakistan Tehreek-e-Taliban

تحریک طالبان پاکستان یا کالعدم تحریک طالبان ایک تنظیم ہے جو پاکستان میں خود کش حملوں اور دیگر جراہم میں ملوث ہے۔ پاکستان میں سر گرم کئی تنظیمیں طالبان کی نام استعمال کرتی ہیں ۔جو خود کش حملوں اور مسلح لڑائیوں میں ملوث بتائی جاتی ہیں۔ ان میں شدید نوعیت کے اختلافات بھی موجود ہیں اور یہ سب کئی گروپوں میں منقسم ہیں تاہم تحریک طالبان پاکستان کے راہنماء افغان طالبان کے ہاتھ پر بیت کیئے ہوئے ہیں اور معتد حلقوں کی اپیل کے باوجود ملا محمد عمر نے ان کی مذمت یا ان سے لا تعلقی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان سے لیکر افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔پاکستانی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کو 34 تنظیموں میں تقسیم کیا گیا ہے ان تمام تنظیموں کو دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ ان میں کئی جرائم پیشہ گروہ بھی شامل ہیں جو طالبان کے کانام استعمال کر تے ہیں۔ ان جرائم پیشہ گروپوں کی آپس میں لڑائیاں اُ س پیسے کی تقسیم پر ہوتی ہے جو انہیں بیرونی طاقتیں مہیا کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ طالبان کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ گروپوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ امریکہ اور برطانوی آلہ کار ہیں۔ جولائی 2009ء میں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے طالبان ( جن میں افغانی طالبان بھی شامل ہیں ) سے بھارتی کرنسی و اسلحہ کے علاوہ امریکہ کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے ہیں۔ اگرچہ بظاہر امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حیران کن طریقہ پر پاک فوج کے وزیرستان آپریشن کے شروع پوتے ہیں نیٹو فورسز نے افغانستان کی طرف جو چوکیاں یکدم خالی کر دیں حالانکہ وہاں سے افغانستان وزیرستان میں آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں وزیر داخلہ رحمن ملک مطابق اس پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا ہے۔

دنیا جن کو آج طالبان کے نام سے جانتی ہے وہ تمام صرف مدرسہ کی معصوم طلباء نہیں بلکہ ان میں جرائم پیشہ، قاتل، ڈاکوں وغیرہ شامل ہو کر طالبان کی نام پر اپنے مقاصد حاصل کر کے پوری دنیا کو غلط فہمی کی شکار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ طالبان کی تحریک کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات ہیں لیکن اس مین کوئی شک نہیں کہ اسامہ بن لادن اور طالبان دونوں کو امریکی سی آئی اے نے پاکستانی جاسوسی ادارے کی مدد سے تخلیق کیا۔ اس وقت امریکی دانشوروں ،مثلاََ سلگ ہیریسن نے امریکی حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ہم ایک درندہ پیدا کرنے جار ہے ہیں۔ طالبان صرف مدرسے کے طالبان نہیں بلکہ جاسوسی اداروں کے تنخواہ دار ہیں۔

Terrorism

Terrorism

انہوں نے دہشت گردی کو زریعہ معاش بنا لیا ہے۔ آج یہ تصور پیش کیا جا رہا ہے کہ پاکستان نے طالبان پیدا کیے اور سی آئی اے نے صرف مدد کی مگر حقیقت یہ ہے کہ نیٹو (NATO) نے پاکستان سے بھی زیادہ براہراست کردار ادا کیا ہے یہاں تک کہ طالبان کے پہاڑوں میں خفیہ اڈے تک سی آئی اے نے براہراست خود بنائے۔ 1998ء میں افغانستان میں طالبان کی شروعات ہوئی جس کے لئے پیسہ امریکہ ، برطانیہ، سعودی عرب نے فراہم کی کیا درحقیقت پاکستان نے امریکہ کے لئے کام کیا۔

امریکہ کے ایک ڈیلومیٹ و سینٹر ہینک براأن نے طالبان حکومت کے قیام پر کہا کہ ہم افغانستان میں سعودی عرب کی طرز کی ریاست کے قیام پر خوش ہیں۔ یہاں صرف آرامکو(امریکی تیل کمپنی)، بغیر پارلیمنٹ کے ایک امیر، پائپ لائنیں اور بہت سے شریعت کے قوانین ہونگے اور یہ ہمارے (امریکیوں کے ) لئے بہت مناسب ہے۔ فرق یہ کہ تیل و سطی ایشیاکا اور پائپ لائنیں افغانستان میں ہونگی۔ طالبان سے امریکہ کے محبت بھرے تعلقات اس وقت تک عروج پر رہے جب تک اسامہ بن لادن کے مسئلے پر طالبان نے امریکہ کی بات ماننے سے انکار کیا۔ حقیقتاََ امریکی اسامہ بن لادن کو گرفتار نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ اس کے بہانے افغانستان میں گھسنہ چاہتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ کے خیال میں طالبان اب پہلے جیسے فائدہ مند نہ رہے تھے۔ پاکستانی پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک سعودہ ادارہ نے تحریک طالبان کو 15 ملین امریکی ڈالر دیئے ہیں جسے پاکستان مین دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جائیگا ۔ اب پنجاب کے کئی شہروں کا نشانہ بنا یا جائیگا۔

تحریک طالبان کے مختلف گروہ:
طالبان کے بے شمار گروپ ہیں جن میں غیر ملکی امداد کی تقسیم پر لڑائی جھگڑا رہتا ہے ۔مگر بنیاد ی طور پر بیشتر گروہ مسعود گروہ کی چھتری کے نیچے جمع ہو چکے ہیں کن کی ایک 42 رکنی شوریٰ موجود ہے جو فیصلہ کا اختیار رکھتی ہے۔ ان گروپو ں میں سے کچھ زیادہ مشہور ہیں جیسے بیت اللہ مسعود گروپ۔

تحریک طالبان پاکستان اور تحریک الاسلامی طالبان:
تحریک طالبان پاکستان اور تحریک الاسلامی القاعدہ کے آپس میں بھی تعلقات ہیں اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں افغانستان کی جہادی تنظیموں کا ایک اجلاس ہوا جس میں پاکستان کے خلاف معرکہ خبر و شر (بقول ان کے) شروع کرنے کا فیصلہ ہو ا اور یہ فیصلہ ہوا کہ افغانی طالبان کو ایک پاکستانی طالبان کی مدد کے لئے پاکستان بھیجا جائے گا۔ افغانستان کے تمام کمانڈروں نے حکیم اللہ مسعود کو پاکستانی طالبان کا امیر تسلیم کر لیا ہے اور اس کے امارت میں جہاد (بقول ان کے ) جاری رکھا جائیگا۔

افغان طالبان ملا طور کے مطابق افغانی طالبان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے بے گناہ لوگوں کوفدائی حملوں اور دھماکوں میں نشانہ بنانا غلط ہے۔ افغان طالبان صرف نیٹو اور امریکی افواج کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب جبکہ تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ان کو امریکہ، اسرائیل، بھارت سے امداد فراہم ہوتا ہے تو پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان ختم کرنے کے لئے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی گریبان کو پکڑنا چاہیے تاکہ ان کی امداد ختم ہو جائے اور یہ پاکستان نقصان پہنچانے میں پیچھے چلے جائیں۔

پاکستان ہزار بار ان طالبان سے مذاکرات کرے مگر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے کیونکہ ان طالبان کی کمانڈ امریکہ و بھارت اور اسرائیل سے ہوتا ہے۔ حکومت خود بھی تسلیم کرتی ہے کہ ان کو امداد ملتا ہے۔ تو دیر کس بات کی ہے بند کر دو تمام غیر ملکی این جی اوز جن کی آڑ میں ان طالبان تک مال پانی پہنچتا ہے بند ہو جائیگا۔ یہ بھوکے مر جائیں گے اور طالبان ختم۔ اور پاکستان کی دفاع اس میں ہے کہ پاکستان میں طالبان کی مقصد مطلب شریعت نافذ کیا جائے تاکہ پاکستان مدینہ ثانی بن جائے ورنہ طالبان جیسے بہت سے تنظیم بنیں گے اور ملک کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔

Asif Yaseen

Asif Yaseen

کالم نگار: آصف لانگو