چائے: تاریخ، فضائل اور کرشمے

Tea

Tea

تحریر: عمار راجپوت
چائے کا استعمال جڑی بوٹیوں سے بنی دوا کہ طور پر پہلی بار آج سے قریبا پچاس ہزار سال قبل چینی اطباءکی دریافت سے ہوا اور پھر سولوی صدی میں مشروب کہ طور پر برطانیہ میں اس کا رواج عام ہوا جسے بعد ازاں برطانوی سامراج نے ہی برصغیر میں متعارف کروایا تھا۔ اور آج کے دور میں بلخصوص پاک و ہند اور بالعموم پوری دنیا میں شاید ہی کوءایسا شخص ملے جو اس مشروب کہ نام اور پہچان سے ناواقف ہو۔

چائے بنانا اور پینا تو سبھی کو آتی ہوگی مگر اس میں زندگی کا رنگ بھر کر حقیقی لطف سے آشناءحاصل کرنا صرف صاحب ذوق لوگوں ہی کا کام ہے۔ جس طرح حسن شے میں نہیں دیکھنے والے کی آنکھوں میں ہوتا ہے بلکل اسی طرح چائے کا اصل لطف ہونٹوں سے لگانے اور چسکی بھرنے کے انداز میں ہوتا ہے۔ جو نازک مزاج نازنینوں میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے، انہیں چائے پیتے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کے قوس وقزح سے عبارت ہونٹوں کہ بیچ لگتا چائے کا کپ دراصل کسی میخانے کا پیمانہ ہے۔ تنہائی کے وقت ساتھ نبھانے والے انمول دوستوں میں ایک نام چائے کا بھی ہے اور چائے کو دوست لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ چائے ایک جاندار چیز ہے۔ اس کا صرف ایک کپ بے رنگ زندگی کا خاکہ رنگین کرنے کہ لیے کافی و شافی ہے۔

Tea in Office

Tea in Office

ارتقائی گھوڑا کس قدر سرپٹ دوڑ رہا ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ملک عزیز پاکستان میں چائے مشروب سے رشوت تک ایک مشکل اور ناممکن سفر با آسانی طے کر گئی ہے۔ جس کا مشاہدہ آپ اپنی آنکھوں سے کسی بھی دن دفتری اوقات میں کسی سرکاری محکمہ میں جا کر کر سکتے ہیں، خاص کر کچہریوں اور تھانوں میں تو یہ رسم خاصی عام ہے۔ جس طرح افسران بالا ئی کھلے دل سے چائے سے اپنے مطلب و منشاء کے مطابق مختلف النوع فوائد حاصل کرتے ہیں بلکل اسی طرح شعراءاکرام نے بھی اس مشروب کو اپنا خاص موضع سخن بنایا ہے۔ اب تک شاعری کی ایک کثیر حصہ اس مشروب کہ بطن سے اخذ کیا جا چکا ہے۔ اور اہل سخن کے ہاں اب بھی یہ موضوع ایک تروتازہ گلاب کی مانند ہے۔

فضائل کے باب میں دنیا کی چند نامور شخصیات کہ قول و آراءذیل میں اختصار کے ساتھ ذکر کر رہا ہوں۔۔۔ گریٹ گرانڈ ماجول (جس نے ایک سو آٹھ برس عمر پائی) کا کہنا تھا کہ چائے کا ایک کپ ہی اصل زندگی ہے۔ اور شاید اس کے اسی یقین نے اسے ایک صدی سے بھی زائد عرصے تک زندہ رکھا۔ الیگزینڈرا اسٹوڈارڈ کا ماننا تھا کہ چائے کا ہنر ایک روحانی عمل ہے۔ مجھ جیسا کم عمر اور ناتجربہ کار طالب علم جب اس بات کی صداقت کو چائے کی گھونٹوں میں محسوس کرتا ہے تو صاحب ذوق اور بڑی عمر کہ لوگوں کہ پاس تو اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش بنتی دیکھائی نہیں دیتی۔ سر آرتھر پینرو کا کہنا تھا کہ جہاں چائے نہیں وہاں امیدیں نہیں۔ سر کے اس کہنے سے اگر مکمل اتفاق نا کیا جائے تو کوئی بات نہیں مگر یہ ایک مسلمہ سچائی اور حقیقت ہے کہ چائے کا امیدوں کے ساتھ ضرور کوئی گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔ اس کی مثال آپ گھر میں کام کرتی خواتین یا پھر باھر کام کرتے مردوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ تھک کر بیٹھ جانے کہ بعد چائے کا ایک عدد کپ کیسے ان میں ایک نئی تندرست و تواناءروح پھونک دیتا ہے جس سے ہر دو خواتین و خضرات ایک بار پھر سے تازہ دم ہو کر اپنے فرض کی انجام دہی میں جت جاتے ہیں۔

Modi

Modi

چائے کی وجہ سے شہرت اور عزت پانے والوں میں کل تک تو صرف بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا ہی نام تھا مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کہ پاس کوئی ایسا منفرد اعزاز ہو جو مملکت خداداد پاکستان کے پاس نا ہو۔۔۔ ؟ چائے کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے والوں کی فہرست میں تازہ اضافہ ایک پاکستانی کے نام سے ہوا ہے جس کی بھورے رنگ کی نشیلی آکھیوں والی تصویر نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا رکھی ہے۔ اور اسے چند ہی گھنٹوں میں بیس لاکھ مرتبہ دیکھا گیا۔ چائے کی وجہ سے مشہور ہونے والے بھارتی وزیراعظم شہرت تو لے گئے مگر عزت نا سنبھال سکے، اور اس مقام پر آکر بڑے بڑوں کے قدم ڈول جاتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بے ڈھنگی اور لولی لنگڑی الزام تراشیاں نریندرمودی صاحب کا خاصا اور پہچان بن چکی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عہدہ بدل بھی جائے تو فطرت اور عادت نہیں بدلتی، جس طرح ممبئی میں عام چائے کے ڈھابے والا تندوری کہ سامنے کھڑا چائے پھینٹتے ہوئے ملکی حالات پر دل کھول کر تبصرہ کرتا ہے بلکل اسی طرح نریندرمودی صاحب بھی اپنے بھارتی وزیراعظم ہاو ¿س میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف نت نئی الزام تاراشیوں کی جگالی کر رہے ہوتے ہیں۔

آخر میں خوامخواہ جو مودی صاحب کی عزت افزائی کی گئی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ محبت اور نفرت پوری ایمانداری سے کرتے ہیں۔ اور اس کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بقول شاعر
محبت ہو کہ نفرت ہو بھرا رہتا ہوں شدت سے
جدھر سے آئے یہ دریا ادھر ہی موڑ دیتا ہوں
نوٹ: چائے کی تاریخ کے حوالے سے اعداد و شمار کسی مستند کتاب سے نہیں انٹرنیٹ سے لئے گئے ہیں۔ جن کا صیحح اور مکمل درست ہونا یقینی نہیں۔

تحریر: عمار راجپوت