اساتذہ کی استاذہ فرحت ھاشمی صاحبہ

Farhat Hashmi

Farhat Hashmi

تحریر : شاہ بانو میر

استاذہ فرحت ھاشمی صاحبہ کی آڈیو سن رہی تھی ان کی ایک منفرد عادت یہ ہے کہ وہ کبھی سبق میں
آپ کو بہت دور تک نہیں لے جاتیں کہ اصل مقصد گُم ہو جائے
آیات کے قریب قریب ہی رکھتی ہیں
یہی وجہ ہے
کہ
الحمد للہ ان کو سن کر بات کی تہ تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے
آج
کچھ آیات تھیں
کہ
بنی اسرائیل نے کتاب پس پشت ڈال دی یعنی اس کے ہوتے ہوئے بھی اس سے پہلو تہی کی
کتاب میں تحریف کر دی اور دین سے دور دنیا کو نفسوں پر حاوی کر لیا
انہوں نے اپنی کتاب تورٰت کو نظر انداز کر دیا اور ذلت میں ڈوب گئے
استاذہ ان آیات کو تفسیر میں بیان کرتے ہوئے بہت غمزدہ اداس سنائی دے رہی تھیں
ورنہ عام طور سے ان کے مخصوص لہجے سے ان کی اندرونی کیفیت کبھی نہیں چھلکتی
آج امت کا درد ہی درد تھا فرما رہی تھیں
کہ
آج وہی دور اور ویسا ہی ماحول ہمارے ارد گرد بھی ہے
ہم نے اس کتاب(قرآن) کو بنی اسرائیل کی طرح نظر انداز نہیں کیا
بلکہ ضرورت سے زیادہ ہی تعظیم دے کر بلندی پر رکھ دیا
کہ
پکڑنا مشکل
لہٰذا
زندگی اس کے بغیر گزارنے کے عادی ہو گئے
قرآن پاک جو ہمارے سامنے ہر وقت ہونا چاہیے تھا
تا کہ
جب جب دن میں ضرورت محسوس کریں ہم اسے کھول کر اس سے رہنمائی لیں
مگر
ہم نے اس کے برعکس ہر دنیاوی علم کی کتاب امتحان ٹیسٹ کے خوف سے آنکھوں کے سامنے رکھی
اور
اس کتاب کو بہت دور سنبھال دیا کہ اس کی بے حرمتی نہ ہو
یہ سب بیان کرتے ہوئے آج کچھ الگ سا درد اور تڑپ تھی استاذہ کی آواز میں
امت کو جیسے جھنجھوڑ رہی ہوں
کہ
اٹھو
جاگو
آج پرسکون ٹھہری ہوئی آواز میں متلاطم سمندر جوش مار رہا تھا
جو ان کا انداز نہیں ہے امت کا دکھ اور درد جیسےحدیں توڑ رہا ہو
وہ تڑپ مجھے اپنے دل میں محسوس ہوئی جو آواز میں موجزن تھی
استاذہ فرحت ھاشمی صاحبہ کی شخصیت ہمہ جہت خوبیوں کا مرقع ہے
اب جب ان کو سننا شروع کیا اور کچھ نہ کچھ تلاش کرنے کیلئے ویب پر سرچ کریں
تو حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹتا ہے
ایک مجاھدہ کا ایک کوہکن کا تاثر ابھرتا ہے
رہبر رہنما ماں استاد داعی دین کیا کیا کہوں؟
اتنا علمی ذخیرہ کامیاب دینی ادارہ اس کا جامع نظام
اتنی آڈیوز اللہ اکبر
بطور خاتون جو ہر رشتے سے منسلک ہیں
اتنی محنت ایسا کام کیسے ممکن ہے؟؟
خواتین میں ایسا جامع ایسا علمی ذخیرہ کہاں کبھی دیکھنے کو ملا تھا
ان کی ویب کیا ہے طلسم حیرت کدہ ہے
علم ہی علم
خزانہ بے بہا
جس کا جتنا حوصلہ ہو وہ لے جائے کوئی پابندی نہیں کوئی قید نہیں
سنو اور سنواؤ
پڑھو اور پڑھواؤ
بے خوف علمی سوچ
بہت سے لوگوں کو سنا پڑھا
مگر ایک حد فاصل ہمیشہ سامنے دکھائی دی
کہ سنانے والا صرف سننے پر مُصر ہے
جبکہ یہاں پہلی بار ایک ہی اصرار ہر آڈیو میں کہ بات غور سے سنو اور پھر سوال کرو
تا کہ ذہن سازی ہو جھجھک ختم ہو اور یہاں سے سن کر علم کو آگے پہنچاؤ
ایسی وسیع النظری ایسی تحریک کب کہاں رواج پا سکی اس ملک میں؟
مجھے استاذہ کی لائیو کلاس لینے کا شرف ملا
وہاں جو ماحول تھا
اللہ اکبر
ہر عمر کی بچیاں بڑی خواتین حتیٰ کہ استاذہ کی والدہ مرحومہ بھی وہاں موجود تھیں
وہاں عمر چہروں سے ظاہر ہو رہی تھی مگر مبالغہ آرائی نہ ہو تو لکھنا چاہوں گی
کہ
سوال کرتے ہوئے ذہنی لیول اور پختگی مجھے ایک جیسی محسوس ہوئی
یہ کچھ الگ سا تجربہ تھا کچھ الگ سا احساس
میں اسے کچھ نام نہیں دے سکی تھی
ایسی جرآت بالعموم اسلامی مدارس میں یا درس و تدریس میں نہیں دیکھی تھی جو یہاں دیکھ رہی تھی
کلاس کے بعد کچھ اسٹوڈنٹس سے بات ہوئی جو ہاسٹل رہتی تھیں
ان کےا نداز سے کہیں مجھے احساس محرومی کا شائبہ نہیں ملا
وہ وہاں رہتی تھیں اور بہت خوش مطمئین تھیں
تب مجھے سمجھ آئی کہ اکثر دینی اداروں کی طرح یہاں کا نظام قدرے مختلف ایسے ہے
کہ
اس ادارے کے پیچھے ایک حساس دل ایک درد مند سوچ دین کیلئے مضطرب دل ہے
معروف نامور ادارے تو بہت ہیں مگر اس ادارے میں اسلام کیلئے ایک حقیقی اور ممتا بھری محبت ہے
جس کا بس نہیں چل رہا کہ
وطن عزیز کی درسگاہوں میں قرآن کی تعلیم سے محروم نصاب کو
درست انداز میں رائج کروا کے امت مرحومہ میں نئی تڑپ والی روح پیدا کر دیں
ہمارے سکول اور کالج اور دیگر تعلیمی ادارے وہاں اس علم کا اور عالموں کا فقدان ہے
ایسے اساتذہ کرام کا جو دینی تعلیم خصوصا قرآن مجید لفظی ترجمے سے اور با محاورہ پڑھا سکیں
کیوں؟
عوام الناس تک یہ سوچ یہ احساس بھیجا ہی نہیں گیا
کہ
ان کیلئے دنیا کے علوم بے شک ضروری ہیں مگر بعد از قرآن
نتیجہ دنیاوی علوم کی ایسی بھاگ دوڑ میں لوگ بھاگے کہ اپنے اصل کو کھو بیٹھے
مستند دینی استاد ناپید ہو گئے اور قرآن اور اس کا علم محدود رہ گیا
کہنے کو پہلی جماعت سے ہی اسلامیات پڑہائی جاتی ہے
مگر
اسے پڑہانے والے خود اس درد سے تڑپ سے احساس سے عاری ہوتے ہیں
جس سے استاد کسی طالبعلم کو عام سے خاص بندہ مومن بناتے ہیں
بے رغبتی اور قرآن سے دوری نے آج معاشرے کو تنزلی کی جانب روانہ کر دیا
امت کی خستہ حالی اور قوم کے دینی ضعف پر وطن عزیز میں اللہ رب العزت نے استاذہ کی صورت کرم کیا
اسلام کو ہر زاویے سے اس خوبصورتی سے تحقیق سے زیر زبر پیش سے لے کر حروف تک
جملوں سے پہرہ گراف اور پھر متن
الغرض
علم کا یہ انمول خزانہ چمک دمک کے ساتھ آگے اور آگے لے کر چلتا ہی جاتا ہے
نعمتِ خُداوندی
استاد تو اللہ کا تحفہ ہے
مگر
استاذہ جیسی استاذہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں
پُرسکون منور روشن پُرنور رُخِ روشن جسے حجاب میں ہی رہنا چاہیے
اللہ کی محبت کا سچا روپ دمکتا ہے ایسے چہرے پر نگاہ نہیں ٹِکتی
ہر وقت ذکر الہیٰ ذکرِ نبیﷺ
نہ کسی سے بغض نہ کسی سے کوئی حسد نہ کسی سے کوئی غرض
ہم کوئی کام کرتے ہیں تو اپنی ناکامی کو دوسروں پر ڈالتے ہیں
ناکام لوگوں کی کامیاب کوشش یہی ہے
مگر
جب نام اس ذات مبارک کا ہو تو کام واقعی مشکل تو ہے مگر جو اس نام کو اس کے پیغام کو زندگی دے دیں
وہ
اس کی روح کو پا جاتے ہیں اور پھر آگے کا سفر تو وہ سچا رب خود بخود ہی آسان کرتا چلا جاتا ہے
بندے کا اخلاص اللہ تلاش کرتا ہے اور استاذہ کے خلوص ان کے کام کی بہتات سے ہر ذی فہم جان سکتا ہے
استاذہ فرحت ھاشمی صاحبہ کی لیکچرز میں بھی ایک ہی پکار سنتی ہوں
پھیل جاؤ پھیلاؤ پہنچاؤ بتاؤ
سنو سنواؤ
اتنا کام اتنی محنت اتنا لگاؤ
استاذہ !! میرے پاس وہ الفاظ ہیں ہی نہیں جو آپ کے کام کو آپ کی خدمات کو بیان کر سکیں
صرف
یہ کہ سکتی ہوں کہ بہت سے مُردہ ذہنی سوتے آپ نے زندہ کر دیے
ڈاکٹر فرحت ھاشمی
تاریخ سب کو نہیں بناتی
مگر
ڈاکٹر فرحت ھاشمی کو سن کر اسلام زندگی میں لا کر اپنی درستگی کی کوشش ہر عورت کر سکتی ہے
اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے
آج کی لڑکی کل کی ماں کو اعتماد کی بے بہا دولت ایمان کی صورت عطا کرنے کیلئے
علمائے اکرام کے ہوتے ہوئے ایک خاتون کا پوری دنیا میں اسلام کو اس کی سنجیدگی اور وقار کے ساتھ پھیلانا
صرف اور صرف اللہ کی خاص رحمت کا ثبوت ہے
یورپ ہے یا امریکہ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں استاذہ کی شاگرد موجود نہ ہوں
ایک بار کوئی عالمہ تھیں تو کسی نے کہا کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ سے منسلک ہیں
تو ان کی ایک شاگرد نے نفی میں فورا جواب دیا
کہ ہماری استاذہ کا انداز ایسا نہیں ہے
اور
واقعی وہ ٹھیک کہ رہی تھیں
یہ ہے وہ معیار جو کہیں بھی ان سے پڑھنے والے علم لینے والے بھانپ لیتے ہیں
دیار ِغیر میں رہنے والوں کے گھروں کی درستگی اور اسلام سے رہنمائی استاذہ کا بہت بڑا احسان ہے
نسلوں کو تباہی سے بچانے کیلئے ہر ماں کی فکر کو وہ راہ دکھائی جس نے ہدایت تک رسائی دی
اللہ پاک کا یہ انعام ہے ہمارے لئے کہ اس نے آپ کو چنا اور ہم سب کو دیارِ غیر میں آپکی وساطت سے رہنمائی ملی
استاذہ
آپ کی دینی خدمات بلاشبہ لاجواب ہیں مگر آپکی عاجزی آپکی سادگی کا کوئی جواب ہی نہیں
بے شعور کم علم انسان اِک ذرا سا کام کر کے تکبر کے آسمانوں پر اڑتا ہے
اور
آپ سے ہمیشہ انکساری سے عاجزی سے یہی سنا
میں تو کچھ نہیں ہوں یہ سب میرے اللہ نے کروا لیا
اب جو چاہے جیسے چاہے استفادہ حاصل کرے
استاذہ
آپ کی عمر بھر کی ریاضت انشاءاللہ رائیگاں نہیں جائے گی
آپ کی”” پکار”” خواتین میں دینی شعور پہنچا رہی ہے
اور
اس کتاب کو جس کے اوراق ہم سب نے سمیٹتے سمیٹتے بکھیر دیے
اور
اپنی زندگی کو بے ربط کر لیا” اب” انشاءاللہ ان اوراق کوپھر سے مرتب کرنا ہے
امت کو پھر سے جوڑنا ہے اور یہ کام آپ کے ساتھ مل کر ہم سب کو کرنا ہے
اللہ پاک آپ کے علم سے رہتی دنیا تک ہم سب کو مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے
انشاءاللہ
میرے سامنے جو کتاب ہے وہ بکھر گئی ہے ورق ورق
ہمیں اپنے حصے کے نصاب کو جوڑنا ہے سبق سبق

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر