دہشت گردی کیخلاف سب کو ٹھوس اور مشترکہ کوششیں کرنا ہو گی

Terrorism

Terrorism

تحریر: سید توقیر زیدی
افغان صدر پاکستان کیساتھ کشیدگی نہیں’ مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔کابل میں پاور سٹیشن کی تعمیر کیخلاف ہزارہ برادری کے احتجاجی مظاہرے کے دوران یکے بعد دیگرے دو خودکش حملوں میں 80 افراد ہلاک اور 231 زخمی ہو گئے۔ داعش نے دونوں بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔ طالبان نے ان دھماکوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے دھماکوں کی مذمت اور جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف سب کو ٹھوس اور مشترکہ کوششیں کرنا ہونگی، دہشت گردی ہم سب کی مشترکہ دشمن ہے’ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے افغان حکومت کی مدد کیلئے ہمیشہ تیار ہیں۔ دریں اثناء افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے الزام عائد کیا ہے کہ طالبان کے کوئٹہ میں دفاتر ہیں جہاں و ہ کھلم کھلا بھرتیاں کر رہے ہیں، اگر کسی کو نہیں پتہ تو میں ان کا پتہ بتا دیتا ہوں۔

دہشتگردی پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ دشمن ہے۔ دہشتگردی نے نہ صرف دونوں ممالک کا امن داو پر لگا رکھا ہے بلکہ خطہ بھی عدم استحکام سے دو چار ہے۔ معروضی حالات اور موجودہ سرحدی صورتحال کے باعث پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی مدد کے بغیر اپنے اپنے ہاں امن قائم نہیں کر سکتے۔ خطے میں استحکام کیلئے دونوں ممالک کا قریبی تعاون ناگزیر ہے۔ دونوں کو غلط فہمیاں دور کر کے اعتماد کی فضاء بحال کرنا ہو گی۔ اس کے علاوہ پاک افغان بارڈر سیل کرنے سے پاکستان میں امن کے قیام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور اس اقدام سے افغانستان کو پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی شکایت بھی دور ہو جائے گی۔

افغانستان میں اقتدار سے محروم ہونیوالے طالبان امریکہ، اس کے اتحادیوں کے مفادات اور ان کی کٹھ پتلی حکومتوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ طالبان کو اقتدار سے محروم کرنے اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں فوجی آمر نے پاکستان کی سرزمین اور وسائل ایک دھمکی آمیز کال پر امریکہ کو پیش کر دیئے۔ پاکستان کو یہ تعاون مہنگا تو پڑا ہی ساتھ پرامن پاکستان دہشتگردی کا ایسا شکار ہوا کہ اس سے نجات کیلئے ایک طویل جدوجہد درپیش ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج افغانستان میں حامد کرزئی کے جاں نشیں اشرف غنی صاحب اقتدار ہیں تو اس میں پاکستان کا بھی اہم کردار ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد حامد کرزئی پاکستان کے احسانات فراموش کر کے پاکستان کے خلاف بھارت کی زبان استعمال کرتے رہے، اس حوالے سے اشرف غنی حامد کرزئی کے ”سچے” جاں نشیں ثابت ہوئے ہیں۔ اشرف غنی فرماتے ہیں کہ بھارت ان کا تاریخی دوست ہے جو افغانستان میں ڈیم بنا رہا ہے اشرف غنی بتائیں کہ ڈیم بنانے کیلئے افغانستان میں ڈیڑھ درجن قونصل خانوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ سفارتی پروٹوکول کے مطابق کیا بھارت میں بھی افغانستان کے اتنے ہی سفارتی دفاتر موجود ہیں؟

Ashraf Ghani

Ashraf Ghani

پاکستان بدترین دہشتگردی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ دہشتگرد پاکستان میں واردات کر کے ملک کے کسی حصے میں بیٹھ کر ذمہ داری قبول کر لیتے تھے۔ ان کے خلاف آج بھی اپریشن ضرب عضب شد و مد سے جاری ہے۔ افغانستان کو مطلوب دہشتگرد اگر پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں تو ان کے خلاف اپریشن بھی جاری ہے۔ افغانستان میں چھپے دہشتگرد بھی پاکستان میں حملے کراتے اور ان کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ افغان حکومت ان کے خلاف کارروائی اور امریکہ ڈرون حملے کرے تو ان کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو مطلوب دہشتگرد افغان انتظامیہ کی پناہ میں ہیں۔

امریکہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پاک افغان بارڈر کے قریب دونوں طرف دہشتگردوں کے ٹھکانے ہیں۔ پاکستان تو ان ٹھکانوں کو تباہ کر رہا ہے جبکہ افغانستان میں پاکستان کو مطلوب دہشتگردوں کے ٹھکانے مضبوط ہو رہے ہیں۔ ان دہشتگردوں کو جب افغان انٹیلی جنس چاہتی ہے بارڈر کراس دیتی ہے۔

پاکستان کی طرف سے ”را” کے پاکستان میں مداخلت کے ثبوت امریکہ اور اقوام متحدہ تک پہنچا دیئے گئے مگر اشرف غنی تک نہیں پہنچے۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو سکتا ہے۔ میں نہ مانوں، اسی کو کہتے ہیں۔ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دودل اعتراف کر چکے ہیں کہ کشمیر کا بدلہ بلوچستان میں چکا رہے ہیں تو بھارت بلوچستان میں اڑ کر پہنچ جاتا ہے۔ بھارتی جاسوسوں کے افغانستان کے راستے پاکستان داخل ہونے کے شواہد دنیا کے سامنے رکھے جا چکے ہیں۔ وہ بھی شاید اشرف غنی نے ملاحظہ نہیں کئے۔ بلاشبہ جہادی رہنما?ں کی مہمان نوازی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ افغانستان میں تخریبی کارروائیاں کریں۔ پاکستان میں تیس لاکھ افغان مہاجر ین میں سے کئی ”را” افغان انٹیلی جنس کے ایجنٹ کا کام کرتے ہیں بہتر نہیں کہ جہادی رہنماوں اور تمام مہاجرین کو اشرف غنی واپس اپنے ملک لے جائیں تاکہ دونوں ممالک کو ان کے تخریب کاری میں ملوث ہونے کی شکایت نہ رہے۔

کوئٹہ میں کبھی طالبان کی مجلس شوری کی موجودگی کی بات کی جاتی تھی، اب اشرف غنی کہتے ہیں کوئٹہ میں طالبان کھلم کھلا بھرتیاں کر رہے ہیں، انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ پتہ بتانے کو بھی تیار ہیں۔ پاکستان کے ذمہ داران صدر اشرف غنی سے رابطہ کر کے ایسی بھرتیوں کے خلاف ایکشن لیں۔ اشرف غنی نے ملا منصور کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا جواب بھی دیا جانا چاہیے۔ اس کیلئے دونوں ممالک کے متعلقہ حکام کو مل بیٹھنا ہو گا جس سے اشرف غنی یہ کہہ کر انکار کر رہے ہیں کہ پاکستان پہلے افغانستان کو مطلوب دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم کرے۔ حالانکہ ایسے دہشتگردوں کی پاکستان کو بھی تلاش ہے۔

Pakistan

Pakistan

کوئٹہ میں طالبان کی اگر بھرتیاں ہو رہی ہیں تو ضروری نہیں اس میں پاکستان کے ادارے بھی ملوث ہیں۔ پاکستان میں تو داعش کیلئے بھی خفیہ طریقے سے بھرتیاں ہوتی رہی ہیں۔ البتہ پاکستان سے ایسے بھرتی ہونیوالے لوگوں کو افغانستان میںداخل ہونے سے پاک افغان بارڈر سیل کر کے روکا جا سکتا ہے۔ اشرف غنی ”را” کی پاکستان میں مداخلت سے انکار کر رہے ہیں وہ بتائیں کہ وہ کس کے ایما پر انٹری پوائنٹس پر گیٹ لگانے کی مخالفت کر رہے ہیں؟ وہ کس کیلئے پاکستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری کرنے کے دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔؟

افغانستان اور امریکہ سے طالبان کا مقابلہ نہیں ہو پا رہا، اب وہاں داعش نے بھی قدم جما لئے ہیں۔ داعش کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاعات بھی ہیں مگر افغانستان میں اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ نہ صرف دہشتگردی کی منظم اور تباہ کن کارروائیاں کر رہی ہے بلکہ اس نے افغان انتظامیہ اور طالبان کے کئی مقبوضہ علاقوں پر بھی اپنا تسلط جما لیا ہے۔ ان حالات میں افغانستان کو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھانے کے بجائے قریب آنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے درست کہا ہے کہ دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے ہمیشہ افغانستان کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ صدر اشرف حالات کی نزاکت کو سمجھیںبلاوجہ بھارت کی حمایت نہ کریں، حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے مابین پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کریں۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر: سید توقیر زیدی