دہشت گردی کا نظریہ ساز

Terrorism

Terrorism

تحریر : قادر خان افغان
دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک ان خصوصی کرداروں کو شناخت کرکے ان کے خلاف عملی کاروائیاں عمل میں نہ لائی جائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی کا نظریہ ساز، بھارت ہے ، لیکن اس کا مکروہ چہرہ افشا کرنے کیلئے پاکستان نے اہم مواقعوں پر سستی کا مظاہرہ کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کے خلاف بھارت سرگرم عمل ہے ، لیکن را کی ایجنٹوں کو بلوچستان اور کراچی میں پکڑنے کے باوجود ریاست نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا ، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت کے رابطہ کار بڑی تعداد پاکستان مین موجود ہیں، لیکن کئی نیٹ ورک توڑنے کے باوجود بھی مرکزی نیٹ ورک کی جانب ہماری ریاست کے قدم رک جاتے ہیں اور وہی نیٹ ورک تباہی کا راستہ بناتا ہے ، دہشت گردی اور انتہا پسندوں کی ماہرین کی مختلف ٹیمیں پاکستان میں کبھی بھارت ، کبھی اسرائیل ، کبھی امریکہ ، کبھی افغانستان کی صورت میں پاکستان میں موجود ہیں اور اپنے نیٹ ورک پر کام کر رہے ہیں ۔ان کے مراکز کی نشان دہی بھی ہم سے کبھی پوشیدہ نہیں رہی ہے لیکن ریاست کی جانب سے مصلحت آڑے آجاتی ہے۔

عوام کے اذہان کو متاثر کرنے کیلئے مقامی مبلغین اور نام نہاد رہنما ان دہشت گردی کی کاروائیوں میں ان کے معاون بن جاتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ان کے معاون بھارت و دیگر پاکستان دشمن ممالک ہیں ، اپنی دہشت گردی کے واقعات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ان کے پاس مقامی ممبران کی کمی نہیں ہے ، کراچی سے کوئٹہ ، کراچی سے خیبر ، ہمیں ہزاروں کی تعداد میں مقامی ممبران ان کے سہولت کار کی صورت میں مل جاتے ہیں، دہشت گردی کے لئے ایندھن ہمارے ہی لوگ فراہم کرتے ہیں ، بھارت اس سلسلے میں معاونت کرتا ہے ، افغانستان محفوظ پناہ گاہ دیتا ہے اور عسکری افواج کی جانب سے کئے جانے والے تمام آپریشنز پر سوالیہ نشان آجاتا ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ، پھر بھی اتنے بڑے واقعات کیوں رونما ہوجاتے ہیں۔ انھیں مالی معاونت فراہم کرنے والے ممالک ، جن اداروں کو مالی تعاون دیتے ہیں یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ،۔ لیکن ان تمام وجوہات کو جاننے کے باوجود پھر بھی بڑے واقعات کا رونما ہونا ہمارے سیکورٹی نظام پر ایک سوال اٹھاتا ہے۔نوجوانوں کے خفیہ اور الگ تھلگ گروہ جو رفتہ رفتہ دہشت گردوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں ،عموماً دو طرح کے خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ اول، وہ اندرونی طور پر وہ اپنے ہی لوگوں کی ناراضگی اور انتقام کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے، دوسری جانب بیرونی محاذ پر ناکام ہونے کی صورت میں ان پر برے انجام کا خوف سوار ہوتا ہے۔ اس طرح ان افراد کی واپسی کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں، اور وہ پوری طرح خود کو ان گروہوں کے ضابطوں میں ڈھال لیتے ہیں، اب ان کی زندگی کی ضمانت گروہ کے اختیار میں ہوتی ہے۔ انتہا پسند گروہوں کے ارکان اپنے اندرونی خوف اور حکومت کی جانب سے رد عمل کے خدشے کی وجہ سے مسلسل دبائو کی زد پر رہتے ہیں۔

دہشت گردوں کی دنیا کسی بھی نووارد کے لیے ایک ایسا جہان ہے، جہاں سے زندہ و سلامت واپسی ناممکن ہے۔ نفسیاتی طور پر ان تنظیموں میں نئے آنے والے ایک نئی شناخت کو اختیار کر لیتے ہیں جو کہ تنگ نظری پر مبنی سوچ کی حامل ہوتی ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نظریاتی مخالفین کا راستہ روک سکتے ہیں۔ ان تنظیموں میں نئے بھرتی ہونے والوں کا طرزِ عمل بھی اسی نظریے کے تابع ہوتا ہے۔ نئے لوگوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ ان کے اہل خانہ اور احباب کو بھی ان سرگرمیوں کی بھنک نہیں ہونے دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی خودکش بمبار اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب حیرت زدہ ہو جاتے ہیں اور قطعی طور پر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ موصوف تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا اور حقیقتاً اگر اس کی سرگرمیاں خفیہ نہ ہوتیں تو اس کے اہل خانہ اور دوست احباب کو ضرور علم ہوتا۔ایک بار جب یہ نوجوان اس خفیہ اور خطرناک دنیا میں قدم رکھ لیتے ہیں ، وہ یہ جان جاتے ہیں کہ اب یہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ واپسی کے تمام راستے سکیورٹی کے اندیشے کی وجہ سے مسدود ہوتے ہیں، دیگر ارکان اس عمل کو اپنے لیے خطرناک سمجھتے ہیں کہ کوئی ریکروٹ واپسی کا راستہ اختیار کرے اور اپنی رکنیت کو ختم کرنے کی کوشش کرے ،کیونکہ ایک بھگوڑا رکن دہشت گردی کے پورے نیٹ ورک کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں کام کرنے سے ان نئے بھرتی ہونے والوں کے نقطۂ نظر میں تبدیلی اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ ان کا درج ذیل نکات پر ایمان راسخ ہو جاتا ہے۔

Police Training Centre in Quetta Attack

Police Training Centre in Quetta Attack

کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر کے تربیت حاصل کرنے والے جوانوں پر خود کش حملہ کسی ایک ایسے ہی انسان کے دماغ کا کاشاخانہ ہے جو اپنے شرمندگی مٹانے کیلئے دہشت کا یہ کھیل ، کھیل رہا ہے ، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ملکر پاکستان میں موجود ایسے غداروں سے دہشت کے اس کھیل کو رچا ہے ، جس نے شہدا کے خاندانوں کے ساتھ ، پوری قوم کو غم میں ڈبو دیا ۔گزشتہ کئی ایک دہائیوں سے محققین یقینا درست طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دہشت گردی کی کوئی سادہ وضاحت ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر غربت اور تعلیم کی کمی ہی دہشت گردی کا سبب نہیں، بلکہ مذہب، لادینیت اور ملکی یا بین الاقوامی حالات بھی دہشت گردی کا سبب بن سکتے ہیں اور یہ اسباب بالواسطہ اور پیچیدہ بھی ہوتے ہیں۔ ان خطوط پر کام کرتے ہوئے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دہشت گردوں کے انفرادی کردار پر توجہ مرکوز کرنے سے دہشت گردی کے خاتمے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی ،جب تک کہ ان عوامل کو ختم نہیں کیاجاتا، جن کی وجہ سے دہشت گردی پیدا ہوتی ہے، ورنہ ایک دہشت گرد کو ختم کریں گے تو اس کی جگہ دوسرا دہشت گرد لے لے گا۔ان خطوط پر سوچنا بھی درست ہے، لیکن محض اس سے ہی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی، بلکہ ان دہشت گرد تنظیموں میں موجود مختلف شعبوں کے ماہر ارکان کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

دہشت گرد جسے اپنی تنظیم کے لیے اہم ترین اثاثہ تصور کرتے ہیں، وہ شہرت حاصل کرنے کی صفت ہے۔باعثِ حیرت اَمریہ ہے کہ اُنہیں یہ شہرت مغربی میڈیا کی وجہ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ وہ جدید میڈیا کو شیطانی چرخے سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی ہند و انتہا پسند ی کی بدترین مثال ہے۔اس مثالی کردار کا سب سے اہم کام یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کے لیے ایک عملی نمونہ کی حیثیت سے برقرار رہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں ان کی تقاریر اور تحریریں عام ہوتی جاتی ہیں ، اُس وقت اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ، اب ان کا بین الاقوامی نوعیت کا ایجنڈا ہی دوسروں کے لیے رہنمائی کا کام انجام دیتا ہے۔اسی طرح کسی بھی تنظیم کاا حقیقت میں وجود ہونا لازمی نہیں ہے۔موجودہ دور میں پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دہشت گردوں کے لیے مثالی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں، خواہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود ہے یا نہیں۔ یہ دوسروں کے لیے راہنمائی کا منبع خیال کیے جاتے ہیں۔ یقینا ان نظریات کو شکست دینے کے لیے ہمیں ان حالات کو بدلنا ہو گا جو ان نظریات کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اب بھارت کے وزیر اعظم ہند انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مثالی کردار بن چکے ہیں ۔ پاکستان کے اہم اداروں میں چھپے وہ سہولت کار جو پاکستان کے دشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں ان کی کھوج ضروری ہے ، کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔ ہم صرف بیانات دیکر بری الزمہ نہیں ہوسکتے ۔ پاکستان میں ان گنت سافٹ پوائنٹ ہیں ، ہمیں اپنی سرحدوں کو مضبوط بنانے کیلئے اپنے اندرونی اسٹرکچر کو مضبوط بنانا ہوگا ۔ مودی سرکار اور علیحدگی پسند بلوچ قوم پرست جماعت ، بلوچستان میں دہشت گردی میں جو کردار ادا کر رہے ہیں ، اس کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ لیکن سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے لئے باہمی اختلافات ، کرپشن ، اقربا پروری سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ جب قوم کے لیڈر اقتدار کیلئے قوم کے مفاد کے بجائے قوم کے خلاف کام کرنے لگے تو ہمیں بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

Qadir Khan

Qadir Khan

تحریر : قادر خان افغان