دہشت گرد آر ایس ایس اور بھگوا جمہوریت

RSS

RSS

تحریر: مہر بشارت صدیقی
بھارت میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت اور انتہا پسندی کے خلاف آوازیں اٹھنے کا سلسلہ جاری ہے اور بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے سابق آئی جی پولیس نے تو راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ کو ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد جماعت قرار دے دیا ہے۔بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس ایس ایم مشرف کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہم نظریاتی انتہاپسند تنظیم راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بھارت کی سب سے بڑی دہشت گرد جماعت ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں ایک تقریب کے دوران ایس ایم مشرف نے کہا کہ آر ایس ایس کے کارکن دہشت گردی کے 13 ایسے واقعات میں مجرم قرار پائے جن میں دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔ ایسے واقعات میں اگر انتہاپسند تنظیم بجرنگ دل کو بھی شامل کرلیا جائے تو دہشت گردی کے ان واقعات کی تعداد 17 ہوجاتی ہے۔ ایس ایم مشرف نے 2007ء میں حیدر آباد کی مکہ مسجد بم دھماکہ ، 2006ء اور 2008ء میں مالے گاوں میں ہونے والے بم دھماکوں اور 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس بھارت کی سب سے بڑی دہشت گرد جماعت ہے۔

Shiv Sena

Shiv Sena

دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں، یہ ہمارے نظام کی خرابی ہے جس میں ایسی تنظیمیں پائی جاتی ہیں اور یہ ایک سوچ کا نام ہے، ایسی سوچ جو ظلم کے ذریعے غالب آکر پروان چڑھتی ہے۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے حوالے سے انکا کہنا ہے کہ ملک میں عدم برداشت بہت پہلے سے موجود ہے اس وجہ سے کئی بڑے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اب اسے کیوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو انتہا پسند تنظیموں بالخصوص شیو سینا نے ہندوستان میں غنڈہ گردی اور عدم برداشت کا ماحول گرم کر رکھا ہے۔شیو سینا اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے کبھی گائے کے گوشت کا بہانہ بنا کر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے تو کبھی اس انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہے اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے

۔گائے کا گوشت کھانے یا بیچنے کے جھوٹے الزام میں گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی مسلمانوں کو قتل بھی کیا جاچکا ہے۔اسی سال ماہ جنوری میںسکھوں کے ایک حقوق انسانی گروپ نے امریکہ کی وفاقی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ آر ایس ایس کو ایک بیرونی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔ نیویارک کی وفاقی عدالت میں ایک سمن امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کے نام جاری کرتے ہوئے انہیں اندرون 60 دن اس پر جواب دینے کو کہا گیا تھا۔ سکھ برائے انصاف نامی تنظیم نے اپنی درخواست میں عدالت سے کہا کہ آر ایس ایس کو ایک بیرونی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔ تنظیم نے کہا کہ وہ فاشسٹ نظریہ پر یقین رکھتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے۔ وہ ایک جذبات انگیز ‘ شیطانی اور پرتشدد یک رخی مذہبی و ثقافتی شناخت رکھتی ہے۔

آر ایس ایس ہندوستان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو مت میں زبردستی شامل کرتے ہوئے اس کو گھر واپسی کا نام دے رہی ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ آر ایس ایس اور اس سے ملحقہ تنظیموں کو بیرونی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے اور آر ایس ایس کو ایک خصوصی نامزد عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔ آر ایس ایس پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ تنظیم بابری مسجد کی شہادت ‘ سنہری گردوارہ میں فوجی کارروائی پر اکسانے ‘ چرچس کو نذر آتش کرنے ‘ عیسائی راہباوں کی عصمت ریزی اور گجرات میں 2002 میں ہوئے انتہائی ہلاکت خیز مسلم کش فسادات میں ملوث ہے۔

Extremism in India

Extremism in India

حالیہ دنوں میں گائے ذبح کرنے کے الزام میں جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں روا رکھا گیا وہ دنیا نے دیکھا۔یہ صرف گائے کا گوشت کھانے کے نام پر پیٹ پیٹ کر مارے گئے دو مسلمانوں کے نام نہیں ، ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی بے بسی ، بے کسی اور لاچاری کی وہ سچائیاں ہیں ، جو ساری دنیا میں ہندوستان کے نام کو ‘ انتہائی تاریک’کررہی ہیں۔یہ فہرست صرف مذکورہ چند ناموں تک ہی محدود نہیں ہے ، یہ ایک لمبی فہرست ہے ،ایک ایسی فہرست جس کے اندراجات میں روزانہ ہی نئے ناموں کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے ناموں کا جن میںسے کسی کو ‘ بیف’ کھانے پر مارا گیا ہے تو کسی کو ‘دہشت گردی’ کے ‘ غیر ثابت شدہ جرم’ میں اور کسی کو صرف مسلمان ہونے کے سبب ! یہ آج کی مودی حکومت کے دور کا وہ ‘شرمناک سچ’ ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اب ہندوستان کی ‘ جمہوریت’ اصلاً ‘ بھگوا جمہوریت’ میں تبدیل ہوگئی ہے۔

جی ہاں! اس ملک میں اب ‘بھگوا جمہوریت’ نے اپنے پرپھیلادیئے ہیں ، یہ ایک ایسی ‘جمہوریت’ ہے جِس کے اندر ان سب کو جو آر ایس ایس کے ایجنڈے کے حامی ہیں ہر طرح کے حقوق حاصِل ہیں ، ان میں ایک حق ، کسی کی جان لینے کا بھی ہے۔ جی ہاں! اگر کوئی ‘بھگوا جمہوریت پسند’ کسی کی جان ‘ بھگوا نظریات’ کی ترویج کے نام پر لے لے تو اسے نہ ہی اس ملک کا قانون ہاتھ لگائے گا اور نہ ہی اسے مجرم سمجھا جائے گا، سزا دینا تو دور کی بات ہے ! محمد اخلاق اور محمد یعقوب کے قاتلوں کی مثالیں ہی لے لیں۔ پولس سے لے کر سیاسی قائدین تک ، سب ہی ان کا ‘دفاع’ کررہے ہیں ، انہیں بچارہے اور ‘معصوم’ اور ‘ بے قصور’ قرار دے رہے ہیں ! ان میں وہ سیاسی قائدین بھی شامل ہیں جو خود کو ‘سوشلسٹ’ کہتے ہیں۔

یہ ملک ‘ بھگوا جمہوریت’ کس لیے ہے ، اس سوال کے جواب میں ان ‘ بھگوا تنظیموں’ کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو لوٹتی ، مارتی ، کاٹتی، انہیں دہشت گردی کے فرضی معاملات میں پھنساتی اور خود دہشت گردی ، تخریب کاری اور لاشوں کی سوداگری میں پیش پیش رہتی ہیں ، مگر قانون اور حکومت انہیں ‘ سماجی ، تہذیبی اور ثقافتی تنظیم ‘کے طور پر پیش کرکے نہ صرف ان کی پیٹھ تھپتھپاتی بلکہ اپنے سیاسی مفادات کے فروغ کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ نفرت کی سوداگری کرنے والی یہ تنظیمیں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کی نگرانی میںپروان چڑھی ہیں۔

ان میں بجرنگ دل ، وی ایچ پی اور درگاواہنی وغیرہ تو ہیں ہی ان میں بی جے پی اور شیوسینا جیسی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے کہا کہ بھارتی شاعروں اور دانش وروں نے ایوارڈزکسی کے ایما پر نہیں خود واپس کیے، یہ احتجاج کا طریقہ ہے، بھارتی صدر نے مودی حکومت کے وزراکا موقف غلط قرار دیدیا۔

ممتاز ہندی شاعر اشوک واجپائی، پینٹر سندرم اور صحافی اوم تھانوی نے گزشتہ روز پرناب مکھرجی سے ملاقات کی۔ایوارڈ واپس کرنے والوں پر مختلف بھارتی وزرا اور مودی کے حمایتیوں نے کانگریس سے پیسہ لینے کا الزام لگایا تھا تاہم صدر نے تسلیم کیا شاعروں اور دانشوروں نے یہ ایوارڈزکسی کی ایما پر نہیں خود واپس کئے۔ ایوارڈ واپسی کے سبب عدم برداشت کا معاملہ قومی بحث کا حصہ بنا، مودی حکومت کی انتہاپسند پالیسیوںکیخلاف ایوارڈ واپس کرنے والے شاعر اشوک واجپائی نے کہا انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس سے اسلام کو نہیں خود ہندو مذہب کو خطرہ ہے۔

 Mehr Basharat Siddiqi

Mehr Basharat Siddiqi

تحریر: مہر بشارت صدیقی