دہشت گردوں کے مددگار اور سہولت کار

Terrorists Helpful

Terrorists Helpful

تحریر: سید انور محمود
چھ ستمبر کو شہدائے پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جی ایچ کیو راولپنڈی میں خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل نے کہا کہ آج پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط، قوم پہلے سے زیادہ پرعزم ہے، دہشت گردوں کو شکست اور ریاست کی بالادستی قائم ہوگئی ہے، دہشت گردوں کے مددگاروں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچاکر دم لیں گے۔ دو ستمبر کووزیراعظم نوازشریف نے آزادکشمیر باغ میں اپنے خطاب میں دہشت گردی کے حوالے سے کہا کہ فوج اور عوام طے کرچکے دہشت گردی کو ہر قیمت پر ختم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کریں گے، دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے عالمی برادری کو مستقل امن کا تحفہ دیناچاہتے ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کےلیے نہیں بنا، دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔

آٹھ جون 2014ء اتوارکی درمیانی شب کو کراچی کےجناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پہ حکومت کے ناقص سیکیورٹی انتظام کی وجہ سےطالبان دہشت گردوں کی جانب سے ائیرپورٹ پر حملہ ہواتو دہشت گردی سے متعلق کئی سنجیدہ سوال سامنے آئے۔ ان میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ نواز شریف حکومت اور طالبانی دہشت گردوں کا مذاکرات کا ڈرامہ جو ایک سال سے چل رہا تھا کب ختم ہوگا۔ گزشتہ سال جون 2014ء تک دہشت گردی کے واقعات میں دس سال کے عرصے میں 52ہزار409 افراد شہید ہوئے، سیکیورٹی فورسز کے 5ہزار775 اہلکار شہید ہوئے، 396 خود کش حملے ہوئے جس میں 6ہزار21 افراد جاں بحق اور 12ہزار558 افراد ذخمی ہوئے، اور 4ہزار932 بم دھماکے ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک سال تک مذاکرات مذاکرات کا کھیل رچایا، اور اس کھیل میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جماعت اسلامی اورطالبان کے نام نہاد باپ مولانا سمیع الحق شامل بھی تھے۔ عمران خان اور مولانا فضل الرحمان بھی طالبان کو فوجی کارروائی سے بچانے میں پیش پیش تھے۔ یہ سب جماعتیں آپریشن کی مخالفت میں آگے آگے تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم تو مجبور تھے ورنہ وہ کافی عرصہ پہلے طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امیر المومنین بن چکے ہوتے۔ کراچی ایئرپورٹ پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کے بعداتوار 15 جون 2014ء کو افواج پاکستان نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔ پاک فوج نے آپریشن کا نام “ضرب عضب” رکھا جس کا مطلب “ضرب کاری” یعنی دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف حکومت اور دہشت گردوں کے مذاکرات ختم ہوگئے۔

Zarb e Azb

Zarb e Azb

آپریشن ضرب عضب میں اب تک مختلف کارروائیوں کےدوران 2763 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیاگیا، جبکہ آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کے347 افسر اور جوان بھی شہید ہوئے۔ فوجی ترجمان کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے شہری علاقوں میں خفیہ اطلاعات پر کی گئی 9000 کارروائیاں کیں جن میں 218 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان میں کارروائیوں کے دوران مختلف نوعیت کے 18087 ہتھیار اور 253 ٹن دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف گزشتہ ایک سال سے جاری فوجی کارروائی کے دوران ضرب عضب اور متاثرہ علاقوں سے مقامی افراد کی نقل مکانی اور اُن کی بحالی پر اب تک تقریباً دو ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور یہ رقم امریکہ کی جانب سے اتحادی سپورٹ فنڈ کے بجائے سرکاری خزانے سے استعمال کی گئی ہے۔2001

ء سے اب تک افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کے باعث پاکستان کواتحادی سپورٹ فنڈ کے تحت 13 ارب ڈالر مل چکے ہیں۔تاہم امریکہ نے کہا ہے کہ 2015ء کے بعد سے پاکستان کو اس فنڈ کے تحت رقوم جاری نہیں کی جائیں گی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دہشت گردی ہمارے ملک میں لانے کی ذمہ داری ہمارے عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اُسکے حواریوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

دہشت گردی کی تحریک آدھی سے زیادہ دنیا میں پھیل چکی ہے اوراس کا بڑا نشانہ پاکستان ہے۔1965ءکی پاک بھارت جنگ میں 3800پاکستانیوں کی جانیں گئی تھیں، 1971ءمیں 9 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے جبکہ 2001ءسے 2015ءکے دوران 56ہزار سے زیادہ پاکستانیوں نے جام شہادت نوش کیا گویا طالبان دہشت گرد بھارت سے بھی زیادہ خطرناک دشمن ہیں جو پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ دوسری طرف سول عدالتوں نے 15 ہزار کے قریب دہشت گردوں کو بری الزمہ قرار دیا اور 10 ہزار پانچ سو سے زیادہ دہشت گردوں کی ضمانتوں پر رہائی کا حکم جاری کیا۔

Military courts

Military courts

حکومتی نااہلی کھل کر سامنے آچکی ہے ورنہ فوجی عدالتوں کی ضرورت پیش نہ آتی۔ آپریشن ضرب عضب ملک بھر میں جاری ہے، ایسا لگتا ہے ملک کے کونے کونے میں دہشت گردوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ اُن کی پناہ گاہیں کون سی ہیں ان کے مددگار اور سہولت کار کون ہیں؟ ملک کی 33خفیہ ایجنسیوں کو اتنی معلومات تو ضرور ہوں گی۔ حکومت پاکستان نے جن دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دے رکھا ہے وہ حکومتی فائلوں میں مرچکی ہیں لیکن عملاً بقید حیات ہیں۔ حکومت جانتی ہے کہ یہ دہشت گرد کالعدم تنظیمیں نئے ناموں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں ان کے ذرائع آمدن کی پائپ لائن بدستور پیسے اگل رہی ہے۔

حکومت کو ان مدرسوں کے نام بھی سامنے لانے چاہیں جو عسکریت پسندی کے رحجان کو فروغ دے رہے ہیں۔ اُن رفاعی تنظیموں کو بھی بے نقاب کرنا ضروری ہے جو بیرونی فنڈر لیتی اور آگے منتقل کرتی ہیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے حامیوں کے پیٹ میں اس وقت مروڑ اٹھتا ہے جب لوگ اپنے پیاروں کی یاد میں موم بتیاں جلاتے ہیں یا خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے حامی قومی روزناموں میں کالم لکھ لکھ کر جہادی ذہن تیار کررہے ہیں ۔

وزیراعظم نواز شریف اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف دونوں کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کیلئے نہیں بنا، ہم دہشت گردوں کے مددگاروں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچاکر دم لیں گے۔ طالبان کے لفظی معنی کچھ بھی ہوں مگر ہمارے ملک میں طالبان تحریک ایک دہشت گرد تحریک ہے۔ طالبان کے 45سے زائد گروہ ہیں اور ہر گروہ قتل و غارت گری اور پاکستان پر حملوں میں شریک ہے۔ یہ گروہ برسرعام اس کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ ان گروہوں میں سے کوئی عام انسانوں کا قتل عام کررہا ہے تو کوئی فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں مصروف ہے۔

یہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، منشیات کی اسمگلنگ، ڈکیتیوں اور دوسرے جرائم میں بھی مصروف ہیں۔ یہ صرف نام کے انسان ہیں ورنہ ان کے سب خصائل درندوں جیسے ہیں، لہٰذا ان میں یہ احمقانہ تمیز کرنا کہ اچھے کون ہیں اور برے کون ہیں بجائے خود ایک سنگین غلطی ہے۔ لیکن پاکستان میں طالبان کی دو قسمیں ضرور موجود ہیں ایک وہ ہیں جو قتل و غارت گری اور دوسرئے جرائم کرتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو سیاسی اور مذہبی جماعتوں یا پھرصحافت کی آڑمیں دہشت گردوں کے مددگار اور سہولت کار ہیں۔

Taliban

Taliban

طالبان کی کسی بھی قتل و غارت گری کے بعد سراج الحق، مولانا فضل الرحمان، مولانا عبدالعزیز اور مولانا سمیع الحق کی جانب سے مرنے والوں کے ساتھ ہمدردی کے باوجود یہ حضرات اور ان کے پیروکار طالبان کی صفائیاں دینے لگتے ہیں، اُن کے ساتھ ہی کچھ صحافی جن میں خاص کرانصار عباسی اور اوریا مقبول جان صحافت کی آڑ میں طالبان کی ہمدردی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ عمران خان بھی طالبان کے ہمدرد ہیں، طالبان کی کسی بھی دہشت گردی پر افسوس ضرور کرتے ہیں لیکن اُس کے بعدقوم کوڈرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خان صاحب کی سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ وہ حادثہ کی جگہ پر ہی کہہ دیتے تھے کہ آپریشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، نو سال سے آپریشن ہورہا ہے ہم نے کیا کرلیا۔ فوجی آپریشن کے بعد البتہ انہوں نے یو ٹرن لیا اورآپریشن کی حمایت کرنی شروع کردی مگر کافی عرصہ تک مذاکرات کا راگ الاپنا نہیں بھولے۔ مولانا فضل الرحمان کا تو سب کو پتہ ہے کہ جس طرف فائدہ نظر آئے مولانا اُسی طرف ہوتے ہیں۔

جماعت اسلامی کو تو اب بھی دہشت گردوں کےخلاف ہونے والے آپریشن پر اعتراض ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن دہشت گرد طالبان کو اپنا بھائی کہتے ہیں۔ منور حسن صاحب طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والےباون ہزار سے زائد پاکستانیوں کو جن میں عام آدمی، پولیس کے سپاہی، رینجرز کے اہلکار اور پاکستانی فوجی شامل ہیں اُنہیں شہید ماننے سے انکار کرتے ہیں لیکن ہزاروں انسانوں کے قاتل دہشت گردحکیم اللہ محسود کو شہید کہتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق نےتو منور حسن سے بھی زیادہ منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپریشن ضربِ عضب کو نہ صرف ڈرامہ کہا بلکہ اس آپریشن کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کرڈالا۔ دہشت گردی پاکستان کی وہ بیماری ہے جس کا علاج نام نہاد “مذاکرات” سے کیا جارہا تھا لیکن یہ مرض اس قدر بڑھ چکا تھا کہ آپریشن کے علاوہ شاید کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب حکومت کو چاہیئے کہ دونوں قسم کے طالبان کاتدارک کرے، اُن کا بھی جو دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہیں اوراُن کا بھی جو سیاسی اور مذہبی جماعتوں یا پھرصحافت کی آڑمیں دہشت گردوں کے مددگار اور سہولت کار ہیں، ایسا کرنے کے بعد ہی ہم پاکستان سے دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرسکتے ہیں۔

S. Anwer Mahmood

S. Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود