خواجہ سرا دولت مندوں کے گھر کیسے رہتے ہیں

The eunuch

The eunuch

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
اس نے بڑے اطمےنان سے زردے کی پلیٹ ختم کی میں بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی وہ مجھے کچھ ایب نارمل سی لگی درجنوں خواتین انتظار میں تھیں کہ وہ کھانا ختم کرے تو اس سے تعزیت کریں لیکن نوکرانی بار بار آ کر یہی کہتی بیگم صاحبہ کھانا کھا رہی ہیں قلوں میں آئی خواتین آخر اکتا کر اٹھنے لگیں میں نے اس کے کمرے میں جھانکا تو نوکرانی نے دروازہ کھول کے اندر بلا لیا میں بیڈ کے قریب کرسی پہ بیٹھ گئی دل یہ سوچ کہ دکھ رہا تھا کہ اس بے چاری کا جوان بیٹا مر گیا ہے اللہ کسی کو اولاد کا دکھ نہ دے وہ بھی جوان اولاد کا میں تعزیتی جملے سوچتی اندر آئی تھی لیکن اتنے اطمنان سے اسے زردہ کھاتے دیکھ کر بڑا عجیب سا لگ رہا تھا آخر اس نے ٹرے ایک طرف کھسکائی تو میں نے سلام کر کے چند تعزیتی جملے ادا کیے اس نے میری طرف دیکھا ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر نمودار ہوئی اور بولی میں اب سونا چاہتی ہوں میں نے سوچا شائد غم کی شدت سے اپنے حواس میں نہیں ہے خیر میں نے الوداعی جملے ادا کیے اور باہر آ گئی اس نوجوان کی بیوہ بھی کہیں نظر نہ آئی میرے پوچھنے پر پرانی نوکرانی برا سا منہ بنا کر بولی غریب گھر کی تھی میاں کے مرتے ہی مال و زیور سمیٹ کے چلتی بنی میری سوچ الجھ گئی اتنے امیر لوگ اور غریب بہو؟ شائد کوئی محبت وحبت کا چکر ہو۔۔۔

کئی دن بعد میری ایک قریبی رشتہ دار آئیں جو ان کے گھر کے قریب رہتی تھیں تو میں نے اس ماں کے عجیب رویے کا ذکر کیا کہنے لگیں تم بھی ساری دنیا سے بے خبر رہتی ہو بھابھی اس کی بیوی جانے کون کون سی دوائیں اس کے کھانے پہ چھڑک کے دیا کرتی تھی کئی کئی مہینے میکے رہتی تھی کہتی تھی بیمار ہے لیکن بہت قریب کے لوگ جانتے ہیں اصل بات کیا ہے وہ کیا میں نے پوچھا کہنے لگیں اللہ رحم کرے اس کے دونوں بچے وہ تھے وہ کیا کہتے ہیں تیسری مخلوق کیا؟ میری حیرت کی انتہا نہ رہی لیکن بیٹی تو اس کی بہن کی بہو ہے ہاں تو اس کی اولاد تو نہیں ہے اب وہ دوسری شادی کر رہا ہے اس کا میاں امریکہ تک تو علاج کروائے ہیں تو اس میں اس لڑکی کا کیا قصور؟ وہ کہنے لگیں بتایا تو ہے ایک لڑکی کی شکل میں ہے اور ایک لڑکے کی شکل میں لیکن دونوں تیسری مخلوق تھے پیسہ پانی کی طرح بہایا لیکن پیدائشی ایسے تھے تو ٹھیک کیسے ہوتے یہ اس کو بہت چھپا کے رکھتے تھے ایک پرانی دائی کے علاوہ کسی کو خبر نہ تھی لیکن جب دونوں کی شادیاں کیں تو بات کھلنی ہی تھی بہن کو رازدار بنا کر بیٹی دی اتنا جہیز دیا پانچ مربعے زمین دی دیکھنے میں اتنی خوبصورت ہے تم نے فلاں شادی میں دیکھا تو تھا جس نے بنارسی ساڑھی پہن رکھی تھی اچھا وہ؟ او مائے گاڈ مجھے یقین نہیں آ رہا اتنی خوبصورت اور۔۔۔ ارے اس لیے تو اتنا چھپا کے رکھتے تھے سنا ہے اس مخلوق کو پتہ چل جائے تو اٹھا کے لے جاتے ہیں۔۔

شادیاں بھی اس لیے کیں کہ نارمل سمجھا جائے بہت سوں کو یقین نہیں آتا کہتے ہیں ایسا ہوتا تو شادی کیوں کرتے؟لڑکی تو بے اولاد مشہور ہو کے میاں کی دوسری شادی کرا دے گی لیکن بیٹا ان کے لیے مسلہء تھا سو ایک غریب لڑکی خریدی گئی جب اس کی بھی بہت عرصہ اولاد نہ ہوئی تو لوگوں نے چہ مگوئیاں شروع کر دیں تب اس کو بیوی نے نشے کی گولیاں چھڑک کر کھلانا شروع کر دیں دن رات سویا رہتا آخر گھل گھل کے مر گیا تو انہوں نے اس کی بیوی پر کیس کیوں نہیں کیا؟ وہ خود بھی یہی چاہتے تھے عزت پہ بنی ہوئی تھی اب تو شکر کیا ہوگا خود سوچو ایسی اولاد کا کیا کرتے ؟بس اللہ معاف کرے جانے کس گناہ کی سزا ہوتی ہے پھر جو انہوں نے گنوانا شروع کیے کہ کس کس گھر میں ایسے کیس ہیں میں نے گھبرا کے انہیں چپ کرا دیا کہنے لگیں دیکھو کتنے دولت مند اور خوبصورت خاندانی لوگ ہیں لیکن اللہ کی طرف سے کیا آزمائش ہے اف میرے خدا میں نے للہ سے ہزار بار توبہ کی کہ سب کو ایسی آزمائش سے بچائے۔۔

Social Media

Social Media

آج کل سوشل میڈیا پر ایک خواجہ سرا کا والد کے نام خط دیکھ کر مجھے یہ بات یاد آ گئی یہ بہت صدمے کی بات ہے ان والدین کے لیے، ہمارا معاشرہ اس طرح کا ہے کہ ایسے لوگوں کو تمسخر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے پھبتیاں کسی جاتی ہیں زمانہ قدیم سے ہی ان کا ذکر ملتا ہے بہت سے بادشاہوں کے قصوں میں بھی غالباً علائوالدین خلجی کے دور میں ایک خوبصورت ترین خواجہ سرا ملک کافور کا ذکر ملتا ہے جس کے حسن کے آگے کسی کی پیش نہیں چلتی تھی وہ بادشاہ کی آڑ میں حکومت کرتا تھا ہمارے اسکول میں ایک حنیف نام کا لڑکا پڑھتا تھا دس گیارہ سال کا لڑکا اکثر لڑکیوں کے دوپٹے چھین کر پہن لیتا ماں کی لپ اسٹک چرا کر لے آتا اور اسکول میں بیٹھ کے میک اپ کرتا پرنسپل نے اس کے گھر شکایت کی تو انہوں نے اسکول سے اٹھا لیا بعد میں سنا تھا اس کے گھر والوں نے گھر سے نکال دیا ہے اس کا کیا بنا کچھ پتہ نہیں ،یہ اکثر بہت امیر لوگوں کی اولادیں ہوتی ہیں لیکن زمانے کے خوف سے انہیں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔۔

قدرے کمتر گھرانوں کے ایسے بچے گھر سے نکال دیے جاتے ہیں جن کو یہ لوگ اپنی برادری میں شامل کر لیتے ہیں یہ بہت حساس موضوع ہے اس پر قلم اٹھانا بڑے دل گردے کا کام ہے اور اس پہ کوئی رائے دینا اس سے بھی مشکل جانے اللہ کی کیا مصلحت ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اچھے بھلے لڑکے بھی روزگار حاصل کرنے کے لیے خود کو اس روپ میں ڈھال لیتے ہیں یہ کام کچھ عرصہ پہلے تو پورے عروج پر تھا بڑے نامور بیوٹی پارلروں میں ،بوتیکس میں لہرا لہرا کر کر آنکھیں مٹکاتے میک زدہ چہروں والے لڑکے جو بڑی بڑی بیگمات کے منظور نظر ہوتے ہیں کمال کے آرٹسٹ ہوتے ہیں ۔ہم نے خود اپنی آنکھوں سے ایک مشہور بوتیک پر ایسے کئی لڑکیوں نما لڑکے دیکھے ہیں جو برائیڈل ڈریس اپنے ساتھ لگا کر دکھاتے ہیں۔۔

بلکہ لہنگا پہن کر کارپٹ پر واک کر کے بھی دکھاتے ہیں بہت عرصہ پہلے فریال گوہر نے ایک ڈاکیومنٹری بنائی تھی ان پر ” ٹبی گلی ” کے نام سے اس میں ان پہ کچھ تحقیق کی کوشش کی گئی لیکن چند باتوں کے علاوہ کوئی کام کی بات معلوم نہ ہو سکی کہ یہ رات کو میت دفناتے ہیں آدھی رات کو جنازہ اٹھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ان کے رازوں پر آج تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور شائد یہی بہتر ہے کہ اس پہ پردہ ہی پڑا ر ہے بس ایک بات ہے کہ مانگتے ضرور ہیں لیکن چوری نہیں کرتے قتل ڈکیتیاں نہیں کرتے بلکہ کچھ پڑھ لکھ کر بہت بڑے کام بھی کرتے ہیں جو ٹاپ سیکرٹ ہوتے ہیں۔۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی