امام وقت اور طو ل عمری

Hazrate Narjes khaton

Hazrate Narjes khaton

تحریر: یوسف حیدر ثقلین
ماہ شعبان ٥٥٢ھ کی پندرہویں تاریخ صبح جمعہ کی مسعود ترین ساعت تھی جب پیغمبر اسلام کے آخری وارث اور سلسلہ امامت کے بارہویں اور آخری امام کی ولادت باسعادت ہوئی۔ بعض علماء نے سال ولادت ٦٥٢ھ سنہ نور لکھا ہے لیکن معروف ترین روایت ٥٥٢ھ ہی کی ہے۔ والد ماجد امام حسن عسکری تھے جن کی عمر مبارک آپ کی ولادت کے وقت تقریباً ٣٢ سال تھی اور والدہ گرامی جناب نرجس خاتون تھیں جنھیں ملیکہ بھی کہا جاتا ہے۔ جناب نرجس خاتون دادھیال کے اعتبار سے قیصر روم کی پوتی تھیں اور نانیہال کے اعتبار سے جناب شمعون وصی حضرت عیسیٰ کی نواسی ہوتی تھیں۔ اس اعتبار سے امام زمانہ نانیہال اور دادھیال دونوں اعتبار سے بلند ترین عظمت کے مالک ہیں اور آپ کا خاندان ہر اعتبار سے عظیم ترین بلندیوں کا مالک ہے۔ جناب نرجس کے روم سے سامرہ پہنچنے کی تاریخ دو حصوں میں بیان کی جاتی ہے۔ ایک حصہ سامرہ سے متعلق ہے اور ایک حصہ روم سے متعلق ہے۔ پہلے حصہ کی راوی جناب بشر بن سلیمان انصاری ہیں جو جناب ابو ایوب انصاری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اور دوسرے حصہ کی راوی خود جناب نرجس ہیں جنھوں نے اپنی داستانِ زندگی خود بیان فرمائی ہے۔

پہلے حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ امام علی نقی کے خادم کافور نے بشر بن سلیمان تک یہ پیغام پہنچایا کہ تمھیں امام علی نقی نے یاد فرمایا ہے۔ بشر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تم بردہ فروشی کا کام جانتے ہو۔ یہ ایک تھیلی ہے جس میں دو سو بیس اشرفی ہیں اسے لے کر میرے خط کے ساتھ جسر بغداد تک چلے جائو وہاں ایک قافلہ بردہ فروشوں کا نظر آئے گا۔ اس قافلہ میں ایک خاتون بہ شکل کنیز ہوگی جس کی خریداری کی تمام لوگ کوششیں کر رہے ہوں گے لیکن وہ کسی کی خریداری سے راضی نہ ہوگی اور نہ اپنے چہرہ سے نقاب اٹھائے گی۔ تم یہ منظر دیکھتے رہنا جناب تمام لوگ قیمت بڑھا کر عاجز ہوجائیں اور مالک پریشان ہو اور کنیز یہ کہے کہ میرا خریدار عنقریب آنے والا ہے تو تم مالک کو یہ تھیلی دے دینا اور کنیز کو یہ خط دے دینا جو اسی کی زبان میں لکھا گیا ہے۔ معاملہ خود بخود طے ہوجائے گا۔ جناب بشر بن سلیمان نے ایسا ہی کیا اور حرف بحرف امام کی نصیحت پر عمل کیا یہاں تک کہ معاملہ طے ہوگیا اور دو سو بیس اشرفی میں اس خاتون کو حاصل کرلیا اور امام کی خدمت میں لاکر پیش کر دیا۔

اس کے بعد جناب نرجس نے اپنی تاریخ زندگی یوں بیان کی ہے کہ میں ملیکہ قیصر روم کی پوتی ہوں۔ میری شادی میرے ایک رشتہ کے بھائی سے طے ہوئی تھی اور پورے اعزاز و احترام کے ساتھ محفل عقد منعقد ہوئی تھی۔ ہزاروں اعیانِ مملکت شریک بزم تھے۔ لیکن جب پادریوں نے عقد پڑھنے کا ارادہ کیا تو تخت کا پایہ ٹوٹ گیا اور تخت الٹ گیا، بہت سے لوگ زخمی ہوگئے اور اسے رشتہ کی نحوست پر محمول کیا گیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے دوسرے بھائی سے رشتہ طے ہوا اور بعینہ یہی واقعہ پیش آیا جس کے بعد لوگ سخت حیران تھے کہ اس کے پس منظر میں کوئی بات ضرور ہے جو ہم لوگوں کی عقل میں نہیں آرہی ہے کہ رات کے وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مقام پر حضرت رسول خدا اور حضرت مسیح جمع ہیں اور ایسا ہی دربار اراستہ ہے جیسا کہ میرے عقد کے موقع پر اس سے پہلے ہوا تھا۔ حضرت مسیح نے حضرت محمد مصطفیٰ اور حضرت علی مرتضیٰ کا بے حد احترام کیا اور ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ ہم آپ سے آپ کے وصی کی صاحبزادی ملیکہ کا رشتہ اپنے فرزند حسن عسکری کے لیے طلب کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح نے بصد مسرت رشتہ کو منظور کرلیا اور میرا عقد ہوگیا۔

Hazrat Imam Ali Naqi

Hazrat Imam Ali Naqi

اس کے بعد میں نے اکثر خواب میں حضرت حسن عسکری کو دیکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضری کا راستہ کیا ہوگا تو ایک دن انھوں نے فرمایا کہ تمھارے یہاں سے ایک فوج جنگ پر جارہی ہے، تم اس میں شامل ہوجائو۔ عنقریب اس فوج کو شکست ہوگی اور اس کی عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے گا۔ تم ان قیدیوں میں شامل ہوجانا اور ان کے ساتھ بغداد تک آجانا اس کے بعد میں تمھاری خریداری کا انتظام کرلوں گا۔ چنانچہ واقعہ ایسا ہی ہوا اور امام علی نقی نے خریداری کا انتظام کردیا اور جناب نرجس اس گھر تک پہنچ گئیں۔ جس کے بعد انھوں نے اس واقعہ کی ایک کڑی کا اور ذکر کیا کہ میں اپنے عالم انوار کے عقد کے بعد مسلسل اس خواب کی تعبیر کے لیے پریشان تھی اور نوبت شدید بیماری تک پہنچ گئی تھی تو ایک دن خواب میں جناب مریم اور جناب فاطمہ زہرا کو دیکھا اور ان سے فریاد کی کہ آخر آپ کے فرزند تک پہنچنے کا راستہ کیا ہوگا جن کی خدمت کا شرف آپ کے پدر بزرگوار نے عنایت فرمایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ پہلے کلمہ اسلام زبان پر جاری کرو اس کے بعد اس کا انتظام ہوجائے گا (اس لیے کہ مسیحی مذہب خاتون سے عقد تو ہوسکتا ہے لیکن رب العالمین نے جس مقصد کے لیے اس رشتہ کا انتخاب فرمایا ہے اس کی تکمیل دین اسلام کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے کہ نور الٰہی کسی غیر موحد رحم میں نہیں رہ سکتا ہے) چنانچہ میں نے ان کی ہدایت کے مطابق کلمہ شہادتین زبان پر جاری کیا اور آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ امام علی نقی نے فرمایا کہ جس نوجوان نے تم سے سامرہ پہنچنے کا وعدہ کیا تھا اسے پہچان سکتی ہو؟ عرض کی بے شک! آپ نے امام حسن عسکری کو پیش کیا۔ جناب نرجس خاتون نے فوراً پہچان لیا اور آپ نے ان کو عقد کرکے اپنے فرزند کے حوالے کر دیا۔

(اس واقعہ میں عقد کی لفظ دلیل ہے کہ جناب نرجس کنیز نہیں تھیں، ورنہ اسلام میں کنیز کی حلیت کے لیے عقد کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تنہا کنیزی ہی اس کے حلال ہونے کے لیے کافی ہوتی ہے جیسا کہ ان متعدد آیاتِ قرآنی سے بھی ظاہر ہوتا ہے جن میں کنیزی کا تذکرہ ازواج کے مقابلہ میں کیاگیا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ کنیزی الگ ایک شے ہے اور زوجیت الگ ایک شے ہے، اور ایک مورد پر دونوں کا اجتماع ممکن نہیں ہے علاوہ اس کے کہ کنیز ایک شخص کی کنیز ہو اور دوسرے کی زوجہ ہو ورنہ ایک ہی جہت سے دونوں کا اجتماع ناممکن ہے)۔

اس کے بعد جناب حکیمہ بنت امام محمد تقی علیہ السلام بیان کرتی ہیں کہ ایک دن امام حسن عسکری نے فرمایا کہ آج شب کو آپ میرے یہاں قیام کریں کہ پروردگار مجھے ایک فرزند عطا کرنے والا ہے۔ میں نے عرض کی کہ نرجس خاتون کے یہاں تو حمل کی کوئی علامت نہیں ہے … فرمایا کہ پروردگار اپنی حجت کو اسی طرح دنیا میں بھیجتا ہے، جناب مادرِ حضرت موسیٰ کے یہاں بھی آثارِ حمل نہیں تھے اور بالآخر جناب موسیٰ دنیا میں آگئے اور فرعونیوں کو خبر بھی نہ ہوسکی۔ چنانچہ میں نے امام کی خواہش کے مطابق گھر میں قیام کیا اور تمام رات حالات کی نگرانی کرتی رہی یہاں تک کہ میری نماز شب بھی تمام ہوگئی اور آثار حمل نمودار نہیں ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ نرجس نے خواب سے بیدار ہو کر وضو کیا اور نماز شب ادا کی اور اس کے بعد دردِ زہ کا احساس کیا، میں نے دعائیں پڑھنا شروع کیں۔ امام عسکری نے آواز دی کہ سورہ آنا انزلنا پڑھئے۔ میں نے سورہ قدر کی تلاوت کی اور یہ محسوس کیا کہ جیسے رحم مادر میں فرزند بھی میرے ساتھ تلاوت کر رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے اور نرجس کے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا اور میں سخت پریشان ہوگئی کہ اچانک امام عسکری نے آواز دی کہ آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ اب جو پردہ اٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک چاند سا بچہ روبقبلہ سجدہ ریز ہے اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کرکے کلمہ شہادت زبان پر جاری کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ تمام ائمہ کی امامت کی شہادت دینے کے بعد یہ فقرات زبان پر جاری کیے: ”خدایا! میرے وعدہ کو پورا فرما، میرے امر کی تکمیل فرما، میرے انتقام کو ثابت فرما اور زمین کو میرے ذریعہ عدل و انصاف سے معمور کردے۔

دوسری روایت کی بنا پر ولادت کے موقع پر بہت سے پرندے بھی جمع ہوگئے اور سب آپ کے گرد پرواز کرنے لگے کہ گویا آپ پر قربان ہو رہے تھے۔ آپ کے داہنے شانہ پر ”جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا” کا نقش تھا اور زبانِ مبارک پر یہ آیتِ کریمہ تھی: ”ویزید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم ائمة ونجعلھم الوارثین۔”
اس کے بعد امام عسکری کی ہدایت کے مطابق ایک پرندہ فرزند کو اٹھا کر جانب آسمان لے گیا اور روزانہ ایک مرتبہ باپ کی خدمت میں پیش کرتا تھا اور عالم قدس میں آپ کی تربیت کا مکمل انتظام تھا۔ یہاں تک کہ چند روز کے بعد جناب حکیمہ نے دیکھا تو پہچان نہ سکیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھوپھی جان! ہم اہلبیت کی نشوونما عام انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ صاحبانِ منصب الٰہی کی نشوونما ایک ماہ میں ایک سال کے برابر ہوتی ہے۔ چنانچہ جناب حکیمہ نے اس فرزندِ حسن عسکری سے تمام صحف سماویہ اور قرآن مجید کی تلاوت بھی سنی ہے۔ (واضح رہے کہ وقت ولادت سورہ انا انزلناہ کی تلاوت کا شاید ایک راز یہ بھی تھا کہ اس سورہ میں ہر شب قدر میں ملائکہ آسمان کے امر الٰہی کے ساتھ نازل ہونے کا ذکر ہے اور یہ علامت ہے کہ ہر دور میں ایک صاحب الامر کا رہنا ضروری ہے اور آج دنیا میں آنے والا اپنے دور کا صاحب الامر ہے۔) محمد بن عثمان عمر وی راوی ہیں کہ صاحب الامر کی ولادت کے بعد امام عسکری نے بطور عقیقہ متعدد جانور ذبح کرنے کا حکم دیا اور دس ہزار رطل روٹی اور اسی مقدار میں گوشت تقسیم کرنے کا حکم دیا اور میں نے اسی کے مطابق عمل کیا۔

Imam Mahdi

Imam Mahdi

مسئلہ طول حیات
امام مہدی کے بارے میں جہاں اور بحثیں کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بحث طول عمر اور بقائے حیات کی بھی ہے اور درحقیقت یہ بحث ان شبہات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے جو مسئلہ مہدی کے گرد عالم اسلام میں اٹھائے گئے ہیں اور ان کا منشاء عالم انسانیت کو ایک ایسے مصلح کی طرف سے غافل بنا دیتا ہے جس کا کام بساط ظلم و جور کو الٹ کر نظام عدل و انصاف کا قائم کر دینا ہے اور جو اس عظیم کام کے لیے صبح و شام حکم الٰہی کا انتظار کر رہا ہے۔ ورنہ اس طرح کا سیاسی مقصد کارفرما نہ ہوتا تو ایک مسلمان کے لیے طول عمر اور بقائے حیات جیسی بحث کا اٹھانا خلاف شان اسلام و ایمان اور خلاف اعتقاد قرآن و سنت ہے۔

مسلمان اس حقیقت پر بہرحال ایمان رکھتا ہے کہ موت و حیات کا اختیار پروردگار کے ہاتھوں میں ہے اور وہی انسانوں کی عمروں کو طویل یا مختصر بناتا ہے۔ اس کے نظامِ مصلحت میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو شکم مادر ہی میں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں اور ایسے افراد بھی ہیں جو بدترین حوادث میں بھی لقمہ اجل نہیں بنتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر باقی رہ جاتے ہیں۔ اس نے انسان کو موت دینا چاہی تو سلیمان جیسا صاحبِ اقتدار بھی اپنے لشکر کے سامنے دنیا سے رخصت ہوگیا اور باقی رکھنا چاہا تو موسیٰ قصر فرعون میں۔

ابراہیم نار نمرود ہیں، یونس بطنِ ماہی میں باقی رہ گئے۔ اس نے چاہا تو اصحابِ کہف کی نیند طویل ہوگئی اور اس کی مرضی ہوئی تو عزیر کو مردہ بنا کر پھر زندہ کر دیا۔ ایسے نظامِ ربوبیت پر ایمان رکھنے والا انسان اگر ایک حجت پروردگار اور مہدی دوراں کے بارے میں شبہات سے کام لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ قدرتِ پروردگار پر ایمان نہیں رکھتا ہے اور اس کی نظر میں گزشتہ دور کے جملہ واقعات و حوادث صرف اساطیر الاولین کی حیثیت رکھتے ہیں یا اسے وجود مہدی سے کوئی خاص اختلاف ہے جس کی بنا پر اسے کسی نہ کسی شکل میں مشکوک بنا دینا چاہتا ہے۔

تاریخ میں جناب ذوالقرنین، جناب نوح، جناب سام بن نوح، جناب قینان، جناب مہلائیل، عوج بن عناق، نفیل بن عبداللہ، ربیعہ بن عمر، ارفخشد، درید بن زید، جناب سلمان، کعب بن جمجمہ، نصر بن رحمان، قیس بن ساعدہ، عمر بن ربیعہ، عمر بن دوسی، عمر بن طفیل جیسے افراد کی سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال عمر کا تذکرہ موجود ہے اور اس کا کوئی انکار کرنے والا نہیں پیدا ہوا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے جناب ادریس و خضر اور دجال وابلیس لعین کا وجود بھی مسلمات میں شامل ہے جن کی عمریں ہزاروں سال سے متجاوز ہوچکی ہیں اور جناب عیسیٰ مستقل طور سے آسمان پر زندہ ہیں اور زمین پر اترنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان حالات میں مسئلہ طول عمر پر بحث کرنا نہ عقائدی اعتبار سے صحیح ہے اور نہ تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے صحیح ہے۔

Justice

Justice

اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تاریخ کے بے شمار شواہد کی بنا پر اور مرسل اعظم کی سیکڑوں روایات کی بنا پر جن میں مہدی اور اس کے خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مہدی میرا بارہواں جانشین، اولاد فاطمہ میں، اولاد حسین میں اور میرے فرزندِ حسین کا نواں وارث ہوگا۔ اس مہدی کا وجود بہرحال ہوچکا ہے اور ان خصوصیات کا انسان عالمِ وجود میں آچکا ہے، اور رسول اکرم کی ناقابلِ تردید روایات کی بنا پر اس کا ظہور بھی بہرحال ہونے والا ہے اور عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو ربِ کریم اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ مہدی ظہور کرے اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے۔

ان دونوں مسلمات کے درمیان دو ہی احتمالات رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ مہدی انتقال کر جائے اور پھر وقتِ ظہور مردہ سے زندہ ہو کر عالمی انقلاب برپا کرے یا زندہ اور موجود رہے اور طویل عمر کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتا رہے اور اپنے آخری انقلاب کے لیے زمین ہموار کرتا رہے۔

پہلا احتمال مذہبی اعتبار سے بھی غلط ہے اور علمی اعتبار سے بھی۔ مذہبی اعتبار سے یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا حجتِ خدا سے خالی ہوگئی ہے اور رسول اکرم واضح طور پر فرما چکے ہیں کہ اگر دنیا حجتِ خدا سے خالی ہوجائے تو اس کی بقا محال ہے اور زمین اہلِ زمین سمیت دھنس جائے گی اور علمی اعتبار سے کسی شخص کا مر کر دوبارہ زندہ ہونا اور کسی تیاری اور آمادگی کے بغیر اتنا بڑا انقلاب برپا کر دینا ناقابلِ تصور عمل ہے اور اگر اس میں قدرتِ خدا کو شامل کرلیا جائے تو موت و حیات کے تصورات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جو خدا کسی عظیم مقصد کے لیے ایک مردہ کو زندہ بنا کر اس سے یہ کام لے سکتا ہے تو وہ ہزار دو ہزار برس زندہ رکھ کر بھی یہ کام لے سکتا ہے۔ اس کی قدرت کے لیے کوئی شے امکان سے خارج نہیں ہے۔

بنابریں اسلام کے تینوں تصورات کو جمع کرنے کے بعد کہ مہدی کی ولادت بہرحال ہوچکی ہے اور اس کا ظہور بہرحال ہونے والا ہے اور زمین حجتِ خدا سے بہرحال خالی نہیں ہوسکتی ہے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ مہدی زندہ رہے اور حالات کا مسلسل جائزہ لے کر اپنے عالمی انقلاب کی منصوبہ بندی میں مصروف رہے۔ وقت ضرورت اپنے نائبین کی امداد بھی کرتا رہے اور اپنے ظہور کی زمین بھی ہموار کرتا رہے اور وقت ظہور کے لیے حکم الٰہی کا انتظار کرتا رہے اور جیسے ہی حکم پروردگار ہوجائے اپنا اصلاحی عمل شروع کردے اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے۔ ان شاء اللہ
روایات و اعترافات رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں ایک مہدی بھی ہوگا۔ (ابو سعید الخدری صحیح ترمذی ص ٠٧٢)
رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ اللہ میری عترت میں ایک شخص کو پیدا کرے گا جو دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا… عبدالرحمن بن عوف (عقد الدرر)
رسول اکرم نے فرمایا کہ اگر عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ میرے اہلبیت میں میرا ایک ہم نام آجائے۔ عبداللہ بن مسعود (ترمذی و سنن ابو دائود)
اس امت کا مہدی عیسیٰ بن مریم کی امامت کرے گا۔

Children of Fatima

Children of Fatima

ابو سعید الخدری (عقد الدرر) مہدی برحق ہے، وہ بنی کنانہ، قریش، بنی ہاشم اور اولاد فاطمہ سے ہوگا۔ قتادہ (عقد الدرر)
میں تمھیں مہدی کی بشارت دے رہا ہوں جو میری عترت اور قریش سے ہوگا۔ (صواعق محرقہ)
ہم سات اولاد عبدالمطلب سردارانِ جنت ہیں… میں، علی، حمزہ، جعفر، حسن، حسین، مہدی۔ (سنن ابن ماجہ، معجم طبرانی، حافظ ابو نعیم اصفہانی۔ عقد الدرر)
مہدی میری عترت میں اولاد فاطمہ میں سے ہوگا…

روایت ام سلمہ (ابو دائود) اللہ دنیا کے اخری دن کو اس قدر طول دے گا کہ میری عترت اور میرے اہلبیت سے ایک شخص آجائے جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے۔ روایت ابوہریرہ (ترمذی)
علی میری امت کے امام ہیں اور ان کی اولاد میں قائم منتظر ہوگا جو دنیا کو عدل وانصاف سے معمور کردے گا۔ روایت ابن عباس (مناقب خوارزمی)
مہدی اولاد حسین سے ہوگا… روایت حذیفہ بن الیمان (حافظ ابو نعیم)
حسین! تم سید بن سید اور برادر سید ہو۔ تم امام، ابن امام اور برادر امام ہو۔ تم حجت بن حجت، برادر حجت اور نو حجتوں کے باپ ہو جن کا نواں قائم ہوگا۔ سلمان (ینابیع المودة)
مہدی کا خروج بہرحال ضروری ہے اور یہ اس وقت ہوگا جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی۔ (الشیخ، محی الدین درفتوحات مکیہ۔ الشیخ عبدالوہاب شعرانی درالیواقیت والجواہر)
امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں جو بغداد سے ٠٢ فرسخ کے فاصلہ پرہے۔ (محمد بن طلحہ شافعی در مطالب السئول)
امام حسن عسکری نے بادشاہِ وقت کے خوف سے اپنے فرزند کی ولادت کو مخفی رکھا۔(علی بن محمد بن صباغ مالکی درالفصول المہمہ)
امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ولادت کو مخفی رکھا گیا ہے۔ وہ اپنے والد بزرگوار کی حیات ہی سے غائب ہیں۔ (علامہ جامی درشواہد النبو?) امام مہدی ٥١ شعبان ٥٥٢ھ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں لوگوں کی نظر سے غائب ہوگئے۔

Imam Mahdi

Imam Mahdi

(علامہ جمال الدین در روض? الاحباب) امام مہدی ٥١ شعبان ٥٥٢ھ میں پیدا ہوئے اور انھیں امام حسن عسکری نے اس خدا کے حوالہ کر دیا جس کی پناہ میں جناب موسیٰ تھے۔ (شیخ عبدالحق محدث دہلوی درمناقب الائمہ) امام مہدی بطن نرجس سے ٥ ١شعبان ٥٥٢ھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ (عبدالرحمن صوفی درمراةآلاسرار) خلافتِ رسول حضرت علی کے واسطے سے امام مہدی تک پہنچی ہے اور وہ آخری امام ہیں۔ (علامہ شہاب الدین دولت آبادی در تفسیر بحر مواج) امام مہدی بارہویں امام ہیں۔ (ملا علی قاری در شرح مشکوٰة) امام مہدی اولاد فاطمہ سے ہیں۔ وہ بقولے ٥٥٢ھ میں پیدا ہو کر ایک عرصہ کے بعد غائب ہوگئے۔ (علامہ جواد ساباطی در براہین ساباطیہ) امام مہدی پیدا ہو کر غائب ہوگئے اور آخری دو ر میں ظہور کریں گے۔(شیخ سعد الدین در مسجد اقصیٰ) آپ پیدا ہو کر قطب ہوگئے ہیں۔ (علی اکبر بن اسداللہ درمکاشفات) محمد بن الحسن کے بارے میں شیعوں کا خیال درست ہے۔ (شاہ ولی اللہ محدث دہلوی درسالہ نوادر) امام مہدی تکمیل صفات کے لیے غائب ہوگئے ہیں۔ (ملا حسین میبذی در شرح دیوان) امام مہدی ٦٥٢ھ میں پیدا ہوکر غائب ہوگئے ہیں۔ (تاریخ ذہبی) امام مہدی پیدا ہو کر سرداب میں غائب ہوگئے ہیں۔ (ابن حجر مکی درصواعق محرقہ) امام مہدی کی عمر امام حسن عسکری کے انتقال کے وقت پانچ برس کی تھی وہ غائب ہو کر پھر واپس نہیں آئے۔ (وفیات الاعیان) آپ کا لقب القائم، المنتظر، الباقی ہے۔ (تذکرہ خواص الام سبط بن جوزی) آپ اسی طرح زندہ اور باقی ہیں جس طرح عیسیٰ، خضر اور الیاس وغیرہ ہیں۔ (ارجح المطالب) امام مہدی قائم و منتظر ہیں۔ وہ آفتاب کی طرح ظاہر ہو کر دنیا کی تاریکی کفر کو زائل فرمائیں گے۔ (فاضل ابن روز بہان ابطال الباطل) امام مہدی کے ظہور کے بعد حضرت عیسیٰ نازل ہوں گے۔ (جلال الدین سیوطی درمنثور)

تحریر: یوسف حیدر ثقلین