چور سر بازار

Accountability

Accountability

تحریر: روہیل اکبر
یہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا جڑواں بھائی ہے جی ہاں بلکل میں راولپنڈی کی بات کررہا ہوں جہاں اس وقت چوری، ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتیں اپنے عروج پر ہیں ہر پل کوئی نہ کوئی لٹ رہا ہے اور قانون کے محافظ اپنی دیہاڑیوں میں مصروف ہے ہر کوئی اپنے اپنے گاہگ تلاش کررہا ہے جی حیران کرنے والی حقیقت تو یہ ہے کہ جڑنواں شہروں کے گلی محلوں سے لیکر بڑے بڑے بازاروں میں چھینا جھپٹی کرنے والے نوعمر چوروں سے لکیر پٹواریوں اور پولیس اسٹیشن میں بیٹھے ہوئے دیہاڑی باز ذہنی معذوروں تک ہر کوئی لوٹ مار میں مصروف ہے اور آئے روز چوری ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے جو ایک بار لٹ جائے اور اس کی شنوائی بھی کہیں نہ ہورہی ہو تو پھر لامحالہ ایسے نظام پر لعنت ایک بار نہیں سو بار ڈالنے کو دل کرتا ہے خون پسینے کی کمائی جب سربازار چھن جائے تو غریب اور محنت کش افراد کس سے فریاد کریں پولیس سے جو خود چوروں اور رسہ گیروں کی غلام بن چکی ہے پیسے اور سفارش کے زریعے تھانوں میں تعیناتیاں کروانے والوں نے اپنے اپنے گروہ پال رکھے ہیں جو نہ صرف اپنے سرپرستوں پولیس والوں کا پیٹ بھرتے ہیں بلکہ جواریوں ،منشیات فروشوں اور کوٹھی خانہ چلانے والوں کی روزی روٹی کا زریعہ بھی ہیں۔

گذرنے والے ہفتہ کی رات 10بجے میں اپنے دوست رانا شاہد کے ہمراہ بلیو ایریا اسلام آباد سے راولپنڈی آیارحمن آباد سٹاف سے میں کمرشل مارکیٹ کی طرف چل پڑا جبکہ رانا صاحب ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگئے ابھی میں کمرشل مارکیٹ میں داخل ہوا ہی تھا کہ میرے ایک صحافی دوست شکیل کلیانہ کا فون آگیا سڑک کنارے چلتے ہوئے میں اس سے با ت کررہا تھا کہ پیچھے سے موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان لڑکوں نے اچانک جھپٹا مارا اور موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے اتنے رش اور بڑے کاروباری مرکز میں اس طرح کی واردات میرے لیے حیران کن تھی میں نے فوری طور پر 15پر کال کی جہاں متعدد سوالات کے بعد یہ کہہ کر رابطہ منقطع کردیا گیا کہ ابھی متعلقہ پولیس آپ سے رابطہ کرتی ہے میں نے تقریبا ایک گھنٹہ انتظار کے بعد کسی سے تھانہ کا راستہ پوچھا اور پھروہاں جا پہنچا ایک درخواست لکھی اورتھانہ نیو ٹاؤن کے فرنٹ دیسک والوں کے حوالے کردی انہوں سے سرسری نظر ڈالتے ہوئے مجھے اوپرکی منزل پر بیٹھے ہوئے ٹی اے ایس آئی عاطف کے پاس بھیج دیا۔

اس دوران جب راستہ میں بیٹھے ہوئے تھانہ کے منشی سے اوپر کا راستہ پوچھا تو اس نے بات ان سنی کرتے ہوئے سامنے بیٹھی ہوئی ایک خوبصورت لڑکی پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا کہ آپ کو کب سے لڑکا تنگ کررہا ہے تو ساتھ بیٹھے ہوئے ایک اور پولیس ملازم کے کان بھی کھڑے ہوگئے اور اس نے فوری طور پر معاملہ کی نوعیت کو بھانپتے ہوئے منشی کے سامنے پڑی ہوئے درخواست اٹھائی اور پڑھنے کے بعد فوری طور پر ایس ایچ او سے فون پر رابطہ کیا کہ کوئی موبائل شاپ والا لڑکی کو تنگ کرتا ہے اس معاملہ کو میں دیکھ لو ایس ایچ او سے اجازت ملنے پر اس نے لڑکی سے معاملہ پوچھا جس پر لڑکی نے بتایاکہ وہ قریبی ہاسٹل میں رہتی ہے ایک دن اپنا موبائل ٹھیک کروانے کسی دوکان پر گئی تو اس نے اپنا نمبر ڈائل کرکے اسکا نمبر حاصل کرلیا بعد میں وہ فون پر دوستی کی آفر کرتا رہا انکار پر دھمکیاں دینا شروع کردی اور فون نہ سننے پر قتل کی دھمکیوں پر اتر آیا درخواست لینے والے ولیس ملازم نے دوکاندار کا نمبر لیا اور پھر انہیں جانے کا مشورہ دیتے ہوئے بعد میں رابطہ کرنے کی ہدایت کر دی۔

ان سے فارغ ہونے کے بعد منشی صاحب نے مجھے اوپر کا راستہ بتایا جب میں اے ایس آئی کے کمرہ میں پہنچا تو وہاں پر دو افراد پہلے سے موجود تھے جن کے موبائل گن پوائنٹ پر چھین لیے گئے تھے اور اسی دوران ایک آدمی تقریبا16سالہ لڑکے کو پکڑے داخل ہوا کہ اس نے جناح شادی ہال کے باہر میری بیوی کا پرس اور موبائل چھین کر فرار ہونے کی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا اس کا ایک ساتھی فرار ہوگیا میں ایک گھنٹہ تھانے میں بیٹھا رہا اور اس دوران تقریبا 7افراد آئے جن سے موبائل اور پرس چھین لیے گئے تھے اتنا وقت گذرنے پر جب میں نے تھانیدار کو کہا کہ جناب میرے ساتھ پیش آنے والی واردات کی رپٹ درج کردیں تو اس نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے مجھے دوسرے دن آنے کا مشورہ دیا جس پر میں نے کہا کہ جناب مقدمہ درج کرکے مجھے ابھی اسکی کاپی دیں جس پر چاروناچار اس نے مجھے واپس فرنٹ ڈیسک والوں کے پاس بھیج دیا جب میں دوبارہ منشی کے کمرہ سے گزرا تو موصوف اپنے ساتھ پولیس ملازم کو بتا رہا تھا کہ آپکا کلائنٹ دوسرے افسر نے چھین لیا وہ سمجھا نہیں اس نے دوبارہ پوچھا تو منشی نے لڑکی کو تنگ کرنے کے حوالہ سے درخواست اور پھر دوسرے ملازم نے زبردستی تفتیش لینے کا واقعہ بتادیاجب وہ میری طرف موجہ ہوئے تو میں نے انہیں کہا کہ جناب آپ کے علاقہ میں بہت زیادہ چوری کی وارداتیں ہورہی ہیں اسکا کوئی سد باب کریں تو انکا جواب سن کر میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا کہ کچھ نہیں کرسکتے عاد ی مجرم ہیں عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں جس پر میں نے باہر موجود فرنٹ دیسک کی راہ لی اور اپنی رپٹ رات 12بجے درج کروا دی۔

جب میں تھانیدار کے کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا تو اس وقت جو بھی لٹا ہوا پریشان حال شخص آتا تھا اسکا ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ اتنے بڑے اور اہم علاقہ میں چوروں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جنکے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی باقی ملک کا کیا حال ہوگا کیا ہم چوروں کے ملک میں رہتے ہیں جہاں ایک طرف حکمران ملک کا سرمایہ چوری کررہے ہیں تو دوسری طرف پولیس والوں کی سرپرستی میں چھوٹے اور بڑے چور سر بازار کھلے عام شہریوں کو لوٹ رہے ہیں کیا اس ملک میں کوئی قانون ہے جہاں انصاف مل سکے اور قانون نافظ کرنے والوں کا بھی احتساب ہو سکے کیا ایسا کبھی ممکن ہوسکے گا؟۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03004821200