سوچیں مل کر

Justice

Justice

تحریر : شاہ بانو میر
جب ہم اصل ضابطہ حیات یعنی قرآن سے دور ہوتے ہیں تو مزاج سوچ میں رعونیت پنپتی ہے اور ہم قومی نہیں زاتی فیصلے کرتے ہیں ٬جس سے معاشرہ ابتری کا شکار ہوکر نا انصافی کو رواج دیتا ہے غیر حقیقی قوانین سے نظام تباہ ہو جاتا ہے اور ادارے برباد ہو جاتے ہیں ٬ قرآن سے دوری سے ملک ختم ہونے لگتا ہے ایسے میں ملک کو پھر سے زندہ کرنے کیلئے ماؤں کے شہزادےاس زمین پر اپنے خون کی فصل بوتے ہیں تا کہ ہمیں محفوظ کریں۔

سیاست کی سفاکی ہر قربانی ہر ایثار کو فراموش کرتے ہوئے ہمہ وقت میں “” میں “” کی تکرار سے ہمیں اپنے گرد الجھائے رکھتی ہے٬
انصاف کا ایک رخ اپنے شہداء کیلیۓ جشن کو بھرپور انداز سے منا کر ان کو بتانا ہے کہ ہم نے آپکو آج اپنی سوچ عمل میں زندہ کیا اور ہر دشمنِ وطن کو نابود کیا٬شہداء کا خون ہم سے منصفی مانگ رہا ہے تا کہ یہ ملک معتدل انداز میں اپنا سفر جاری رکھ سکے٬عدل و انصاف کرنے والے اللہ کو پسند ہیں ٬””روزِ محشر انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے٬ اور یہ اللہ رب العزت کے داہنے ہاتھ بیٹھے ہوں گے۔

ذرا تصور کیجیۓ ان کواعلیٰ درجات ملیں گےوہ صرف ان کے بہترین عدل انصاف کی وجہ سےممکن ہوں گے ٬پانامہ فیصلہ آچکا اور اب مزید ٹرائل کیلئے 6 ماہ میں فیصلہ حاصل کیا جائے گا اور ٹرائل کورٹ پر نگران جج کی تاکید کر دی گئی ٬ماہرقانون کہ رہے ہیں کہ سزا ابھی ہی سنا دی گئی ہے ٬ یعنی طےکر لیا گیا ہے کہ”” ملزم مجرم”” ہی ہے۔

یہ ٹرائل بالکل ویسے ہی ہے جیسے کسی بھی ضمنی الیکشن کا نتیجہ ہمیشہ موجود حکومت کے حق میں اس لئے آتا ہے کہ ووٹ حکومت کو دےکرعلاقہ سنوار لو٬ بین اسی طرح اس ٹرائل کورٹ نے وہی فیصلہ دینا ہے جو اس کے اوپر موجود عدالت نے دیا ٬ احتساب سب کا ہونا چاہیے مگر محتسب کا احتساب کون کرے؟ محتسب بھی تو انسان ہیں فرشتے تو نہیں ٬ فیصلہ پر دباؤ بھی ہوتا ہے مگر ابھی سےاس فیصلے کے تباہ کُن اثرات سامنےآرہے ہیں جب عدلیہ کے سابق اور موجودہ اراکین کےدرمیان اس فیصلہ اور بعد کے طریقہ کار پر تلخی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

قانون دان سراپا احتجاج ہیں ان کی رائے پر موجودہ ادارےکے سربراہان کی طرف سے انتہائی سخت زبان میں ان معززین کی بار رکنیت ختم کرنےکی دھمکی دی گئی ہے ٬ اس ادارے کا وجود بھی ڈگمگانے لگا٬ ایک سوچ تھی٬ اس تاریک فیصلےکے بعد سیاسی ابتری اس قدر بڑھ جائےگی کہ پاکستان کا وجودخطرےمیں پڑ جائے گا۔

مگر اس ماں کی طرح جس کے بچے پر ایک اور عورت بھی دعویٰ کر رہی تھی ٬ قاضی نےکہاکہبچہ دونوں عورتیں آدھا آدھا بانٹ لو ٬ماں چِلاّ اٹھی کہ یہ ظلم نہ کرنا اس کو بچہ دےدو مگر بچےکو کچھ نہ کرنا ٬قاضی اسی لمحے کا منتظر تھا اس نےماں کوپہچان لیا اور بچہ اس کو دےدیا اور دوسری عورت کو سزا دی٬یہاں بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آئی کہ جن لوگوں نےاس بار سیاسی عہد کو عوامی فلاح بہبود کیلئے مختص کیااسلام ہمی ظاہر پے قیاس کرنے کا حکم دیتا ہے٬ کھوج لگا کر معاشرے میں ہیجان پیدا کرنے سے منع کرتا ہے۔ ان کا کام اچھا ہو رہا تھا تو انہیں اچھا کہنا چاہیے تھا٬ مگر مسلسل تنقید اور ذلت آمیز رویہ حالات کو بلآخر خطرناک کنارے پے لے آیا سربراہ مملکت کو نااہل کر دیا گیا٬ یہ اپنے رہنما کی نااہلیت کے سیاسی نقصان کوخاموشی سے پی گئے جیسےکچھ ہواہی نہیں٬ وجہ تھی ان کے پورے ملک میں جال کی طرح بچھے ہوئےچھوٹےبڑےعوام کی خوشحالی کیلیۓ کامیاب ترقیاتی منصوبے جنہیں اس بار ہرقیمت پر تکمیل تک پہنچا کردم لینا ہے٬ سی پیک پر جاری اندرون بیرونِ ملک سے سازشی ہتھیاروں کو ناکام بنانا ہے۔

عوامی کا غیض و غضب نقطہ عروج پر تھا جس کو انہوں نے تحمل سے ٹھنڈا کیا٬ ٬ اس سے پتہ یہ چلا کہ دین ہو یا دنیا عوام کا ہجوم انہی کےہاتھ میں ہے ٬ یہ لوگ ٹھیک چلیں تو ملک ٹھیک چل سکتا ہے٬ اس جماعت نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ سیاسی پختگی سے وہ نظام کو مستحکم رکھنا جانتے ہیں۔

نواز شریف پروزارت عظمیٰ کی بھاری بھرکم ذمہ داریاں تھیں٬ ملکی معاملات کی بھری گاگر ان کے سر پر تھی٬ ایک قدم الٹا پڑتا تو چھلک جاتی٬ اب بوجھ ہٹ گیا ہےاب کھل کرسیاست ہوگی ٬ ملک کی وزارت کے بعد پارٹی کی صدارت بھی ٹیکنیکلی واپس لی جائےیا انہیں چھوڑنی پڑے ٬
تو کیا ہوگا۔

ایک غلط فیصلے نے انہیں”” سیاسی شہید”” بنا کر ان کا قد مزید بلند کر دیا ہے٬ ان کی جماعت کی مضبوطی اورطاقت پہلے سےدوچند ہوئی ہے٬ کابینہ کاپہلی میٹنگ میں نواز شریف پر اعتماد کا بھرپور اظہار٬ اب نوازشریف ہر وزیرکے انٹرویو میں سیاسی طور پرزندہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں٬۔

بھٹواور بی بی کی طرح “”جاوداں “” کردیا نوازکو بھی ٬ جمہوریت کے نام پر جاری یہ شتر بے مہار بد نظمی انتشاراورحجم میں پھیلتا ہوا یہ بگولہ نجانے کس کس کو اپنی لپیٹ میں لے کر نجانےکس نہج پے جا کر رکے گا٬سیاسی گرتا ہوایہ اندازکس جمہوریت کی شنید ہے؟ بےقابوزبانیں اوردست وگریباں ہوتی یہ سیاست کیا جمہوریت ہے۔

ملک بھر سے لوگوں کایہی خیال ہےکہ ایک بارپھرملک کےعدالتی نظام میں سیاست کھیلی گئی حکومت کوغیر فعال کرنےکی سازش تھی٬عدالت کے کسی فیصلے نےدانشمندانہ طرز حکومت کی وجہ سے خاص فرق نہیں ڈالااسٹاک مارکیٹ کا بڑہتا ہوارحجان سرمایہ داروں کا اظہار اطمینان ظاہر کر رہا ہے ٬کل وہ صرف “” رہنما”” تھا آج توعدالت کے فیصلےکے بعد مظلوم ہوکراور محترم ہوگیا۔

سیاست شور سے نعروں سے ہنگاموں سے ہوتی توآج وزیراعظم کوئی اور ہوتا٬موجودہ حکومتی اراکین کےکام اور ارادے جتنےطاقتور ہیں اتنا ہی سامنے سےابھرتا سیاسی ہنگامہ خطرناک حدکو چھورہا ہے٬ بڑہتا ہوا سیاسی عدم استحکام اور اداروں کا بڑہتا ہوا باہمی ٹکراؤ خوفناک تصادم کاپیش خیمہ ہے٬عوام اس اگست کو مستحکم پاکستان کے مضبوط سیاسی نظام کی چھتری تلے بے فکری سے منانا چاہتی ہے۔

یہ حق بہر حال تسلیم کر کے اس وقت کی ہیجانی سیاست کو ختم کر کے ملک میں جاری عوامی جشن میں سب کو شمولیت اختیارکر کے دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیناہوگا یہ حق ہے ہراُس شہیدکا جو خواہ شہری تھا یا سپاہی خون کا ایک ایک قطرہ ہمارا محافظ بنا کہ ہم آزاد فضا میں بے فکری کا سانس لے رہے ہیں٬ اپنے سانس دے کر ہمیں زندگی دینےوالوں کو خراج تحسین پیش کرنا لازم ہے٬ ٬ یہی حب الوطنی کا بہترین تقاضہ اور وقت کی پُکار ہے٬ چلو انہیں سوچیں آج مل کر خُدا کرے کہ
مری ارضِ پاک پے اترے وہ فصلِ گُل
جسے کبھی اندیشہِ زوال نہ ہو٬
خُدا کرے کہ کہ اِک بھی ہم وطن کیلئے
حیات ظلم نہ ہو زندگی عذاب نہ ہو

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر