یہ ہے زمانہ کوئی برا نہ منانا

Adzan

Adzan

تحریر: شفقت اللہ خاں سیال
آج کے اس زمانہ میں جب کوئی دین اسلام کا نہیں ۔نماز ۔روزہ ۔حج ۔زکوة سب کچھ بھول چکے ہیں ۔آج جب مسجدوں میں آذان ہو رہی ہوتی ہے ۔توہم اس اذان کا احترام نہیں کرتے ۔کوئی ٹی وی دیکھ رہا ہے ۔تو کوئی گانے بجانے کی محفل سجا کر خود کو بہت بڑا تیس مار خان سمجھے بیٹھا ہے۔موت تو آج کے مسلمانو ں کو بھول چکی ہے۔ان کو نہیں معلوم کہ ایک دن مرنا بھی ہے ۔تو اس وقت جا کر اپنے پیارے رب کو کیا منہ دکھانا ہے۔کئی ایسے لوگ بھی دیکھے ہیںجن کو نماز نہیں آتی ۔نماز جنازہ نہیں آتا۔آج ہم کو اپنے بچوں کی سکول کی تعلیم تو یاد ہے۔ مگر یہ بھول گئے ہیں۔کہ یہ بس دنیاوی ہے سب کچھ اصل تو اس وقت اس تعلیم نے ہی کام آنا ہے۔جو راہ نجات کا ذریعہ ہے۔لیکن افسوس آج اگر کسی گھر میں چار بھائی ہیں ۔تو ان کے ماں باپ کے الفاظ ہوتے ہے کہ میرا بڑا بیٹا انجینئر بنے گا۔دوسرا ڈاکٹر۔تیسرے کو پایئلٹ بنائیں گئے۔اور خاموش ہوگئے۔

تو جس سے بات کررہے تھے ۔اس نے کہا کہ آپ نے اپنے چوتھے بیٹے کا نام کیوں نہیں لیا۔تو وہ بولا کہ اس کا نام لینے سے کیا فائدہ وہ تو انتہائی نالائق ہے ۔جب دیکھیں اس کو پڑھائی میں کم نمبر ملتے ہے۔ساتھ ہی بڑے عجیب اندذ میںبولا ہم اس کو مولوی بنا دیں گے۔ مسجدجائے گا ۔مسجد میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرئے گا۔اور پھر بعد میں اس کو مسجد کا مولوی بنا دیں گے۔مسجد میں جماعت کروائے گا۔تو خدا نے اس کی اسی وقت سن لی ۔اس کا ایک بیٹا ڈاکٹر۔دوسراانجینئر۔تیسرا پائلٹ بن گئے۔جتنا ماں باپ نے ان کی تعلیم وتربیت پر پیسہ لگایا۔ان کو ٹائم دیا۔اب ان کے پاس اپنے ماں باپ کو دینے کیلئے نہ ٹائم ہے ۔اور نہ ہی اخراجات اور وہ جس بیٹے کو ناکارہ کہتے تھے ۔وہی اپنے ماں باپ کی خدمت کرنے لگا۔وہ قرآن پاک کا حافظ بن گیا تھا ۔اور بعد میں نمازیوں کو نماز پڑہاتا تھا۔اب وہی اپنے ماں باپ کی خدمت کرنے لگا۔

Poor

Poor

یہ بات دوسرے بھائیوں کو بری لگی۔ کہ یہ غریب والدین کی کیا خدمت کرئے گا۔یہ تو خودایک غیریب انسان ہے۔وہ جب اپنے والدین کو اس کے پاس سے لینے آگئے۔توبولے کہ آپ ہمارے ساتھ چلیے تو ماں باپ نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔اور کہا کہ پہلے ہم سے بہت بڑی غلطی ہوچکی ہے ۔اب ہم اس کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔آپ لوگ جائو آج تم کو یاد کیسے آگئی۔تو ان میں سے ایک بولا کہ لوگ ہم کوباتیں کر رہے ہے۔

ان کا باپ بولا کہ تم کو لوگوں کی باتوں کا ڈر ہے ۔لیکن اس کو اپنے رب کا ڈر ہے اب ہمارے پاس آپ لوگوں کودینے کو کچھ نہیں آپ جائوں یہاں سے۔جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ آپ لوگوں کے پڑہنے لکھنے پر لگا دیا ۔جو بچا تھا وہ آپ لوگوں نے میرے سے ویسے ہی لے لیا۔ہم نے تو تم لوگوں کی شادیاں بھی کروائی دی ۔اب ہمارے پاس تم کو دینے کو کچھ نہیں تم لوگ تو اپنے بھائی کا بھی حق کھا چکے ہوں ۔اب اس سے ماں باپ کا پیارے بھی لینا چاہتے ہو۔آج اس خود غرض دینا میں کوئی کسی کا نہیں ۔ایسے لوگ ہے کہ جب مطلب ہوتا ہے ۔اس وقت رشتے دار دوست یاد آجاتے ہے ۔اور جب کام نکل جائے ۔پھر توکون میں کون۔

آج کے اس دور میں لوگ بڑے فخر سے کہتے ہے۔کہ میرا بیٹے نے ایم اے۔بی اے۔کرلیا ہے اگر اس سے پوچھا جائے ۔کہ دین اسلام کی تعلیم بھی دی اپنے بیٹے کو کہ نہیں ۔توکچھ ایسے لوگ ہوں گئے جن کا سرشرم سے جھک جاتا ہوگا۔ایسے لوگوں سے پوچھا جائے ۔تو اگر کل مرجائے گا ۔تو اس وقت تیرا بیٹا تیرا نماز جنازے میں کیا پڑھے گا۔جب اس کو نمازے جنازہ آتی ہی نہیں تو اس نے کیا پڑھنی ہے۔اس کو دین اسلام کے بارے پتہ ہی نہیں ۔جس کو نماز عید۔نماز جمعہ کا پتہ نہیں تو اس کے اس علم کا کیا فائدہ۔اس کو تو اپنے پڑوسی کے حققوق کے بارے نہیں پتہ ہوگا؛کہ پڑوسی کے کیا حققوق ہے۔رشتے داروں کے حقوق کا اس کو علم نہیں ہوگا ۔کہ اپنے ہی غریب رشتے دار کے ساتھ کیسا سلوک رکھا جاتا ہے۔

Jhang

Jhang

اگر کوئی آپ کو امانت دے جائے اس کی امانت میں خیانت نہیں کرنی۔ایسے نہیں جیسے آج کے لوگ غاسب بن کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا حق کھا رہے ہے۔سرکاری دفتروں میں ہی دیکھ لیں۔سب تو ایک جیسے نہیں پر اکثریت ایسے لوگ ہے ۔جواپنے ہی بھائیوں کو لوٹ رہے ہیں ۔اب جیسا کہ ٹی ایم جھنگ۔لوکل گورنمنٹ اور پبلک ہیلتھ کے کام چل رہے ہے ۔پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سا کام کس محکمہ کا ہے ۔احکام بالا اگر اپنی خصوصی ٹیموں کو جھنگ بھیجے تو ان کو بھی پتہ چلے کہ کام کیسا کروارہے یہ کروڑوں روپے کے کام ٹی ایم اے نے کروائے۔اور ابھی کروا رہا ہے۔یہی حالت پبلک ہیلتھ اور لوکل گورنمنٹ کی ہے ۔مگر شہر میں جس طرف بھی دیکھوں گردوغبار مٹی اڑتی نظر آئے گئی۔

ضلع جھنگ نے کیا ترقی کرنی ہے تحصیل جھنگ کو ہی دیکھ لے جس کے آج تک کسی چوک میں کوئی ٹریفک اشارے تک نہیں لگائے گئے۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے۔کہ لاری اڈا جھنگ کے ٹھیکہ 2001/2002 میں 55 لاکھ اور ٹھیکیدار نے جو ملازمین کو تنخواہیں دی وہ 9 لاکھ 55 ہزارتھی۔ 2002/2003 میں جوٹینڈر ہوا 71 لاکھ روپے اور اس ٹھیکیدار نے جو ملازمین کو تنخواہیں دی وہ 18 لاکھ 42 ہزار۔جو ٹینڈر 2003/2004 میں ہوئے۔تقریبا 98 لاکھ روپے اور ملازمین کو تنخواہیں دی ۔ 20 لاکھ 71 ہزار روپے ۔جو ٹینڈر 2004/2005 کو ہوئے ۔ 90 لاکھ اور ملازمین کی تنخواہیں دی 25 لاکھ 19 ہزار ۔ 2005/2006 کو جو ٹینڈر ہوئے ۔97 لاکھ۔ ملازمین کی تنخواہیں دی۔ 25 لاکھ 57 ہزا۔ جو ٹینڈر 2006/2007 ١یک کروڑ 15 لاکھ 50 ہزارروپے۔ملازمین کو تنخواہیں دی ۔35لاکھ 45 ہزار۔ 2007/2008 میں جو ٹینڈر ہوئے 46 لاکھ 30 ہزار ۔یہ ٹھیکہ چھ ماہ چلا۔

اس میں ملازمین کو تنخواں 39 لاکھ ۔ 2008/2009 میں لاری اڈا کی وصولی ٹی ایم اے نے شروع کی جس کی آمد 9 لاکھ۔2009/2010 میں وصولی 9 لاکھ 20 ہزار۔ 2010/2011 میں 10 لاکھ 87 ہزار۔ 2011/2012 میں 7 لاکھ 43 ہزار۔ 2012.2013 میں 9 لاکھ 57 ہزار۔ 2013.2014 میں 2 لاکھ 21 ہزار دو سو۔ 2014.2015 ۔میں 2 لاکھ 25 ہزار۔کیا یہ افسران کی نا اہلی نہیں کہ کروڑ کا جو ٹھیکہ ہوتا تھا۔ آج اس کی آمد دو لاکھ 25 ہزار کیوں رہ گئی ہے۔اور ملازمین کو تنخواہیں بھی ٹی ایم اے دے رہا ہے۔اس کی طرف کیوں کوئی افسر توجہ نہیںدے رہے۔اس کے ذمہ دار کون سے افسران ہیں ۔جھنگ انتظامیہ نے کیوں اپنے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ کوئی تو نیک اور فرض شناش افسر ہوگا ۔جو جھنگ کا لاری اڈا آباد کروائے گا۔اور ہر چوک میں ٹریفک اشارے لگوائے گا۔ جاری ہے۔

Shafqat Ullah Khan

Shafqat Ullah Khan

تحریر: شفقت اللہ خاں سیال