سیلاب کی آمد اور ستلج ہیڈ اسلام ورکس

River

River

سید مبارک علی شمسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قدیم زمانے میں دریا اپنی من مانیاں کرتے تھے جہاں سے انکا دل کرتا تھا یہ اپنا رخ اس سمت موڑ کر راستہ بنا لیتے تھے اور بہنا شروع کر دیتے تھے۔ جس سے بیشتر علاقے دریا بردہو کر دنیا کے منظر نامے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتے تھے ۔ جانی و مالی نقصانات کیساتھ ساتھ پانی کا ضیاع بھی ہوتا تھا اور اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت نصف سے زیادہ دنیا پر گوروں کی حکومت قائم تھی۔ دریاؤں کے نقصانات سے بچنے کے لئے انگریز مختلف قسم کے منصوبے بناتے رہتے۔ بالآخر کافی سوچ بیچار کرنے کے بعد یہ ایک بتیجہ پر پہنچے اور ایک بہت بڑے پراجیکٹ کے تحت دریاؤں کے اوپر پل باندھ کر دریاؤں کے پانی کو ایک مخصوص سمت اور ایریا میں بہنے پر پابند کر دیا ۔ اور ان پلوں کو ہیڈ(Head) کا نام دے دیا۔ انگریز حکومت کے اس پراجیکٹ سے پانی (سیلاب) سے ہونے والے جانی و مالی نقصان میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ جہاں دریاؤں پر پل باندھ کر وہاں سے نہریں نکالی جائیں

اسے ہیڈ کہتے ہیں۔اور جہاں نیریں نہ نکالی جائیں اسے سیفن(SYPHAN) کہتے ہیں۔ میلسی کے قریب ہیڈ سیفن بھی دریائے ستلج پر واقع ہے۔ ہیڈ اسلام سطح سمندر سے 469 فٹ کی بلندی پر ہے۔ ہیڈ اسلام دریائے ستلج کا ہیڈ ورکس ہے۔ یہ ایک خوبصورت پکنک سپاٹ ہے اور انگریز دور حکومت کی ایک شاہکار تعمیر ہے۔اسے 1927 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہاں محکمہ انہار کا ریسٹ ہاؤس بھی ہے اور لبِ دریا انگریز تہذیب کی ایک ریگویشن بلڈنگ اپنے جاہ و جلال اور خوبصورتی کیساتھ موجود ہے۔جو کہ محکمہ انہار کے قبضے میں ہے۔ ہیڈ اسلام حاصل پور سے وہاڑی جانے والی 20 فٹ چوڑی ایک برق رفتار شاہراہ پر 14 کلومیٹر کی مسافت پر ہے اس کو سٹیٹ ہائی وے بھی کہا جاتا ہے۔ بوریوالہ ، وہاڑی اور کرم پورسے ہیڈ اسلام آنیوالوں کے لئے لڈن شہر مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ سابقہ ایم این اے نتاشا دولتانہ کا شہر ہے اور ایک جرنی بس سٹاپ ہے یہاں سے ہیڈ اسلام کا فاصلہ سمٹ کر6 کلومیٹر رہ جاتا ہے اور قدیمی شہر قائم پور سے 22 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ ہیڈ اسلام سے پہلے قدیمی گاؤں نورشاہ سیداں آباد ہے جو کہ یہاں کی سادات کے بزرگ نورشاہ کے نام سے منسوب ہے اور دریا کاپل عبور کرتے ہی دریا کے کنارے شرقاً اور غرباً دو قدیمی بستیاں ماڑی اور پلہ آج بھی آباد ہیں ماڑی میں دادپو ترا اور پلہ میں جوئیہ قبائل آباد ہیں اسی بستی کی نسبت سے علاقے کے بیشتر لوگ ہیڈ اسلام کو ہیڈ پلہ بھی کہتے ہیں۔دریائے ستلج کی مچھلی بہت لذیز ہوتی ہے اور اسے بیرون ممالک ڈبوں میں بند کر کے سپلائی کیا جاتا ہے ۔

انڈیا سے آنیوالا سکھ بیاس نامی دریائی نالہ چیچہ وطنی کے قریب سے دریائے ستلج میں آکر گرتا ہے۔جسے بھارت سرکار نے گذشتہ کئی برسوں سے بند کیا ہوا ہے۔ ہیڈ گنڈاسنگھ بھارت میں دریائے ستلج پر آخری ہیڈ ہے ۔ جہاں سے اخراج کے 7 دن بعد پانی ہیڈ اسلام پر آ پہنچتا ہے۔ اور ہیڈ اسلام کی برداشت 3 لاکھ کیوسک تک ہے۔ہیڈ اسلام کے مقام پر دریائے ستلج کا پیٹ 1622 فٹ بنتا ہے۔ ہیڈ اسلام سے دو نہریں نکالی گئی ہیں بہاول کنیال اور قائم پور کنیال۔ بہاول کنیال میں پانی کا بہاؤ2500 کیوسک اور قائم کنیال میں 484 کیوسک ہے۔ دریائے ستلج ، ہیڈ سیفن، ڈیرہ بکھا ، لودھراں ، جلال پور پیروالا اور ہتھیجی سے گزرتا ہوا اوچ شریف کے اوپر سے ہیڈ پنجند میں جا ملتا ہے۔ پہلے دریائے ستلج ساون اور بھادوں کے مہینے میں زوروں پر ہوتا تھا اور پانی کی آواز میلوں تک سنائی دیتی تھی۔

Southern Punjab

Southern Punjab

کیونکہ یہ دریا جنوبی پنجاب کے صحرائی علاقوں کو سیراب کرتا تھا اور بہاول پور کے چولستانیوںکی فصلیں اسی دریا کے پانی سے سیراب ہوتی تھیں ۔ مگر پاکستان دشمن حکمرانوں کو یہ بات گوارہ نہیں تھی سو انہوں نے دریائے ستلج سمیت تین دریاؤں کا پانی انڈیا کو فروخت کر دیا تھا۔انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے ستلج پر زیادہ ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کے لئے تالاب بنائے اور ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ انڈیا دریائے ستلج پرمزید 24 ڈیم بنائے گا۔ بھارت کی اس آبی دہشت گردی اور سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی پر ہماری حکومت آنکھوں پر پٹی باندھ کر اطمینان کی نیند سوئی ہوئی ہے۔

دریائے ستلج میں 1955 اور 1980 اور1988 اور1995 میں آنیوالے انتہائی اونچے درجے کے بدترین سیلاب نے بہت تباہی مچائی تھی اور بعد میں نچلے درجے کے سیلاب آتے رہے جس سے نشیبی بستیاں زیر آب آتی رہیں مگر جانی نقصان نہیں ہوا۔ ہیڈ اسلام کے اوپر دو حفاطتی بند (1) RRE اور (2) LRE باندھے گئے تھے تاکہ پانی کو کنٹرول کیا جا سکے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حفاطتی بندوں کی حالت کیسی ہے اب جبکہ بھارت سے دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے کی دھمکیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں جب بھارت کے ڈیم بھر گئے پانی وافر ہوا تو بھارت نے بن بتائے دریائے ستلج میں پانی ضرور چھوڑنا ہے کیونکہ بھارت پاکستان کو تباہ کرنے کی تاک میں لگا ہوا ہے اوراس لئے وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

بھارت نے 1988 میں دریائے ستلج میں 7 لاکھ کیوسک سے زائد پانی چھوڑا تھا جس سے ہیڈ اسلام کو بچانے کیلئے مہر آباد کے قریب سے حفاظتی بندRRE میں بارودی مواد سے شگاف ڈال دیا گیا تھا جس سے تاریخی شہر لڈن سمیت سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے تھے اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی ہوا تھا۔ اب دونوں بند جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں لوگوں نے بند توڑ کر اپنی فصلیں کاشت کر رکھی ہیں۔ اور اصل بند توڑ کر بااثر افراد نے اپنی زمینوں کے اردگرد غیر قانونی بند بنا رکھے ہیں اور بند میں شگاف ڈال کر غیر قانونی پانی کے موگے لگا رکھے ہیں۔ کیونکہ انہیں متعلقہ حکام اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ہیڈ اسلام کے گیٹوں اور مشینری کے لئے ملنے والے فنڈز ایکسئین انہار خود ہضم کر کے استعمال شدہ موبل آئل استعمال کر رہا ہے

جس سے چرخیاں اور آہنی رسے خشکی کی وجہ سے وقت سے پہلے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اُدھر محکمہ صحت نے سیلاب کے پیش نظر علاقے میں حفاظتی اسپرے کا انتظام کیا ہے۔ تا کہ وباپھیلانے والے مچھروں اور مکھیوں کا خاتمہ ہو سکے تاکہ ڈینگی وائرس سمیت دیگر وبائی امراض سے بچاجا سکے مگر متعلقہ ملازمین اسپرے کرتے وقت مقدار پوری نہیں ڈالتے جس سے مکھیاں اور مچھر نہیں مرتے لیکن انکے ٹی ، اے ، ڈی ،اے ضروربن رہے ہیں حکومت اسکا نوٹس لے تاکہ سیلاب متاثرین وبائی امراض سے بچ سکیں اور حکومت ہوش کے ناخن لے اور بھارت کی آبی دہشت گردی اور سندھ طاس معاہدے کے خلاف احتجاج کرے اور عالمی سطح پر آواز بلند کرے تاکہ بھارت مزید ڈیم نہ تعمیر کر سکے اور سیلاب سے بچنے کیلئے اپنی آپس کی رنجیشیں ختم کر کے ڈیم اور پانی کے ذخائر بنائے تاکہ اس قدرتی آفت سے بچاجا سکے ورنہ ہماری داستاں نہ ہو گی داستانوں میں۔

Mubarak Shamsi

Mubarak Shamsi

سید مبارک علی شمسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ای میل۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com