وقت کی چھلنی (سبق)

Mukhtaran

Mukhtaran

تحریر: شاہ بانو میر
آج نزیر صاحب کی حویلی میں مہینوں بعد مختاراں آئی تھی۔ وہی مخصوص کام ہمیشہ سے یا تو شادیاں یا پھر گندم کی صفأئئ کا مرحلہ۔ جو مختاراں کے خاندان نے ہمیشہ سر انجام دیا تھا۔ اسکی پردادی سے لے کر مختاراں تک کی نسل آج تک وہی اس حویلی کے مکینوں کے کچھ خاص کام دور گاؤں سے آکر سر انجام دیتی تھی۔ معتمد معتبر ماضی کے ایسے لوگ ملازم نہیں کہلاتے۔ رشتے دار بھی نہیں ہوتے اپنی قناعت کی چادر میں پاؤں سمیٹے احترام کے دائرے میں کسی نہ کسی بڑے خاندان سے منسلک ہو کر مشکل وقتوں میں آسانی حاصل کرت تھے ۔ ماضی میں امراء ہر ایرے غیرے کو اپنے درمیان نہیں دیکھنا پسند کرتے اعلیٰ معیار قائم تھا ملازمین کیلئے بھی۔ دوسری جانب مختاراں جیسے گھرانے بھی عسرت میں رہ کر ہر دولتمند کی طرف للچائی ہوئی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ منتخب لوگ اور گھرانے ہوتے ہں جہاں یہ کسی خاندان کے فرد کی طرح آتے اور جاتے تھے۔

جہاں انکی حیثیت کو جتلا کر ان کی انا مجروح نہں کی جاتی تھی ۔ ان کا بھرم بھی مشکلات میں یہ امراء قائم رکھتے تھے ۔ مشکل وقت پر نزیر صاحب جیسے لوگ آکر دولت کا پردہ تان دیتے تھے جس سے یہ سفید پوش لوگ معاشرے میں بآسانی سانس لے سکتے تھے ؛ مختاراں جیسے گھرانے وضع دار تھے ۔ بلاوجہ زیادہ آمد ورفت سے گھر والوں کے ذہنوں میں تنگی نہیں پیدا کرتے تھے۔ ہمیشہ ایک جیسا ٹھہراؤ اور فاصلہ نسل در نسل قائم رکھتے تھے۔ مختاراں نے نور کے تڑکے صحن میں بڑی بڑی چادریں بچھائیں ۔ اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر برساتی میں رکھیں گندم کی بوریاں میں سے ایک بوری کو بڑے بڑے برتنوں میں ڈال کر کمال مہارت سے نیچے صحن میں بچھی ہوئی چادروں پر ڈالی۔ اسی اثناء میں اسکی بیٹی گھر کے کونے میں موجود بڑے سے کمرے سے یہ بڑے بڑے چھاج اور چھلنیاں لے کر آگئی۔ گھر کے بچے چھٹیاں ہونے کی وجہ سے علی الصبح اٹھنے سے کتراتے تھے۔

مگر مختاراں کا شور مچا مچا کر کام کرنا ان سب کو جگا گیا۔ ایک ایک کر کے وہ سب مختاراں کے گرد اکٹھے ہو کر دلچسپی سے گندم کو اس کے برتنوں کو دیکھنے لگے۔ بچوں کا مختاراں کے ساتھ گھُل مِل کر بیٹھنا دونوں جانب کے طبقاتی فرق پر تمانچہ تھا ۔ اس سادہ سے تعلق میں دونوں جانب سے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اعلیٰ ظرفی کا ہمیشہ اظہار دیکھنے کو ملتا تھا۔ مختاراں گاؤں سے تحفے میں لائی ہوئی چیزیں بڑے اعتماد سے بچوں کیلئے اور بڑوں کیلئے لاتی۔ آتے ہوئےگرمیوں میں”” ستو “” گُڑھ “” لاتی بچوں کیلئے الگ نوعیت کا ذائقہ اور مشروب ہوتا۔ گھر کا بنا دیسی خالص گھی خالص جزبوں سے لاتی تو کبھی مکئی کا آٹا کبھی سرسوں کا ساگ اور ذائقہ ایسا کہ کبھی بازار سے خریدا ہوا ساگ وہ لذت نہ دے۔

Suits

Suits

شائد مختاراں کی محبت اسے لذیذ بنا دیتی تھی کہ کس محبت سے گٹھا اٹھاتی اور پھر دور دراز سواری لے کر کئی بسیں بدل کر صرف محبت کے اظہار کیلئے وہ مکھن کی گڑوی اور ساگ ساتھ ساتھ مکئی کا آٹا ۔ کبھی دیسی گھی کا ٹِن۔ گھر والے بھی اسکی معاشی حیثیت سے بخوبی واقف تھے وہ کبھی ان چیزوں کی قیمت نہیں دیتے تھے مُبادا مختاراں کا دل بُرا ہو اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو۔ اسی لئے جاتے ہوئے ان سلے کپڑوں کو شاپر نئی جوتوں کے جوڑے اور مردانہ کپڑوں کا شاپر ساتھ ہی موسمی پھل اور کرائے کے نام پر مناسب رقم اسکو بصد اصرار دی جاتی ۔ یہ تعلق بڑے بزرگوں کے وضع کردہ ہیں یہی وجہ ہے کہ دور جدید کے بچے نک چڑھے جلد باز اور محدود واسطے رکھنے کے باوجود بڑوں کو ان کی عزت کرتے دیکھ کر اپنے مزاج کے خلاف انہیں عزت دینے پر مجبور تھے۔

یہ تھے ہمارے اسلاف اور ان کے سبق ان لوگوں کی خدمات میں بھی کئی اسباق پوشیدہ تھے کیسے آئیے جانتے ہیں، گندم کو بڑے بڑے چھاجوں میں ڈال کر مضبوط اعصاب رکھنے والی مختاراں ہاتھ بلندی پر لے جاتی دائیں بائیں چھاج کو لہراتی اور پھر بچے دیکھتے”” جادو”” ہو جاتا۔ چھاج میں موجود گندم الگ اور فاضل اجزاء جیسے تنکے (ککھ) باریک پتھر (وٹّے) اور بھوسی (پرالی ) کے بالکل باریک باریک اجزاء از خود اس عمل سے آگے آ گئے اور صاف گندم پیچھے رہ گئی۔ مختاراں نے کمالِ مہارت سے ان بیکار اجزاء کو ایک طرف ہاتھ سے نکالتی اور پھر اسے ایک جانب ڈھیر کی صورت اکٹھا رکھ دیتی کئی بار گندم کے ساتھ یہی عمل کرتی رہی۔ عصر پڑھ کر جب اس نے اس گندم کو اب چھلنی میں چھلنا شروع کیا تو اس چھلنی سے مزید باریک فاضل اجزاء باریکی سے گرتے رہے کہیں وہ کنکر جو چھاج نہیں آگے لا سکا تھا تو کہیں وہ تنکے جو چالاکی سے گندم کی اوٹ میں خود کو بچا گئے۔

مگر چھلنی نے سب کو چھان دیا۔ صاف ستھری گندم اپنی بہار دکھا رہی تھی ۔ واضح فرق ظاہر ہو رہا تھا بوری سے نکلی ہوئی گندم کا اور چھاج کے بعد چھلنی میں چھل جانے والی گندم کا۔ گھر کے بچے بہت انہماک سے آج صبح ی سے اپنی ساری مصروفیات ترک کر کے اس دلچسپ مظاہرے سے لطف اندوز ہو رے تھے ۔ یہ عمل اور ایسے لوگ آج ناپید ہیں۔ مختاراں نے بچوں کی حیرت کو نگاہوں میں تولتے ہوئے آج کے دن کی محنت کو لفظوں میں یوں پِرویا۔

Wheat

Wheat

میرے بچو؛ یہ دیکھو مختاراں نے ایک طرف پڑے فالتو اجزاء کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ چھلنی سے چھل، کر نکلے ہیں یہ وہ اجزاء ہیں جو گندم کے ذائقے کو خراب کرتے چکی میں پیستے ہوئے آٹے میں شامل ہوتے اور روٹی کھاتے ہوئے سب کو آٹا ریتلا محسوس ہوتا اور کھانے کا لطف برباد ہو جاتا۔ اسی لئے قدرت نے ان کو الگ کرنے کا طریقہ دیا۔ بالکل ایسے ہی زندگی ہے ہمارے اطراف میں بہت سے لوگ پہلی سانس سے آخری سانس تک دکھائی دیتے ہیں ۔ مگر وقت کی چھلنی اور چھاج انہیں چھن دیتا ہے ۔ وہ لوگ جو اللہ کو ہمارے لئے اچھے لگتے ہیں جو ہمارے لئے مخلص ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ یونہی رہتے ہیں جیسے یہ گندم کے صاف ستھرے دانے ایک ساتھ ہیں۔ اورجو ہمارے لئے مُضر ہوتے ہیں وہ ہماری زندگیوں میں آئے مختلف معاملات سے قدرت ہم سے دور کر دیتی ہے۔

کیونکہ وہ پاک ذات جس نے ہمیں تخلیق کیا وہ ہمارے لئے 70 ماوؤں سے زیادہ ہمدرد ہے وہ ہمیں وہ عطا کرتا ہے جو ہمارے لئے فائدہ مند ہے۔ زندگی کی چھلنی کو چھنتے ہوئے محسوس کرو ہر انسان کے ساتھ قدرت کی چھلنی ہے۔ بس اس سے چھننے والے چھن جائیں تو دکھ نہیں شکر کرنا چاہیے۔ اللہ انہیں ساتھ رکھتا ہے ہم سب کے جو ہمارے لئے اچھے ہیں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کوتاہیوں کو نظر انداز کر کے جینا مشکل امر ہے مگر اسی میں اصل کامیابی پوشیدہ ہے میرے بچو۔ الگ ہونے والے پر افسردہ نہیں ہونا بلکہ موجود رہنے والے رشتوں پر شکر کرنا ہے۔

بچے مختاراں کی باتوں پر گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیے جیسے وہ اس سادہ عورت کی زندگی،کے عام سے سادہ تجربے کی وسعت گہرائی کو سمجھنے کی کوشش میں غلطاں ہوں۔ یہ چھلنی بہت بڑا سبق ہے “” یہ وقت ہے”” اس میں آپ کے ساتھ موجود لوگ آپ سمیت یونہی چھلنی سے پرکھے جاتے ہیں۔ بچے شوخی شرارت بھول کر آج سارا دن الگ ہوئے بھوسے کے بے جان ڈھیر اور مقوی طاقتور غذا کے صاف ڈھیر سے پرکھ چکے کہ وقت کی چھلنی کا بھی یہی نظام ہے۔ ضرورت ہمیں اپنے ہمراہ لوگوں کی قدر کرنے کی ہے ۔ یہ وقت کی چھلنی سے چھن کر اللہ کا تحفہ ہیں۔ اور اسکی حکمت کا ہمیں شعور کہاں؟ آئیے وقت کی چھلنی کا مشاہدہ شروع کریں انشاءاللہ کامیابی مقدر بنے گی۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر