عنوان اب بھی سمجھ جائو

Fire

Fire

ایک دفعہ ایک جنگل میں آگ لگ گئی کئی جانور پرندے جنگل سے بھاگنے اور اڑنے لگے ایک چھوٹا سا پرندہ اپنی چونچ میں دور سے پانی بھر کر لاتا اور جنگل کی آگ پر پھینکتا۔ یہ عمل وہ بار بار کرتا کسی سمجھ دار پرندے نے پوچھا کہ بھائی یہ تم کیا کر رہے ہو۔ ؟تمہارے اس قطرے سے یہ آگ بجھنے والی نہیں تم خو د بھی اس میں جل سکتے ہو تو اس چھوٹے سے پرند ے نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ میری اس کوشش سے آگ نہیں بجھے گی مگرجب تاریخ لکھی جائے گی۔

میرا نام آگ بجھانے والوں میں ہوگا نہ کہ آگ لگانے والوں میں۔نامور دانشور محققین ‘تجزیہ نگاراپنے تئیںکسی نہ کسی مثال یا کہانیوں کے اسباق کی صورت میںقوموں کو تحمل بردباری اپنائیت روادری اور انسانیت کی خدمت کے درس دیتے رہتے ہیںمگر بہت سے انسان جو خود پسندی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ان نصحیتوں پرکوئی کان نہیں دھرتے دراصل خود پر فخر کرنے کی لت میں مبتلا ہوچکے ہوتے ہیں اور خود پر فخر کرنے کی نفسیات ایک خطرناک نفسیات ہے۔

خود پر فخر کرنے والا انسان خود احتسابی کرنے کے قابل نہیں رہتا، اپنی کامیابیوں کے بارے میں مبالغہ آرائی کرتا ہے یہاں تک کہ دوسروں کو حقیر جاننے لگتا ہےـ اپنی کامیابیوں کے بارے میں انسان کے اندر شکر کی نفسیات ہونی چاہیئںـ شکر کرنے سے انسان غرور و تکبّر سے دور رہتا ہے اور اسے یہ بات ذہن نشین رہتی ہے کہ وہ اپنی تمام کامیابیوں کے لیے بالآخر اپنے رب کو جواب دہ ہے ۔

کیا ہمیشہ خوش نہیں رہا جا سکتاکیا کسی اور کی خوشی میں خوشی ڈھونڈھی نہیں جا سکتی کیا ہمیشہ اپنا غم ہی سب سے بڑا غم ہوتا ہے۔؟ کیا زندگی کسی اور کے لیے ”جی” نہیں جا سکتی۔؟ کیوں نہیں ایسا ہوتاکہ خود غرضی چھوڑ کر خود کو اور خود کی خوشیوں اور غموں کو کسی اور کو مکمل طور پر سونپ دیںایسا اسی صورت ہوسکتا ہے جب ہم اپنے اندر سے خود پسندی مغروریت اور انا پرستی چھوڑ کرانسانوں کو انسان سمجھنے لگیں اُن کے بارے میں بھی ویسا ہی سوچیں جیسا کہ اپنوں کے بارے میںسوچتے ہیں۔

آج کل جتنے مسائل ہیں اُن میں سے بیشتر مسائل کو ہم مشترکہ مفادات کو ترجیح دیکر بڑی آسانی سے حل کرسکتے ہیں بجائے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کے کیوں نہ ہم ہی پہل کر کے اُن لوگوں میں شامل ہوجائے اور لوگوں کیلئے باعث تقلید بن جائیں۔ہم لوگ ووٹ دیکر بس ایک طرف بیٹھجاتے ہیں کہ اب جو کرنا ہیں سیاست دانوں نے کرنا ہے ووٹ دینے سے کسی شہری کی ذمہ داری ادا نہیں ہوجاتی بلکہ ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کہ ہم نے جن لوگوں کو منتخب کیا ہے۔

کیا وہ ہمارے معیار پر پورا اترتے ہیں مگر ہم عارضی مفادات کے ہاتھوں کھلونا بن کر ان مکروفریب والے سیاست دانوں کے ہاتھو ںیر غمال بن جاتے ہیں اور پھر یہ لوگ اقتدار میں آکر مطلعق العنان بن بیٹھتے ہیں اور ایسے سمجھنے لگتے ہیں جیسے اب تا ابد حکمرانی ان کے ہاتھ رہے گی اور کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر انجامِ سیاست کی تاریخِ عالم گواہ ہے کہ غرور و تکبر کے نشے میں بدمست انسانوں اور ہاتھیوں کا ہولناک انجام ایک سا ہوا۔

Nile

Nile

نمرود سر میں جوتیاں کھاتا مرا تھا تو فرعون دریائے نیل کے پانیوں میں غرق ہو کر تا با ابد نشانِ عبرت بن گیا، شداد، سامری، قارون اورابراہا جیسے بدبختوں کو نہ خود ساختہ بہشت الارض میں کوئی مقامِ پناہ ملااورنہ ہی ان کے علوم ساحری اورجمع شدہ انگنت خزا نے انہیں واصلِ جہنم ہونے سے بچا پائے مگر ہوسِ زرکا لبادہ اوڑھے گورے چٹے لوگ کالی کرتوتوں میں کہیں سائنسدانوں اورکہیں ماہرین آثار قدیمہ کے بھیس میں آج بھی اْن کے گمشدہ و پراسرار خزانوں کی تلاش میں خطہء عرب،افریقہ پوری دنیا کے دشت و بیاباں کی خاک چھانتے یا کوہساروں کی سبز وادیوں میں لال بجھکڑ بنے یوں در بہ در ہیں۔

گویا ان خزینوں میں ہی تاقیامت زندگی دینے والا آب حیات ہے۔دوسری طرف اقتدارِاعلی کے حصول یا طوالت کے خو اہاں ملک و ملت سے غداری کا طعوق پہنے ننگ آدم کردارسیاست صلیبی بادشاہوں اور سامراجی بادشاہ گروں کے تابعدار غلام بن کر کاسہ و کشکول لئے بدیسی نگریوں میں تماشہء ذلت بنے گھومتے ہیں یا ان کے ایوانان ِ فتن سے محمد شاہ رنگیلے کی ہنوز دلی دور است کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں۔

کہ آج یزید کی قبر پر فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں، دنیا بھر کے وسائل اور جدید ٹیکنالوجی دستیاب ہونے کے باوجود آج تک کوئی انسان ہیبت اور بربریت کی علامت چنگیز خان کی قبر کا نام و نشان یا اتا پتہ نہیں ڈھونڈ پایا۔ ساری دنیا پرحکمرانی کا خواب دیکھنے والا سکندراعظم بخار کے ہاتھوں لاچار آسمان گھورتا وادی ِ عدم کو سدھارا تو طاقت کے بل بوتے دنیا کا سپر کنگ بننے کا خواہشمند ہٹلر قدرت کے ہاتھوں شکست کھا کر پوٹاشیم سائنایڈ کے زہر کا کیپسول لے کر اپنی نوجوان سنہری محبوبہ ایوا براؤن کے ساتھ زندہ قبر میں اْتر پارے کی طرح پگھل کر لمحوں میں خاک میں مل کر خاک ہوا۔

آمریت کا سہارا لیکر حکمرانی کرنے والوں کیلئے عبرت ہے کہ اْس کے اطالوی حلیف مسولینی کی لاش کو اْسی کی قوم نے اس وقت تک شہر کے چوراہے پر لٹکائے رکھا جب تک وہ تعفن سے گل سڑ کر ریزہ ریزہ نہیں ہوئی۔ چشمِ عالم نے یہ نظارہ ِ عبرت بھی بڑی حیرت سے دیکھا کہ شاہ ایران کی لاش کو قبرکی دوگز زمین کیلئے ساری دنیا گھومنا پڑی، سانحہء مشرقی پاکستان پر شیطانی جشن منانے والی بدبخت اندراگاندھی اوراْس کے پاکستان دشمن بیٹے ایسے بھیانک انجام کو پہنچے کہ آج تک اْس خاندان کے کسی فرد کو کرسیء اقتدار پر بیٹھنے کی جرات تک نہیں ہوئی ۔

میری یہ دلی دعا بھی ہے اور سادہ سی خواہش بھی کہ کاش ملک و ملت کے یہ نام نہاد خدام، پیشہ ور سیاسی بہروپیئے دین و دھرتی کے سودے کرنے والے ننگِ ملت، ننگ وطن، ننگ دین بتانِ دہر تاریخ کے وہ صفحات پڑھ لیں جن میں ان جیسے انگنت مکروہ کرداروں، ابن الوقت قوم فروشوں،بازارسیاستکے بے ضمیر لوٹوں، غدارانِ ملک و ملت اور مریضانِ ہوس ِ زر کا بھیانک اورعبرت ناک انجام صاف صاف لکھا ہے۔ آخر میں میں اپنے اُن تمام دوستوں کا بے حد مشکور ہوں۔

جنہوں نے میرے ایک قانونی مسائل میں میری مدد فرمائی اور اُن تمام احباب کا بھی جنہوں نے مجھے بذریعہ کال اور بذریہ ای میل مجھ سے اظہار یک جہتی فرمایا اور ان حالات میں کچھ ایسے قریبی دوستو کو بھی پرکھنے کاموقع ملا جنہوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا ا ورغائب ہوگئے وقت ضرورت فون تک اُٹھانے کی زحمت نہ کی اللہ اُن کو بھی خوش رکھے اور ہر مصیبت و بلا سے محفوظ رکھے ۔انتہائی قابل احترام میاں عامر محبوب محترم بھائی رضوان میر صاحب اور میرے پیارے دوست عامر حسین اور جرنلسٹ فائونڈیشن کے جناب ذوالفقار علی ملک صاحب کا بے حد مشکور ہوں جو ان نامساعد حالات میں میرے شانہ بشانہکھڑے رہیے اللہ ان مشفق دوستوں کوبھی جزائے خیرعطا فرمائے (آمین)

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر : امجد قریشی