طورخم بارڈر پر گیٹ لگانے کا فیصلہ حکومت اور فوج نے مل کرکیا، ترجمان پاک فوج

Asim bajwa

Asim bajwa

راولپنڈی (جیوڈیسک) ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ طورخم بارڈر پر افغان فورسز نے فائرنگ میں پہل کی جب کہ سرحد پر گیٹ لگانے کا فیصلہ حکومت اور فوج نے مل کر کیا۔

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے آپریشن ضرب عضب کے 2 سال مکمل ہونے پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ طورخم بارڈر پر افغانستان کی جانب سے فائرنگ میں پہل کی گئی جس کا بھرپور انداز سے جواب دیا گیا کیوں کہ بارڈر پر موجود جوان کسی آرڈر کا انتظار نہیں کرتا جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں میجر علی جواد شہید اور 19 جوان زخمی ہوئے تاہم ہرطرح کی سرحدی کشیدگی کا خاتمہ سیز فائرسے ہوتا ہے اور امید ہے کہ طورخم بارڈر کی کشیدگی بھی جلد ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ طورخم بارڈر پرگیٹ لگانے کا فیصلہ حکومت اور فوج نے مل کرکیا، یہ کوئی نیا گیٹ نہیں بلکہ 2004 میں بھی یہاں گیٹ موجود تھا، طورخم پر لوگ بے ہنگم طریقے سے بارڈر کراس کرتے ہیں، بارڈر مینجمنٹ میکنزم دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، طورخم پر چیکنگ کا نظام بہتربنانے کے لیے باڑ لگائی گئی اور دستاویزات کی چیکنگ اور تصدیق کئے بغیرافغان بارڈر سے کسی شخص کو آنے جانے نہیں دیا جائے گا اور افغان چیک پوسٹ پر سخت نگرانی کی جائے گی۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان گزشتہ 35 سال سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہا ہے اور ان کی دوسری نسل یہاں بڑی ہوکر کاروبار کررہی ہے، پاکستان اپنی سرزمین سے سرحد کے اس پار حملے کے لئے کسی کو اپنی زمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران قبائلی علاقوں سے بھارتی خفیہ ایجنسی “را” اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو ختم کیا جب کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے ہے کہ کسی ملک کا حاضر سروس افسر دوسرے ملک میں جاسوسی کرتا پکڑا گیا ہے تاہم کسی انٹیلی جنس ایجنسی کو ملک میں کام کرنے نہیں دیں گے۔

انگوراڈا چیک پوسٹ افغانستان کو دینے کے سوال پر ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان کی زمین کا ایک انچ حصہ بھی کسی کو نہیں دیا گیا،انگور اڈا کے علاقے میں نئی سڑک بننے کی وجہ سے ٹریفک کا دباؤ تھا اورانگوراڈا پر ہمارا گیٹ افغانستان کے علاقے میں بنا ہوا تھا اس لئے حکومت کی اجازت کے بعد افغانستان کو انگوراڈا گیٹ دیا گیا اور حکام کو اس حوالے سے آن بورڈ لیا گیا تھا۔

ترجمان آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری ایسا منصوبہ ہے جو ملک میں خوشحالی لائے گا جس کی حفاظت کی ذمہ داری پاک فوج کی ہے اور اس منصوبے کی تکمیل کا عزم پاک فوج کرچکی ہے جب کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سی پیک کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا پہلے ہی بتا چکے ہیں۔

آپریشن ضرب عضب پر بریفنگ کے دوران ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 15 جون 2014 سے پہلے پورے ملک میں دہشت گردی پھیلی ہوئی تھی اور ہر دوسرے دن دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہورہی تھیں، شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا تھا جہاں دہشت گردوں کی بھرتیاں ہوتی تھیں اور ملک میں رونما ہونے والے جتنے دہشت گردی کے واقعات تھے انہیں یہیں سے کنٹرول کیا جارہا تھا، 15 جون 2014 کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے نام سے فیصلہ کن آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ ہوا جس کے دوران اب تک 500 فوجی افسران و جوان شہید جب کہ 3500 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن شروع کرنے سے قبل افغانستان کی اعلی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا اورانہیں بتایا گیا کہ آپریشن بلا تفریق ہوگا اور دہشت گردوں کے بھاگ کر افغانستان آنے کا بھی امکان ہے، پڑوسی ملک سے کہا گیا کہ دہشت گردوں کو پکڑیں، ماریں یا ہمارے حوالے کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں دہشتگرد پھیلے ہوئے تھے اور یہ نوگو ایریا تھا، آپریشن شروع ہوا تو متاثرین کے لئے بنوں اور مختلف علاقوں میں کیمپ لگائے گئے، ابتدائی طور پر 3600 کلو میٹر کا علاقہ کلئیر کیا گیا جس کے بعد بعض دہشت گرد خیبر ایجنسی فرار ہوگئے جہاں سے لشکر اسلام کو اکھاڑ کر پھینکا ہے جس کے 900 افراد کو ہلاک کیا گیا، دہشت گردوں سے اتنا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا جس سے وہ 15 سال تک لڑ سکتے تھے، آئی ڈیز اور دھماکاخیزا تیار کرنے کی 7 ہزار فیکٹریاں تھیں، 35 ہزار سے زائد راکٹ اور مارٹرگولے برآمد کئے گئے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کراچی میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کئے جانے سے قبل وہاں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان جیسی کارروائیاں عام تھیں۔ شہر میں آپریشن شروع ہونے سے قبل یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ کراچی دہشت گردوں کے ہاتھ چلا گیا ہے تاہم انٹیلی جنس بنیادوں پر کی گئی کارروائیوں کے دوران کراچی سے 1200 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک یا گرفتار کیا گیا جس کے بعد شہر قائد میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے اور وہاں جرائم کی وارداتیں بہت حد تک کم ہوئی ہیں۔

ملا اختر منصور پر ڈرون حملے سے متعلق لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے، یہ بات غلط ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی اجازت سے ہورہے ہیں، ملا اختر منصور پر ڈرون حملہ تفتان کے قریب آرسی ڈی ہائی وے پرہوا، یہ ڈرون حملہ پاکستان کی سلامتی اور داخلی خود مختاری کے خلاف تھا اور پاکستان نے اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا ہے۔
فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں 102 کیسز کا فیصلہ ہوچکا ہے، جن میں 77 دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے جب کہ دیگر بھی جلد ہی اپنے انجام کو پہنچیں گے۔