ٹرانس جینڈرز (خواجہ سراوں) کو تلخ معاشرتی رویوں سامنا

Transgender

Transgender

تحریر : عبدالجبار خان دریشک
یہ دنیاوی باتیں ہیں، کہ ایک انسان اپنے آپ کو دوسرے انسان سے افضل، برتر، اعلی، بڑا، طاقتور ، خوبصورت ، عالم ، دولت مند اور پتہ نہیں کیا کچھ سمجھتا ہے۔ لیکن جب ایک اعلی منصب کا انسان، اپنے آپ کو افضل سمجھنے کے بعد موت کی آغوش میں جاتا ہے تو وہ مٹی کی چادر اوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس مٹی کا ہی ہو جاتا ہے۔ انسانوں میں ساری تفریق خود انسان کی پیدا کردہ ہے اللہ پاک کے آگے سب انسان برابر ہیں اگر کوئی بلند درجہ رکھتا بھی ہے تو اپنے نیک اعمال کی وجہ سے ، اگر ایک انسان دوسرے سے اعلی ہوتا تو ہر انسان کی پیدائش دوسرے سے مختلف ہوتی کوئی ماں کے پیٹ کی بجائے آسمان سے گرتا تو کوئی پہاڑوں اور پتھروں سے نکلتا۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اللہ پاک نے دین اسلام میں تمام انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ سلوک ، رویے ،اور حقوق بتا دیے ہیں۔ لیکن ہم اکثر جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں یہ صورت حال صرف عام انسانوں تک محدود نہیں بلکہ ہم تو معزور افراد کے ساتھ بھیانک سلوک روا رکھتے ہیں۔ اس علاوہ ہمارا معاشرے میں پیدائشی طور پر ٹرانس جینڈر مخنث یا جسے عام زبان میں خواجہ سرا کہا جاتا ہے ان کو انسان ہی تصور نہیں کرتے۔ معزور بچہ یا خواجہ سرا پیدا ہو جائے تو اسے بوجھ سمجھتے ہوئے سب سے پہلے اسے اپنے خاندان والے گھر باہر پھنک دیتے ہیں۔ جب وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے مختلف پیشے اپناتے ہیں وہ باحالت مجبوری پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے شادی بیاہ کے پروگرامز میں ڈانس کرتے ہیں ، گلیوں بازاروں میں بھیک مانگتے ہیں ، باحالت مجبوری جسم فروشی کے گنوانے فعل کی طرف لگ جاتے ہیں۔ تو بھی معاشرہ ان کو قبول نہیں کرتا۔ ان میں سے جو زیادہ خوبصورت ہوگا تو ڈانس پارٹیوں میں اس دوکانداری چلتی ہے اور جو بچارے زیادہ خوبصورت نہیں ہوتے وہ ان ڈانسرز خواجہ سراو ¿ں کی پارٹیوں میں پھنکے جانے والے پیسے اکھٹے کرتے ہیں۔ ایسے خواجہ سرا گرو کی خدمت کے ساتھ اس ڈانسر خواجہ سرا کی خدمت کرتے ہیں اس کے کپڑے دھوتے ہیں، جن کی حیثیت ایک نوکر کی طرح ہوتی ہے اس خدمت کے بدلے انہیں رہنے کے لیے جگہ اور کھانا دیا جاتا ہے۔

مغلیہ دور میں خواجہ سرا شاہی محلوں میں ملکہ اور دیگر شاہی خواتین کی خدمت پر مامور ہوتے تھے۔ اکثر شاہی خاندان میں انہیں سازش میں شامل کیا جاتا تھا کیونکہ یہ بادشاہ ملکہ اور دیگر شاہی خاندان کی راز کی باتوں سے واقف ہوتے تھے۔ سازش کی کامیابی یا ناکامی کے بعد ان میں سے اکثر قید یا پھر قتل کردیے جاتے تھے۔ شاہی محلوں میں رہنے کی وجہ سے ان کو عام ریاعہ سے کوئی زیادہ پریشانی نہیں رہتی تھی ، لیکن آج کے تعلیم یافتہ اور آزاد دور میں ان سے اب بہت برا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ حال صرف ہمارے ملک کا نہیں تقریباً دنیا کے سارے ممالک میں ان کی صورت حال تقریباً ایسی ہے سوائے چند ایک ممالک میں ان کو بہتر حقوق دیے جاتے ہیں۔ ایک تو حکومت کی طرف سے ان کو سہولیات نہیں دی جاتیں تو دوسری طرف معاشرے کے افراد کی تنگی نظری بھی ہے، وہ انہیں بہتر انسان کے طور پر قبول ہی نہیں کرتے۔ ہمارا معاشرہ ان کو ڈانسر ، بھیکاری دیکھنا چاہتا ہے لیکن یہ بچارے جب بھیکاری اور ڈانسر بنتے ہیں تو انہیں پھر بھی قبول نہیں کیا جاتا۔ افسوس تو یہ ہوتا ہے کبھی کسی پرائیویٹ ادارے ، فیکٹری ، شاپنگ سنٹر ، پر کسی نے ان کو نوکری پر نہیں رکھا۔ اگر کوئی خواجہ سرا باعزت روز گار کما بھی رہا ہوتا ہے تو اس کا تمذاق اڑایا جاتا ہے ، اسے ہیجڑا ، کھسرا ، اور پتہ نہیں کیا کچھ بولا جاتا ہے۔

خواجہ سراو ¿ں میں کوئی ایسا قسمت والا ہوگا۔ جو باعزت روزگار کما رہا گا لیکن وہاں بھی اسے معاشرتی رویوں کی تلخیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ان کے پاس طاقت اور عقل اتنی عام انسانوں جتنی ہوتی ہے اگر ان کو تعلیم و تربیت دی جائے تو یہ بھی بڑے عہدے حاصل کر کے کامیاب انسان بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔ ایسے ہی بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے ایک خواجہ سرا جوتیا اپنی محنت کے بل بوتے پر سول کورٹ کا جج مقرر ہوئی۔ جوتیا نے جب 2009 میں گھر چھوڑا تو اس کے بعد وہ اترپردپش کے علاقے میں رہنے لگی جہاں وہ دن میں اپنی پڑھائی کے لیے کالج جاتی اور رات کو مختلف تقریبات میں ڈانس کر کے اپنا خرچ پورا کرتی، اس نے مسلسل محنت جاری رکھی اور اسے ایک دن کامیابی مل گئی۔ ہمارے ہاں خواجہ سراو ¿ں کو نوکریوں میں مخصوص کوٹہ تو دیا جاتا ہے۔ لیکن جب وہ مختلف دفاتر میں تعینات ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جیسے پہلے کیا جاتا تھا۔

اکثر میڈیا میں خواجہ سراو ¿ں پر تشدد کے واقعات کی خبریں رپورٹ ہوتی رہتی ہیں۔ بدمعاش اور غنڈے انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان سے باقاعدہ بھتہ وصول کرتے ہیں۔ کچھ سال قبل پشاور میں ایک خواجہ سرا علیشا کو بھتہ نہ دینے پر چھ گولیوں مار دی گئیں۔ جب اسے ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹرز یہ فیصلہ نہ کر سکے اسے کون سے وارڈ میں رکھا جائے زنانہ یا مردانہ جب علیشا کو مردانہ وارڈ لے جایا گیا تو وہاں موجود مردوں نے اسے نکالنے کا کہا ، اتنی دیر میں علیشا کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے ایک انسان کی جان کی پروا نہیں لیکن خود کی اپنی جنسی اجارہ داری قائم رہنی چاہیے۔ ہمارے ملک میں ان کے تحفظ کے لیے قانون تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بات صرف ہسپتال تک محدود نہیں انہیں بس ٹرین اور دیگر مقامات پر بھی ایسی پریشانی رہتی ہے انہیں عورت مرد دونوں ہی برداشت نہیں کرتے۔ یہ بچارے جب روزی روٹی کی خاطر پروگرام میں جاتے ہیں تو پولیس انہیں تنگ کرتی ہے۔

ان کو ایمپلی فائیر ایکٹ کی خلاف ورزی پر بند کیا جاتا ہے۔ ان کے پروگرام بند کروائے جاتے ہیں پھر اس سے تنگ ہوکر بھوک کے ہاتھوں مجبور یہ لوگ بھیک مانگتے ہیں۔ یہاں پر میں انڈونیشیا ایک واقعہ بتانا چاہوں گا ، گزشتہ دونوں انڈونیشیا کے صوبے آچے میں پولیس نے درجنوں خواجہ سراو ¿ں کو مختلف بیوٹی پارلروں پر چھاپے مارپکڑا۔ان خواجہ سراو ¿ں نے لڑکوں کے ایک گروپ کو تنگ کیا تھا جس کی شکایت پر پولیس نے کاروائی کی۔ انڈونیشیا صوبے آچے میں اسلامی قوانین نافض ہیں ان خواجہ سراو ¿ں کو کچھ دن پولیس کی تحویل میں رکھا جائے گا جن کو پانچ روزہ تربیت بھی دی جائے گی۔ اس تربیت میں مقامی مولوی حضرات انہیں مردوں کی طرح بولنا اور چلنا سکھانے کے علاوہ اخلاقیات پر درس بھی دیں گے۔ پولیس کے مطابق ہم ان کی ذہنیت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بہتر انسان بن سکیں۔ انڈونیشیا میں ان کے حقوق کے خیال رکھنے کے ساتھ انہیں باعزت روزگار بھی دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ خواجہ سراوں کے شناختی کارڈ بنانے کے لیے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فیصلہ دیا تھا۔ جس میں انہیں باعزت روز گار کے ساتھ ان کی فلاح بہبود ، نوکریوں میں کوٹہ اور ووٹ کا حق دیا تھا۔ خواجہ سراو ¿ں کے حقوق کے حوالے اسمبلی میں بل تو متعدد بار پیش کیے گئے لیکن ان پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی لیکن اب موجودہ حکومت نے ان حقوق کے تحفظ کا قانون پاس کر دیا ہے اس مجوزہ قانون سے پہلے خواجہ سراوں کو مردم شماری میں بھی شمار کیا گیا جن کا فارم میں علیحدہ خانہ بنایا گیا تھا۔ اب حالیہ دونوں سینیٹ کمیٹی نے خواجہ سراو ں کے حقوق کا مجوزہ بِل منظور کیا ہے۔ سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے خواجہ سراوں کے حقوق کے تحفظ کے قانون کی متفقہ طور پر منظوری دی ہے جس کے تحت خواجہ سراوں کو الیکشن لڑنے اور سرکاری عہدہ رکھنے کا حق حاصل ہوگا۔ خواجہ سراو ں کو پراپرٹی کی خرید و فروخت اور لیز پر حاصل کرنے کا بھی حق حاصل ہوگا۔اس کے علاوہ خواجہ سراو ں کو بھیک مانگے پر مجبور کرنے یا اس کام کے لیے بھرتی کرنے والوں کو چھ ماہ قید اور جرمانہ کی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ان کو وراثت میں حق ملے دیا جائے گا، اور انہیں قانونی دستاویزات میں اپنی جنس اپنی مرضی کے مطابق لکھوانے کا حق حاصل ہوگا۔ کوئی بھی خواجہ سرا 18 برس کی عمر کے بعد شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں خود کو ’میل‘ یا ’فی میل‘ خواجہ سرا کے طور پر درج کروا سکے گا۔ خواجہ سرا ووٹ دینے کے ساتھ قومی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ الیکشن لڑ سکیں گے۔

اس قانون کی روح سے حکومت کو پابند کیا گیا کہ وہ خواجہ سراو ں کیلئے پروٹیکشن سنٹرز، بحالی مراکز بنانے سمیت صحت کی سہولیات فراہم کرے اور خواجہ سراو ں کیلئے تعلیم بالغاں کا اہتمام کرے۔ جرائم میں ملوث خواجہ سراو ں کیلئے علیحدہ حوالات اور جیلوں کا قیام عمل میں لایا جائے ، جبکہ روزگار کمانے میں مدد فراہم کرنے کیلئے خواجہ سراو ں کیلئے ’سپیشل ووکیشنل ٹریننگ سنٹر‘ بنائے جائیں۔ چھوٹا کاروبار شروع کرنے والے خواجہ سراو ں کی آسان قرضوں اور گرانٹس کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جائے۔ تعلیمی اداروں، ملازمت، تجارت کے مواقع، صحت، رہائش اور سفر کی سہولیات میں خواجہ سراو ں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ممانعت ہوگی، جبکہ خواجہ سراو ں کو حراساں کیے جانےسے ممانعت کو بھی قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔قانون میں پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے خواجہ سراو ں کو تعلیم کے یکساں مواقع دینے کے پابند ہیں جبکہ قانون میں حکومت سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ وہ خواجہ سراو ں کو مفت بنیادی تعلیم فراہم کرنے اور ملازمت کے مواقع دینے کے حوالے سے اقدامات کرے۔لیکن اس پر مکمل طور پر کب قانون ساز ی عمل میں لا ئی جاتی ہے کیونکہ ابھی سینٹ کا الیکشن ہو نے جارہا ہے اور اسمبلی کی مدت بھی ختم ہو نے کے نز دیک ہے۔

صوبہ خیبر پختو انخواہ کے خواجہ سراوں نے آئین کے آریٹکل 199 کے تحت پشاور ہائی کورٹ میں اےک رٹ پٹیشن دائر کی ہے جس میں انہوں نے اپنے ووٹ کے حق کو قا نو نی تحفظ فراہم کر نے کا مطالبہ کیا ہے اس رٹ کو معروف قا نون دان گل رحمان ایڈوکیٹ کی وساطت سے دائر کیا گیا ہے ۔رٹ میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کے آنے والے الیکشن میں امید واروں کی نامز دگی کے فارم میں مر د اور عورت کے خانوں ساتھ خواجہ سرا کا خانہ بھی شامل کیا جائے ۔ جیسے مر دم شماری میں ان کو الگ پہچان دے کر شمار کیا گیا تھا جبکہ پولنگ اسٹیشن پر بھی انہیں علیحد ہ جگہ اور ان کے لئے الگ عملہ تعینا ت کیا جائے ۔پاکستان میں خواجہ سرا مسلسل اپنے حقوق کی آواز بلند کر رہے ہیں ۔ ان کی اس کو شش کی بنیا د پر ان کے لیے اب کچھ راہیں ہموار ہو رہی ہیں اور آئند ہ الیکشن میں خواجہ سرا کمیو نٹی سے ان کے اپنے امید وار بھی الیکشن میں کھڑے ہو کر اپنے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی جستجو جاری رکھیں گے۔

امید کی جاتی ہے حکومت جلد قانو ن سازی مکمل کر کے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں ہر ممکن اقدامات اٹھائے گی۔ ساتھ ہی جہاں ان کے حقوق اور تحفظ کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے تو اس کے ساتھ معاشرے میں بھی معاشرے میں بھی آگاہی دینی ضروری ہے، کہ خواجہ سراو ں کو معاشرے فرد تسلیم کرتے ہوئے باقی تمام افراد کی طرح ان کو بھی عزت و احترام دیں اور ان کے حقوق کا خیال کریں ، پبلک مقامات آفس دوکان وغیرہ پر ان کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ ان کو کاروباری جہگوں ، فیکٹریوں اور پرائیویٹ اداروں میں نوکری پر رکھا جائے تاکہ یہ لوگ باعزت روزگار کما سکیں۔

Abdul Jabbar Khan

Abdul Jabbar Khan

تحریر : عبدالجبار خان دریشک