درختوں کی کٹائی اور شجر کاری مہم

Shajar Kari

Shajar Kari

تحریر : محمد مظہررشید چوہدری
دنیا کا 31%حصہ جنگلات پر مشتمل ہے معیشت دان کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں جنگلات کل رقبہ کے 25%تک ہونے چاہیے پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ ایک اندازے کے مطابق 05.31% ہے جنگلات ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں زمینی کٹائو،سیلاب گرمی سردی سے بھی محفوظ رکھتے ہیں پاکستان میں جنگلات کی رقبہ کے لحاظ سے کوئی بڑی تعداد نہیں ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک کے ساتھ ساتھ صنعتی ملک بھی ہے اس کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ لکڑی کی چیزیں بنا کر پورا ہوتا ہے پاکستان میں اسی نظریہ کو دیکھتے ہوئے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں اور مختلف قسم کی اشیاء کی تیاری میں لگا دیے جاتے ہیں۔

درختوں کی روز بروز بڑھتی کٹائی ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جس رفتار سے کٹائی ہو رہی اس کے مقابلے میں پیداور نہ ہونے کے برابر ہے پاکستان میں ہر سال دو مرتبہ شجر کاری کا سیزن آتا ہے پہلا جنوری کے وسط سے شروع ہو کر مارچ کے وسط تک جبکہ دوسرا سیزن جولائی سے ستمبر کے وسط تک لیکن شجر کاری کے موسم میں اُس تعداد سے پودے نہیں لگائے جاتے جس رفتار سے درختوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے پاکستان میں جنگلات کی بڑھتی ہوئی کٹائی کی بڑی وجہ آبادی میں اضافہ بھی ہے لوگوں کے رہنے کے لیے جنگلات کو ختم کر کے ہائوسنگ سوسائٹی کی تعمیر ہے درخت نا صرف انسانوں کے لیے فائدہ مند ہیں بلکہ جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں پاکستان میں جنگلات کی تیزی سے کٹائو کے نتیجے میں بے شمار جاندار ناپید ہونے کے قریب ہیں اور اسی طرح اگر ہم انسانوں کی بات کریں تو انسانی ضروریات کا بڑا حصہ جنگلات سے حاصل ہوتا ہے لیکن ملک میں درختوں کو کاٹنے کا کام تیزی سے ہونے کی وجہ سے اب ہم غذا کی کمی کا بھی باعث بن رہے ہیں موسم برسات میں شجر کاری مہم کا آغاز ہو چکا ہے حکومت ہر سال کی طرح اس مہم میں بھی زیادہ سے زیادہ پودے لگانے کا عزم رکھتی ہے ہمارے ہاں پودے تو بڑے جوش وخروش سے لگائے جاتے ہیں اور خاص طور پر اعلی حکام کی بڑی بڑی تصاویر میڈیا کی بھی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن افسوس اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ لگائے گئے۔

پودوں کی حفاظت اور نگہبانی کی جانب توجہ بالکل نہیں دی جاتی جسکی وجہ سے لگائے گئے پودے تناور درخت نہیں بن پاتے وطن عزیز میں گزشتہ چند سالوں میںلاکھوںدرختوں کو سڑکوں کی تعمیراور نئی آبادیوں کے قیام کی وجہ سے کاٹ دیا گیا لیکن اس کے مقابل نئے پودے یا درخت لگانے کی رفتار انتہائی سست اور کم رہی اتنی بڑی تعداد میں درختوں کے کٹ جانے سے درجہ حرارت میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے وطن عزیز میں چار موسم ہیں جن میں شدت آرہی ہے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پانچ سے چھ ہزار کے قریب درختوں کی اقسام موجود ہیں۔

اوکاڑہ شہر میں چند سال پہلے تک کئی اہم سڑکوں کے کنارے درختوں کی بہتات ہوتی تھی جس کی وجہ سے مسافروں خاص طور پر سڑک کے کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے خوشگوار سفر کا احساس موجود رہتا تھا لیکن سڑکوں کو کشادہ کرنے کے چکر میں وہ درخت بھی کاٹ دیے گئے جو سڑک کی کشادگی میں کوئی رکاوٹ نہیں بن رہے تھے لیکن انتظامیہ نے سڑک کی کشادگی کا مبینہ بہانہ بنا کر درختوں کو کاٹ دیا جو کچھ بچ گئے وہ واپڈا کے حکام نے بجلی کی تاروں میں رکاوٹ کا کہہ کر کاٹ دیے اس کے علاوہ نئی نئی آبادیوں (سوسائٹیوں) کے قیام نے جہاں زیر کاشت رقبہ کو کو کم کر دیا وہیں درخت بھی کٹتے چلے گئے۔

اوکاڑہ کی تحصیل روڈ چو آج سے چند سال پہلے تک ٹھنڈی سڑک کے نام سے معروف تھی آج موسم گرما ہو یا موسم سرما ٹھنڈی سڑک مسافروں کے لیے اور پیدل چلنے والوں کے لیے تپتی سڑک بن چکی ہے یہ ہی حال ضلع اور شہر کے دیگر علاقوں کا ہے جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ نئی سوسائٹیوں کے قیام سے جہاں زیر کاشت رقبے کم ہوئے ہیں وہیں درخت اور پودوں کا بھی خاتمہ ہوگیا تیس پنتیس سال پہلے ہر گھر کے آنگن میں ایک یا دو درخت خاص طورپر چھوٹے پودے یا پھل والے درخت تو ضرور موجود ہوتے تھے اب ان گھروں کی جگہ بلند وبالا عمارتیں کھڑی نظر آتی ہیں مختصر ہمیں اپنی بلکہ تمام جانداروں کی بقا کے لیے درختوں کی اشد ضرورت ہے آج اگر ہم سب یہ عہد کر لیں کہ ایک پودا ہر شخص لگائے گا اور اسکی حفاظت بھی کرے گا تو مجھے کامل یقین ہے کہ میرے وطن بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح سر سبزاور خوشحال نظر آئے گا۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہررشید چوہدری
03336963372