دھرنہ اور تکلیف

Protest

Protest

تحریر : روہیل اکبر
تحریک لبیک یا رسول اللہ کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ انتخابات 2017ء کے ایکٹ میں جو ترامیم ہوئی تھیں بلخصوص ختم نبوت کے حلف کے لفظ میں جو تبدیلی کی گئی وہ ناقابل برداشت ہے اور اس تبدیلی کے اصل خالق کو سامنے لایا جائے یا پھر وزیر قانون مستعفی ہو جائیں پہلے لاہور اور فیصل آباد میں مظاہرے ہوئے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی جسکے بعد تحریک کے قائدین نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیااس اعلان کو بھی حکومت میں بیٹھے ہوئے سبھی بادشاہوں نے معمولی بات سمجھی اور آخر کار وہ دن آگیا جب تحریک کے قائدین نے عاشقان رسول کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ شروع کردیاجب اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کو 20روزگذر گئے تو حکومت نے اسی عدالت کے احترام میں جسکے فیصلے وہ آئے روز جوتے کی نوک پر رکھتی ہے پولیس اور ایف سی کے 8ہزار جوانوں کی مدد سے آپریشن کا راستہ اختیار کیا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی شدید آنسو گیس کی بارش کی گئی کہ دور دراز رہنے والے لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور سانس لینا مشکل ہوگیا جن پر آنسو گیس کی یہ گولہ باری کی گئی انکا حشر ہسپتالوں میں نظر آنا شروع ہوگیااور موقعہ پر ہونے والی شہادتوں نے پورے ملک میں احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیاجسکے بعد پورا ملک جام ہوگیاچونکہ اسلام آباد آپریشن کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی تھی جس کے بعد کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ جھنگ‘ پنڈی بھٹیاں‘ اٹک‘ میانوالی‘ ملتان‘ شیخوپورہ اور مریدکے سمیت لگ بھگ تمام اضلاع میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ لاہور میں ریلوے‘ موٹروے اور میٹرو بند کردی گئی۔پیمرا نے بھی ٹیلی ویڑن چینلز پر مظاہرے دکھانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام نیوز چینلز اور انکی ویب سائٹس بند کردی لیکن احتجاج کی آگ بڑھتی چلی گئی جس کے بعد سوشل میڈیا بھی بند کردیا گیا۔

لاہور شہر کی اکثر و بیشتر معروف شاہراہوں پر مدرسوں کے طالب علم علماء کرام کی قیادت میں احتجاج کیلئے نکل آئے۔ مال روڈ پر ڈاکٹر آصف جلالی کی قیادت میں ہزاروں افراد نے پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دے دیا۔ اسلام آباد میں آپریشن شروع ہونے کے بعد وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نااہل وزیراعظم کے پاس رائے ونڈ جاتی عمرہ جا پہنچے حکومت کی طرف سے آپریشن شروع کرنے سے قبل تحریک کی مجلس شوری کا فیصلہ تھا کہ وزیر قانون زاہد حامد حلف نامے میں ترمیم کا ذمہ دار ہے جس کے تحت الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کیلئے ختم نبوت پر ایمان رکھنے کے حلف کے الفاظ کو اقرار میں بدل دیا گیا تھااس لیے وزیر قانون مستعفی ہو جائے احتجاج کسی بھی تنظیم اور پارٹی کا بنیادی حق ہے اور جب بات نبی اکرم ﷺ کی ذات کے حوالہ سے ہو تو پھر کوئی بھی مسلمان اس وقت تک کامل مسلمان نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے ماں باپ ،آل اولاد اور خود اپنے آپ کو عزت ناموس رسالت پر قربان نہ کردے بس اتنی سی بات تھی جسے ہمارے حکمران نہ سمجھ سکے یہ ایسے ایمان دار ہیں جنہیں تلاوٹ کرتے ہوئے قران کی آیات بھی یاد نہیں رہتی اور جب ان سے الیکشن کے وقت پہلے تین کلمے سنانے کو کہا جاتا تھا تو انہیں سوائے پہلے اور دوسرے کلمہ کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا تھا جنہیں ہر نماز جنازہ سے پہلے سمجھانا پڑتا ہے کہ کیسی پڑھی جاتی ہے اور نبی کے دیوانے انہیں یہی بتانے اور سمجھانے آئے تھے اللہ کے نبی کی عزت کی خاطر موت کیا چیز ہے جس کے لیے وہ تیاربیٹھے ہیں جب آپریشن ہوا تو پھر اسکا نظارہ بھی دیکھ لیا کہ عاشقان رسول کے سامنے موت کی کتنی حیثیت ہے کسی نے پیٹھ پیچھے گولی کھائی نہ آنسو گیس کا گولہ سب کے ماتھے اور سینے خون سے لت پت تھے۔

میڈیا تو پہلے ہی حکومت کے کنٹرول میں تھا حلقہ این اے 120کے الیکشن سے لیکر فیض آباد دھرنہ تک کسی نے کوریج نہیں دی جو سوشل میڈیا چل رہا تھا حکومت نے اسے بھی بند کردیابند کرنے سے یاد آیا کہ بہت سے لوگوں کو اعتراض تھا کہ دھرنے سے سڑک بند ہوگئی جسکی وجہ سے شہریوں کو آنے جانے میں بڑی تکلیف ہورہی ہے انہیں کراچی میں بلاول ہاؤس کے سامنے 12سال سے بند سڑک کی کیوں تکلیف نہیں ہوئی ،ماڈل ٹاؤن لاہور میں شہباز شریف کے گھر کے سامنے 15سال سے بند سڑک کی کیوں تکلیف نہیں ہوئی ،رائے ونڈسے جاتی عمرہ کو جانے والی نااہل وزیر اعظم کے گھر کے سامنے بند سڑک کی کیوں تکلیف نہیں ہوئی ،پشاور مال روڈ 15سال سے عوام کے لیے بند ہے اسکی کیوں تکلیف نہیں ہوئی،مریم نواز اپنی بیٹی مہرالنساء سے ملنے جائے تو راستے بند ہو جاتے ہیں اس وقت تکلیف کیوں نہیں ہوتی ،اسلام آباد میں ججز کالونی میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ،خادم اعلی اسکے بیٹے حمزہ شہباز ،وزیراعظم حتی کہ ممنون حسین کے لیے گھنٹو ں سڑکیں بند رہتی ہیں اس وقت تکلیف نہیں ہوتی ؟ کیا انسانیت صرف ایک سڑک بند ہونے پر ہی جاگ جاتی ہے اور وہ بھی تاجدار ختم نبوت کے نام پر انصاف مانگنے والوں کے لیے جن کا صرف ایک ہی سوال ہے کہ حلف نامے کو تبدیل کرنے والوں کو سزا دی جائے جو یہ مطالبہ لیکر بیٹھے ہیں انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔

کیا ہم بطور مسلمان صرف نام اور دکھاوے کے ہیں کہ کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے اس پیارے پاکستان میں جسکی جو مرضی اسلام کے خلاف کام کرتا رہے اور اسے کوئی پوچھے بھی نہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی مثال کیا خوب یہاں پوری آرہی ہے ایسا تو آمریت کے دور میں بھی نہیں ہوتا جو اس نام نہاد جمہوری حکومت نے کردیا ہے ذمہ دار اور غیرذمہ دار میڈیا کو یکساں طور پر کوریج سے روکنا اور عوامی رابطوں کی ویب سائٹس کو بند کرنا افسوسناک ہے جو حکومت کی بدنامی ہی نہیں‘ جمہوری حکومت کے دامن پر ایک بدنما داغ بھی ہے۔آخر میں تحریک لبیک یا رسو ل اللہ کے سربراہ خادم حسین رضوی کا پیغام کہ اب دھرنا جاری رہے گاصرف ایک وزیرنہیں پوری حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے اور کوئی پیر یا عالم مذاکرات کی پیشکش نہ کرے، ہماری اپنی کمیٹی مذاکرات فیصلہ کریگی کیونکہ ابھی انتظامیہ سے دھرنے کے نقصان کا جواب بھی لینا ہے پیرافضل قادری نے بھی حالات کی ذمے داری حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم پر وحشیانہ تشدد کے بعد اب پو ری کابینہ کو جانا ہوگااور جب تک مطالبات تسلیم نہیں ہوتے اس وقت تک دھرنا جاری رکھیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200